تصویر کے مختلف رخ دیکھنے چاہئیں

ڈاکٹر وی پی (وید پرتاپ) معروف بھارتی صحافی اور سینئر کالم نگار ہیں۔ ان کا کالم بھارت کے دو سو سے زائد اخبارات میں شائع ہوتا ہے۔ان سے پہلی ملاقات چند سال پہلے ہوئی ،جب وہ ایک تھنکرز فورم میں بطور مہمان تشریف لائے۔ دو تین گھنٹے تک گفتگو رہی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بڑے جہاندیدہ اور زمانہ شناس قسم کے صحافی ہیں۔ بھارت کے زمینی حقائق کے بارے میں جو باتیں درجنوں کتابیں اور سینکڑوں مضامین پڑھ کر معلوم نہ ہوسکیں، وہ ڈاکٹر ویدک کے ساتھ گفتگو کے ایک سیشن میں کھل گئیں۔ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج کل وہ روزنامہ دنیا میںکالم لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر وی پی ویدک آج کل پاکستان آئے ہوئے ہیں، مختلف شخصیات سے ان کی ملاقاتیں جاری ہیں۔نومنتخب وزیراعظم میاں نواز شریف سے ان کے پرانے مراسم ہیں، ڈاکٹر ویدک کی ان سے ملاقات ہوچکی ، وہ صدر پاکستان سے بھی ملنے گئے۔ پچھلی رات کالم نگاروں اور اخبارنویسوں سے ان کی ملاقات تھی ،جو خاصی دلچسپ رہی۔ ڈاکٹر ویدک بنیادی طور پر امن کے سفیر ہیں، گاندھی جی کے فلسفے کے قائل ہیں، سرد و گرم چشیدہ انسان ہونے کے ناتے ان میں تحمل بلا کا ہے۔ سخت سے سخت فقرے کو مسکرا کر سنتے، اثبات میں سر ہلاتے اور پھر بڑے ہی ملائم لہجے میں ایسا نقطہ اٹھاتے کہ سوال کا جواب اس میں سمٹ آئے۔ ڈاکٹر وید ک کی کالم نگاروں سے ملاقات میں پاک بھارت امن پراسیس اور اس سے متعلقہ ایشوز پر بات ہوتی رہی۔یہ اہم ایشو ہے، میاں نواز شریف کے وزیراعظم بننے سے اس حوالے سے نئی امیدوں کے کونپل کھلے ہیں۔ ہمارے خیال میںبھارت اور پاکستان کے مابین خوشگوار تعلقات کا خواب دیکھنا ایک اچھی بات ہے ،اس کے لئے کوششیں کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں، مگر ایسا کرنے والوں کو مکمل تناظر میں دیکھنا ہوگا، تصویر کے ایک رخ کو دیکھنے سے بات سمجھ نہیں آئے گی۔ بھارت کے ساتھ دوستی کی مخالفت عام طور پر روایتی مذہبی حلقوں یا جہادی تنظیموں کی جانب سے کی جاتی ہے ،جن کے جذباتی دلائل فوری طور پر رد کر دیے جاتے ہیں۔ تاہم اس موضوع پر بعض سنجیدہ حلقوں میں بھی تحفظات موجود ہیں، جن کو یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ ٭ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ ہماری مقتدر قوتیں انڈیا سنٹرک ہیںاور وہ بھارتی خوف کے پیش نظروہاںکسی نہ کسی درجے کی شورش یا insurgencyقائم رکھتی ہیں۔یہ رویہ دونوں طرف مشترک ہے۔ بھارتی ملٹری اسٹیبلشمنٹ بھی پاکستان سنٹرک ہے۔ پاکستان کی سرحد کے حوالے سے ان کی فوجی کمان غیرمعمولی حجم کی حامل ہے۔بھارتی سمجھتے ہیں کہ پاکستانی انہیں فتح نہیں کر سکتے کہ دنیا کے ہر جنگی ضابطے میں فاتح کو مفتوح سے کم از کم تین گنا زیادہ طاقتور ہونا چاہیے۔ یہاں الٹی صورتحال ہے، بھارتی جنگی مشینری اور طاقت پاکستان سے تین گنا زیادہ ہے، اس کے باوجود بھارتی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ٭بھارت اپنی جنگی قوت کا ایک جواز چین کی جانب سے ممکنہ جارحیت کو قرار دیتا ہے۔ یہ بات درست نہیں۔ بھارت نے ٹینکوں کی اتنی بڑی فورس کھڑی کر رکھی ہے، اس کا چین سے کیا لینا دینا؟ چین کے ساتھ بھارتی سرحد کا علاقہ پہاڑی ہے، جہاں ٹینکوں کا کوئی کام نہیں۔ یہ ٹینک صرف پاکستانی سرزمین کے حوالے سے کارآمد ہیں۔بھارت کی اس نوعیت کی تیاریاں پاکستانی افواج کو جواباً مستعد رہنے پر مجبور کرتی ہیں۔ چند سال پہلے بھارتی جنگی منصوبہ سازوں کی ’’کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن‘‘ لیک ہو کر عالمی میڈیا میں شائع ہوئی۔اس خوفناک منصوبے کے مطابق مخصوص اہداف پربھاری فضائی قوت کے ساتھ ایسا تیز رفتار حملہ کرنا ہے ،جو چند گھنٹوںمیں سب کچھ تہس نہس کر دے اور جوابی ردعمل آنے سے پہلے ہی حملہ آور واپس بھارت پہنچ جائیں۔ کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن کے سامنے آنے کے بعد پاکستانی عسکری قیادت نے یہ موقف اختیار کیا کہ اگر بھارتی فوج کی حملہ کرنے کی نیت نہ بھی ہو تب بھی ان کی صلاحیت کے پیش نظر ہم اپنی مشرقی سرحد پر ایک مخصوص قوت رکھنے پر مجبور ہیں کہ ابھی نیت نہیں تو کبھی ہوبھی سکتی ہے اور اگر تیز رفتار حملہ ہوگیا تو ہم اس کا بروقت جواب نہیں دے سکیں گے۔ ٭بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات اور اسے موسٹ فیورٹ نیشن سٹیٹس دینا بظاہر بڑا پرکشش لگتا ہے ،مگر اس کی مخالفت کی بعض ٹھوس وجوہ بھی موجود ہیں۔ دراصل اس حوالے سے زیادہ پیش پیش تاجر برادری ہے،وہی لوگ ،جو چین سے چیزیں درآمد کر کر کے پاکستان مارکیٹ کو بھر چکے ہیں۔ ہمارے صنعتکار یا مینوفیکچرر حضرات کے تحفظات موجود ہیں۔ ہماری بعض انڈسٹریاں ایسی ہیں ،جو بھارت کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ اس میں ہماری کمزوری یا نالائقی وجہ نہیں بلکہ لارج سکیل پر مینوفیکچرنگ کرنے والی ہر کمپنی کو چھوٹے سکیل پر کام کرنے والوں پر برتری رہتی ہے۔ دوسرا بھارت نے اگرچہ سترہ اٹھارہ سال پہلے ہمیں ایم ایف این سٹیٹس دے دیا ،مگر بڑی مہارت سے تکنیکی بنیادوں پر ایسے اقدامات کئے کہ پاکستانی ایکسپورٹرکو فائدہ نہ ہوسکا۔ اس بار بھی مقامی مینوفیکچرر کو خطرہ ہے کہ بھارتی ہمیں ٹیکنیکل ناک آئوٹ کر دیں گے ،مگرہم بھارتیوں کو تکنیکی بنیادوں پر نہیں روک سکیں گے کہ عالمی دبائو آ جائے گا، تمام تر فائدہ بھارت لے جائے گا، ہم وہیں رہ جائیں گے۔یہ سوچ رکھنے والے مذہبی جنونی نہیں بلکہ کاروباری لوگ ہیں۔ان لوگوں کو دلیل اور عملی اقدام سے قائل کرنا ہوگا۔ ٭ ایک فیکٹر جو ہمارے میڈیا اور انٹیلی جنشیا میں زیادہ زیر بحث نہیں آتا ،وہ بھارت میں موجود طاقتور سویلین اسٹیبلشمنٹ ہے ،جس کے اندرشدت پسند مذہبی ہندو جذبات موجود ہیں۔ہندو انتہا پسندوں نے پچھلے چار عشروں کے دوران وہاں کی سول سروس، میڈیا، انٹیلی جنشیا، فورسز اور بیوروکریسی میں بہت کام کیاہے، ان کے گہرے اثرات موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی حکومت خواہ کوئی بھی ہو، بڑا بریک تھرو کرنا ان کے لئے آسان نہیں ہوتا۔ یہی لابی تھی، جس کے دبائو کے باعث من موہن سنگھ کو چند سال پہلے مصری شہر شرم الشیخ میں کئے وعدوں سے مکرنا پڑا۔ اگر کسی کو بھارتی میڈیا کے اصل چہرے کو جانچنا ہوتو ان کے نیوز چینلز دیکھے‘ جن کا پاکستان مخالف جارحانہ رویہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ سرکولیشن کے حوالے سے بے پناہ طاقت رکھنے والا بھارتی ریجنل پرنٹ میڈیابھی پاکستان مخالف اور بے لچک ہے۔سیاستدان اسے نظرانداز کرنے کی جرأت نہیں کر سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر تو دور کی بات ہے، سرکریک اور سیاچن جیسے ایشوز پر بھارت کوئی قدم نہیں اٹھا سکا۔امن کا عمل دیرپا تب ہوسکتا ہے ،جب پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت کے اندرموجود سخت گیر لابی بھی اپنا مائنڈ سیٹ بدلے۔ ٭ بھارتی ریاست کا ایک خاص انداز اور سٹائل رہا ہے۔ اس کا پورے ریجن کے لئے ایک خاص ایجنڈا ہے ، جس کے لئے وہ کام بھی کرتا رہتا ہے۔ اس کا اسے پورا حق ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ بھارت ریجن میں کسی دوسرے کی مسابقت یا باوقار موجودگی برداشت نہیں کرتا۔ اس کا رویہ Suck inکرنے والا ہے۔اس طرح سے معاملات چلتے نہیں، بھارت کوبگ برادر بننے کے بجائے ہمسایہ ممالک کو سپیس دینی ہوگی ۔ ٭ کشمیر کے معاملے کو بھی یوں سرسری نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ ہم نے اس ایشو کو خود ہی جذباتیت عطا کی، تین چار عشروں تک مسلسل عوام میں کشمیر سے محبت اور دوستی کے جذبات کو ترویج دی، وہاں مسلح جدوجہد کی ’’اخلاقی ‘‘مدد کی۔ ملک میں جہادی تنظیموں کا ایک بڑا نیٹ ورک بنا، ہزاروںلاکھوں لوگ شدید اینٹی انڈیاجذبات لے کر جوان ہوئے۔اب یہ ممکن نہیں کہ کسی سہانی صبح ان سب کو یہ درس دیا جائے کہ کشمیر کوبھلا دیا جائے یا کشمیر میں کچھ نہیں رکھا۔ اس مسئلے کو کسی نہ کسی طرف لگانا ہوگا۔ جو قوتیں کشمیر پر ایک خاص ایجنڈا رکھتی تھیں ، انہیں سیف ایگزٹ تو دینا پڑے گا۔اس کے بغیر کوئی بھی امن پراسیس آگے نہیں بڑھ سکتا۔ حرف آخر یہ کہ پاکستان بھارت میں تلخیاں کم ہونی چاہئیں، حالات بہتر ہوں، خطے میں امن قائم ہو تو خوشحالی آئے گی، مگر یہ سب ٹھوس بنیادوں پر کرنا ہوگا۔ سلگتے ایشوز اور سنجیدہ تحفظات دور کئے بغیرمصنوعی امن ہی قائم ہوسکے گا۔ ایسا امن…جو کسی چھوٹی سی چنگاری سے سلگ اٹھے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں