پیپلز پارٹی کی واپسی ہو سکے گی؟

سچی بات تو یہ ہے کہ اس سوال کا جواب پیپلز پارٹی والوں کو خود تلاش کرنا چاہیے۔ اس الیکشن میں انہیں جس بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا، پنجاب ، خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں ان کا جیسے صفایا ہوا، اس نے میرے جیسے آدمی کو بھی پریشان کردیا،جس کا پیپلزپارٹی کے ساتھ کبھی کوئی جذباتی یا سیاسی تعلق نہیںرہا۔ میرا خیال تھا کہ اس شکست کے بعد پیپلز پارٹی میں بڑے پیمانے پر سوچ بچار کا عمل شروع ہوگا اور پارٹی قیادت اپنی غلطیوں کا ادراک کرتے ہوئے مستقبل کے لئے کوئی ٹھوس حکمت عملی وضع کرے گی۔ بدقسمتی سے ایسا ہوتا نظر نہیںآرہا۔ چند دن پہلے صدر زرداری لاہور تشریف لائے۔ انہوں نے اپنے پارٹی لیڈروں کا مورال بلند کرنے کی کوشش کی اور شکست کی تمام تر ذمہ داری ملکی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ اور سازشوں پر ڈال دی۔اپنی گفتگو میں کہیں کہیں انہوں نے ایک آدھ جملے میں اپنی کسی غلطی کا اعتراف بھی کیا، مگر مجموعی طور پر یہ تاثر ملا ،جیسے پیپلزپارٹی اس شکست کی وجوہات تلاش کرنے ،اپنی داخلی کمزوریوں اور غلطیوں کا ادراک کرنے کے بجائے خارجی کوششوں اور سازشوں کو قصوروار سمجھتی ہے۔ یہ تجزیہ خاصا سطحی اور استدلال کے لحاظ سے کمزور ہے۔ پیپلزپارٹی کی شکست وریخت اور اس کا بتدریج کمزور ہونا کسی ایک جماعت یا اس کے سیاسی کارکنوں کامسئلہ نہیں ،بلکہ ایک اہم قومی جماعت ہونے کے ناتے یہ ایک اہم سیاسی ایشو بنتا ہے ۔ ایسا موضوع جو سنجیدہ تجزیے کا متقاضی ہے۔ اس حوالے سے تین چار پہلو زیادہ اہم ہیں، ان پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ ٭… پیپلزپارٹی کا سیاسی سفر چار عشروں سے زیادہ عرصے پر محیط ہے۔ اس دوران کئی نشیب وفراز آئے۔ پارٹی ڈکٹیٹروں کے ظلم وستم کا نشانہ بنتی رہی۔ جنرل ضیاء کو پی پی پی اور بھٹو کا نام سننا گوارا نہیں تھا، ان کا خیال تھا کہ قوم بھٹو کو بھول چکی ہے ۔ ان کے جانے کے فوراً بعد انتخابات ہوئے تو پیپلزپارٹی اقتدار میں آگئی۔ 97ء میں پیپلزپارٹی کو بری طرح شکست ہوئی، قومی اسمبلی میں بمشکل وہ درجن بھر نشستیں جیت سکی۔پنجاب بھر میں اس کا صفایا ہوگیا۔ ایسا لگا کہ پیپلز پارٹی شاید ختم ہوگئی۔ ایسا نہیں ہوا، 2002ء کے انتخابات میں وہ دوبارہ بڑی قوت بن کر اُبھری۔ جنرل مشرف کو پیٹریاٹ بنوا کر پیپلز پارٹی کی پیٹھ میں چھرا گھونپنا پڑا۔ 2008ء میں بھی پیپلزپارٹی کو اقتدار مل گیا۔ اس اعتبار سے حالیہ انتخابات میں شکست بھی روٹین کا حصہ سمجھی جا سکتی ہے۔ ایسا مگر ہے نہیں۔ پیپلزپارٹی اپنی سیاسی زندگی کے سب سے گمبھیر چیلنج سے دوچار ہوئی ہے، ایسا چیلنج جس کا موثر جواب نہ دینے سے اس کا وجود بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ ٭… پیپلزپارٹی ماضی میں جن خطرات سے دوچار رہی، اسے وہاں سے نکالنے کے لیے مسیحا موجود تھا۔ ایسا لیڈر جو بھٹو تھایا جس نے بھٹو لیگیسی (وراثت)کو آگے بڑھایا۔بھٹو صاحب نے پیپلزپارٹی کو بنایا،ا سے اٹھایا اور ملک کی اہم ترین جماعت بنا دیا۔ان کی شخصیت کا ایسا سحر تھا جس نے عوام کے ایک بڑے حصے کو سحرزدہ کر دیا۔بھٹو ووٹ بینک ایک سیاسی اصطلاح بن گئی۔ بھٹو صاحب کے سیاسی ورثے کو محترمہ بے نظیر بھٹو نے آگے بڑھایا۔ انہوں نے بہت سی مشکلات برداشت کیں اور قربانیاں دیں۔ اس کا ثمر انہیں یہ ملا کہ جب بھٹو صاحب کے بڑے صاحبزادے میر مرتضیٰ بھٹو پاکستان آگئے اور انہوں نے اپنے طور پر سیاست کرنے کی کوشش کی تو ناکام ہوگئے۔ وہ سندھی جو بھٹو صاحب کے دیوانے تھے، انہوں نے بھٹو کے بیٹے کو مسترد کر دیا، انہیں لاڑکانہ سے بمشکل صوبائی اسمبلی کی ایک نشست مل سکی ، وہ بھی بیگم نصرت بھٹو کی طرف سے انتخابی مہم چلانے کے بعد۔ میر مرتضیٰ کے بعد ان کی بیوہ غنویٰ بھٹو کی کوششیں مزید بے ثمر رہیں۔ پیپلزپارٹی اپنے مشکل ترین ادوار سے اس لیے بچ نکلی کہ اس کے پاس بے نظیر بھٹو کی شکل میں ایک لیڈر موجود تھا، ایسا لیڈر جس کی عوام میں سیاسی عصبیت موجود رہی، جسے پارٹی کے عام کارکن، بے وسیلہ لوگ اپنے دلوں کے قریب محسوس کرتے تھے۔ اس کی حکومت سے نالاں ہوئے تو 97ء میں گھروں سے نکلے ہی نہیں ،مگر پھر اسی پارٹی کی طرف لوٹ آئے ۔ ٭… اب صورتحال یکسر مختلف ہے۔ پارٹی قیادت جناب زرداری کے ہاتھ میں ہے۔ ان کا اپنا سٹائل اور طرز فکر ہے۔ انہوں نے مختلف نوعیت کی سازشوں کے باوجود پانچ سال تک حکومت چلا کر ، اپنے مخالفوں کو سیاسی چالوں سے تنگ کر کے خود کو ڈرائنگ روم کی سیاست کا اچھا ماہر ثابت کیا ہے۔ عوامی سیاست کا امتحان ابھی انہوں نے پاس نہیں کیا۔ وہ تباہ حال پارٹی کو اٹھا سکتے ہیں، کارکنوں کے شکستہ حوصلوں کی فصیل ازسرنو استوار کر پاتے ہیں یا نہیں…یہ جواب ابھی آنے باقی ہیں۔ ابھی دیکھنا ہے کہ نوجوان بلاول اپنے نانا بھٹو صاحب کے سیاسی ورثے کا ضامن بنتا ہے یا نہیں؟ بلاول یا ان کی بہنوں میں سے کسی ایک کے لیے آسان راستہ موجود نہیں۔ ان میں سے کسی نے اس طرح جدوجہد نہیں کی ،جیسا ان کی والدہ کو کرنی پڑی۔ اپنی عملی جدوجہد کے دوران ہی وہ پارٹی کارکنوں کے قریب ہوئی تھیں۔ ان کی اولاد کو ابھی اپنا آپ ثابت کرنا پڑے گا۔ سب سے بڑھ کر ان کو اپنے والد کے سائے سے نکلنا ہوگا جن کی سیاست کا اپنا ہی رنگ ڈھنگ ہے جو مولانا فضل الرحمن سے تو ملتاجلتا ہے ،مگر بی بی یا بھٹو صاحب کا عکس اس میں موجود نہیں۔ ٭… وقت کی ایک بڑی حقیقت یہ بھی ہے کہ پیپلز پارٹی کے پرانے وفادار گھرانوں کی نئی نسل پارٹی سے باغی ہوچکی ہے۔ خاصے عرصے تک ان کے پاس کوئی اور آپشن تھی ہی نہیں۔پیپلز پارٹی کے کسی کارکن یا ووٹر کے لیے جنرل ضیاء الحق کے ’’دعا یافتہ‘‘میاں نواز شریف کے ساتھ ملنا بڑا کڑوی گولی نگلنے کے مترادف تھا۔عمران خان کی تحریک انصاف نے درمیان کی ایک آپشن پید ا کر دی ہے۔ تحریک انصاف نے لبرل اور دائیں بازو ، دونوں اطراف کے ووٹر ہتھیا لیے ہیں۔ سندھ میں ابھی تک پیپلز پارٹی کے علاوہ دوسری مضبوط آپشن موجود نہیں، اسی وجہ سے سندھ کا ووٹر نسبتاً زیادہ دیر تک پی پی پی کے ساتھ رہے گا۔ پنجاب میں حالات بدل چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کو اس کا ادراک کرنا ہوگا۔ ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ پیپلزپارٹی اگرچہ عرصے سے بائیں بازو کی سیاست ترک کر چکی تھی،مگر اس نے اپنا کچھ نہ کچھ بھرم رکھا ہوا تھا۔ پچھلے پانچ برسوں میں یہ بھرم بھی ختم ہوگیا اورنچلے طبقے کے غریب اور پسے ہوئے لوگ پارٹی سے دور ہوگئے۔ انہیں مقامی اور مرکزی قیادت دونوں طرف سے مایوسی ہی ملی۔ لیفٹ کے پڑھے لکھے لوگ بھی اب پیپلزپارٹی سے دور ہوگئے ہیں۔ ان میں سے کچھ نے تحریک انصاف میںپناہ لی اور اچھی خاصی تعداد مایوس ہو کر گھر بیٹھ گئی۔ لیفٹ کی ناکامی ایک اور سنجیدہ سوال کو جنم دیتی ہے،مگر اس پر کبھی الگ سے بات کریں گے۔ جیالوں کو ساتھ ملانے ، روٹھے ساتھیوں کو منانے، مورال کو بلند کرنے کے ساتھ ساتھ پارٹی کو اپنی فکری اساس پر بھی دوبارہ سے غور کرنا ہوگا۔ پیپلز پارٹی کا موجود رہنا ضروری ہے کہ یہ بڑی قومی جماعت ہے ،جو سندھ کو پنجاب اور دوسرے چھوٹے صوبوں کے ساتھ جوڑتی ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی خود اپنے ہی ہاتھوں ختم ہو رہی ہے، اس میں زندگی بھی اس کے اندر سے ڈالنی ہوگی۔ باہر بیٹھے لوگ افسوس تو کر سکتے ہیں، مداوا نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں