معاشرے کی رُوح کو بچائیں

دو سال پہلے چند سینئر صحافیوں کے ساتھ ترکی کے مطالعاتی دورے پر جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں ممتاز ترک سکالر سید فتح اللہ گولن کی ان کے نام پر قائم گولن موومنٹ کلیدی نوعیت کا کام کر رہی ہے۔ گولن موومنٹ حزمت فائونڈیشن (Hizmet)کے پلیٹ فارم پر کام کرتی ہے۔ موومنٹ کے کارکن کمال دانشمندی سے ترک معاشرے کے مختلف حصوں میں سرایت کر گئے ہیں۔ انہوں نے اپنے سماج کی مضبوطی، غیرملکی تہذیب کی یلغار اور اپنی نوجوان نسل کو دینی اور تہذیبی جڑوں سے ازسر نو مربوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ صرف استنبول میں آٹھ نو پلیٹ فارمز سے کام ہو رہا ہے۔ جرنلسٹ اینڈ رائٹرز فورم، بزنس مین ایسوسی ایشن کے تحت چار سو سے زیادہ کمپنیوں کے مابین عملی رابطہ‘ میڈیا میں اثرورسوخ بڑھانا اُن میں سے چند ہیں۔ اُن دنوں ترکی کا سب سے بڑا اخبار ’’زمان ٹوڈے‘‘جس کی اشاعت دس لاکھ روزانہ تھی، گولن فکر کے علمبردار چلا رہے تھے۔ یہی لوگ انگریزی کا سب سے بڑا اخبار زمان انٹرنیشنل بھی نکال رہے تھے۔ سمان یوک یا یولو کے نام سے ایک بڑا ٹی وی نیٹ ورک بھی کام کر رہا تھا، معلوم ہوا کہ اس کے تحت سات چینلز ہیں جن میں نیوز ، انٹرٹینمنٹ اور کڈز چینل شامل ہیں۔ چیریٹی کے لئے بھی ایک بڑی تنظیم کام کر رہی تھی۔ سب سے بڑھ کر ترک سکول جن کی تعداد وہاں ہزاروں میں تھی۔ گولن موومنٹ نے اپنے سکولوں کے ذریعے نئی نسل کی اخلاقی تربیت کی، میڈیا گروپس کے اخبارات اور ٹی وی چینلز کے ذریعے ناظرین کو معیاری انٹرٹینمنٹ دی جو ترک کلچر اور دینی اخلاقی قدروں سے ہم آہنگ تھی۔ترکی کے سخت گیر سیکولر سسٹم میں مذہب کا نام لینا ممنوع تھا‘ گولن موومنٹ نے ترک کلچر کی بحالی اور ترک اخلاقی قدروں کے نام پر اخلاقی تحریک چلائی جسے وسیع پیمانے پر پزیرائی ملی۔ ترکی کے لبرل سیکولر میڈیا میں بے حد بولڈ ڈرامے عام تھے۔ اپنے بولڈ موضوعات، اخلاقی قدروں سے عاری اشرافیہ کے جگمگاتے لائف سٹائل کی نمائش اور مختصر ملبوسات کے ذریعے وہ ڈرامے مقبولیت حاصل کر چکے تھے۔فتح اللہ گولن کے شاگردوں نے انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں بھی کمال دانشمندی سے کام کیا۔ انہیں اندازہ تھا کہ ڈرامہ انڈسٹری کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے موضوعات بدل دیے۔ معاشری موضوعات، سماج کی کہانیوں پر ایسے عمدہ ڈرامے بنائے جنہوں نے ریٹنگ بھی حاصل کی اور بولڈ ڈراموں کا سحر بھی توڑا۔ پچھلے تین چار برسوںمیں شائستگی اور متانت کے ساتھ اچھی کہانیوں پر آرٹسٹک خوبصورتی سے بنائے ان ڈراموں نے ترک معاشرے میں اپنی جگہ بنا لی۔ گولن موومنٹ کے دانشوروں سے گفتگو ہوتی رہی، ہر جگہ یہ محسوس ہوا کہ انہیں اس کا بخوبی اندازہ ہے کہ ترک معاشرے کو بچانا ، آگے لے کر چلنا ہے تو اخلاقی قدروں کی حفاظت کی جائے ۔ وہ اس لحاظ سے بڑے سرگرم نظر آئے۔ ہمارے سماج پر آج کل کئی اطراف سے یلغار جاری ہے۔ اس کی کئی سطحیں اور پرتیں ہیں، ان پر مختلف نشستوں میں بات ہوتی رہے گی۔ ایک پہلو جو بڑا تشویشناک ہو چکا، وہ غیر ملکی ٹی وی ڈراموں کی یلغار ہے۔ اس سلسلے کا آغاز ایک بولڈ ترک ڈرامے عشق ممنوع سے ہوا، جس کے بعد گویا بھرمار ہوگئی۔ ایک بحث شروع ہوگئی کہ غیرملکی ڈراموں کو دکھانا چاہیے یا نہیں؟ اس پر مختلف آرا ہیں۔ ہمارے خیال میں مسئلہ کسی ایک یا زیادہ غیرملکی ڈراموں کا نہیں‘ اصل سوال یہ ہے کہ پاکستان میں چلنے والے کسی بھی ڈرامہ یا فلم کو کسی ضابطہ اخلاق، کسی سنسر کوڈ کے تابع ہونا چاہیے یا نہیں؟ کیا کوئی ادارہ ایسا ہے جو ان غیرملکی ڈراموں کے ہماری نئی نسل پر منفی اثرات، ہمارے سماج میں سرایت کردہ منفی لہروں کی جانچ کر سکے، ان کا تجزیہ کر سکے ؟فلٹریشن کے اس مرحلے سے گزر کر ہی کسی بھی پروگرام کو اجازت ملنی چاہیے۔ اہم ترین سوال یہ بھی ہے کہ اسلامی تہذیب کیا ہے؟ اس کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں؟ ہماری آج کی معروضات دراصل اس حوالے سے بحث کا آغاز ہے۔ اسلامی تہذیب کے حوالے سے معروف دانشور اوردینی سکالرجاوید احمد غامدی نے بہت خوبصورت بات لکھی۔ وہ اپنی کتاب ’’مقامات‘‘ میںاسلامی تہذیب کے عنوان سے ایک مضمون میں لکھتے ہیں: ’’نبیﷺ کی بعثت کے بعد جو تہذیب دنیا میں پیدا ہوئی، اس کی بنیادی قدر عبودیت تھی۔ اس کے معنی یہ تھے کہ معاشرہ خدا پر ایمان اور اس کے ساتھ بندگی کے تعلق کو محور ومرکز کی حیثیت دیتا اور زندگی کے تمام معاملات کو اسی محور سے متعلق کرتا ہے۔آزادی اس میں بھی ایک بڑی قدر تھی، لیکن وہ بندگی سے آزاد نہیں تھی۔ اس تہذیب کے اخلاقی تصورات میں کوئی ابہام نہیں تھا۔اس کے شاعر، ادیب، فلسفی، حکیم، سائنس دان اور ارباب سیاست ، سب اس معاملے میں واضح تھے اور اپنے نتائج فکر بالعموم اسی حوالے سے پیش کرتے تھے۔ چنانچہ اس سے جو تہذیبی روایت پیدا ہوئی کم وبیش ایک ہزار سال تک مسلمانوں کے اجتماعی وجود کااحاطہ کیے رہی‘‘۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس تہذیب کے تین اہم ترین عناصر میں عفت‘ حفظ مراتب اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو خاص مقام حاصل تھا۔ عفت کے معنی یہ تھے کہ لوگوں کو اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ معاشرے میں بدکاری کو عام کریں، مرد مردوں سے اور عورتیں عورتوں سے علانیہ جنسی تعلقات قائم کریں اور اسی تعلق کی بنا پر اکٹھے رہیں۔ وہ آگے لکھتے ہیں: ’’حفظ مراتب کے معنی یہ تھے کہ خلقت کے لحاظ سے تمام انسان بے شک برابر ہیں ،مگر رشتوں میں برابری نہیںہے۔ چھوٹوں کے لئے بڑے ، اولاد کے لئے والدین ، شاگردوں کے لئے استاد اور بیوی کے لئے شوہر برتری کے مقام پر ہیں۔ ان کے لئے تادیب وتنبیہ کا حق مانا جائے گا اور ان کی عزت اور ان کا احترام ہر حال میں قائم رکھا جائے گا‘‘۔ ’’امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے معنی یہ تھے کہ معاشرہ خیر وشر کے مسلمات سے بے تعلق نہیں رہے گا۔ انسانی فطرت میں جو چیزیں خیر کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہیں اور جنہیں پوری انسانیت مانتی ہے اور جن چیزوں کو فطرت شر سمجھتی اور پوری انسانیت جن سے نفرت کرتی ہے، ان سے لوگوں کو ہر حال میں روکا جائے گا‘‘۔ ’’یہ تہذیبی روایت انسانیت کا حسن اور اس کے چہرے کا جمال تھی۔ اس کا زوال انسانیت کازوال ہے ۔ انسانی حقوق ، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے لئے دور جدید کا انسان جس قدر حساس ہے، اے کاش وہ اس روایت کی بازیافت کے لئے بھی اتنا ہی حساس ہوجائے۔‘‘ اس طویل اقتباس کے بعد کچھ اور لکھنے کی ضرورت نہیں، صرف اتنا کہوں گا کہ جس طرح ہم اپنے کیرئر،روشن مستقبل، اونچے منصب اور دوسری دنیاوی کامیابیاں حاصل کرنے کے لئے جدوجہد اور محنت کرتے ہیں، اسی طرح اپنے معاشرے کی روح کو بچانے، اس کی اخلاقی قدروں کی حفاظت،صدیوں سے چلے آتے دینی تہذیبی ورثے کو اپنی اگلی نسل تک پہنچانے کے لئے بھی کچھ نہ کچھ کریں۔ یہ ہمارے سماج کا ہم پر قرض ہے۔اس قرض کو چکانے ، اپنے معاشرے کی روح کو بچانے کے لئے ایک اخلاقی تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔ کوئی ہے جو اس جانب بھی توجہ فرمائے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں