سیاسی جماعتیں اپنی غلطیوں سے کب سیکھیں گی؟

دانشور نے کہا تھا کہ جس غلطی سے سبق سیکھ لیا جائے ،وہ تجربہ بن جاتی ہے، جو غلطیاں بن سکھائے رہ جائیں، وہ بانجھ نہیں ہوتیں‘ ایک سے دوسری اور اس سے پھر ایک اور غلطی جنم لیتی ہے۔ عالم نے کہا،غلطیوں پر نہیں، ان پر اصرار سے تباہی ہوتی ہے۔ فرد ہو یا قوم، اصل خسارہ غلطیوں پر اصرار ہے۔ اپنے غلط فیصلوں، غلط تخمینوں اور اندازوں کا ادراک کیے بغیر ان کی توجیہہ پیش کرنا، اس کی وضاحت کرنا اور اس میں کج بحثی تک اترآنا۔ کیا ہماری سیاسی جماعتیں بھی اپنی غلطیوں سے کچھ سیکھ رہی ہیں؟ ماضی بعید کو چھوڑیے، ابھی چند ہفتے پہلے ہونے والے الیکشن کے نتائج کا کس قدر تجزیہ کیا گیا؟ کس سیاسی جماعت نے اپنی غلطیوں کا احساس کیا،ان پر تفصیلی بحث کی اور انہیں دور کرنے کی نیت کی؟ ابتدا پاکستان پیپلزپارٹی سے کرتے ہیں کہ یہ پانچ سال تک حکمران رہی،انتخابات میں اسے ایسے شدید دھچکے کا سامنا کرنا پڑا،جس کی مثال نہیں ملتی۔تین صوبوں میں پارٹی کا صفایا ہوگیا۔ پنجاب‘ جہاں اس کا اچھا بھلا ووٹ بینک اور کارکنوں کی مضبوط جمعیت تھی، وہاں زیادہ بری شکست دیکھنی پڑی۔ ووٹ بینک تو ہوا میں تحلیل ہوگیا، کارکنوں کا ایک حصہ پارٹی چھوڑ گیا، کچھ بے دل ہو کر گھر بیٹھ گئے، باقیوں نے مارے بندھے ووٹ تو ڈالا ،مگر ان کی پارٹی قیادت سے ناراضی دیدنی ہے۔ اس کی اصل ذمہ داری پارٹی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔ پانچ سال کی بدترین حکومت ، جس میں عوام کا جینا محال ہوگیا۔ قومی ادارے تباہ ہوگئے، ریلوے رک گئی، سٹیل مل کا بیڑا غرق ہوگیا، پی آئی اے گرائونڈ ہونے تک پہنچ گئی۔ قومی معیشت ایسی برباد ہوئی کہ کئی سال اسے سنبھالنے میں لگیں گے۔ زرمبادلہ کے ذخائر نصف سے بھی کم رہ گئے، گردشی قرضہ پانچ سوا رب تک پہنچا ۔ پیپلزپارٹی کے پانچ برسوں میں اس بدنصیب قوم پر ساڑھے سات ہزار ارب کا قرضہ لاد دیا گیا۔ لوڈشیڈنگ کے عذاب سے قوم مسلسل سسکتی ،کراہتی رہی، پارٹی، اس کے لیڈر اور وزراء کو اس کی ہرگز پروا نہ رہی۔ وہ اپنی لوٹ مار اور اگلی نسلوں کے لیے مال جمع کرنے میں مشغول رہے۔ الیکشن کی تمام تر حکمت عملی منفی حربے پر استوار کی گئی۔ کسی نے یہ نہیں سوچا کہ آخر عوام اندھے تو نہیں، پیپلزپارٹی کا ووٹر بھی آخر کب تک صرف قبروں کے نام پر ووٹ دیتا اور استحصال کا شکار ہوتا رہے گا۔ وہی ہواکہ الیکشن میں بھٹو ووٹ بینک کی اصطلاح بھی ختم ہوئی اور عام ووٹر نے بھی پیپلزپارٹی سے منہ موڑا۔ جنوبی پنجاب‘ جہاں سے وہ ہمیشہ نشستیں لیتے رہے، اس بار وہاں سے بھی بدترین شکست ہوئی۔ کم وبیش یہی حال کے پی کے اور بلوچستان میں ہوا۔ سندھ میں ایک تو کوئی دوسری موثر جماعت موجود ہی نہیں، دس جماعتی اتحا دکے اندرونی اختلافات شدید تھے، وہ اپنا تاثر بنا ہی نہیں سکا۔ اس کے باوجود وہاں پیپلزپارٹی کے خلاف پڑنے والے ووٹ ماضی سے زیادہ تھے۔ اگر مقامی انتظامیہ پی پی پی کے امیدواروں کی مدد نہ کرتی تو آٹھ دس نشستیں ہاتھ سے نکل جانی تھیں۔ انتخابات کے بعد توقع تھی کہ پارٹی قیادت اپنی غلطیوں کا احساس کرے گی، کارکنوں کو جس طرح نظرانداز کیاگیا،منظور وٹو جیسے پارٹی کے لئے اجنبی لوگوں کو مسلط کیا گیا، ان سے چھٹکارا پاکر نئی حکمت عملی وضع ہوگی۔ بدقسمتی سے ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا۔وہی پرانے روز وشب۔ مخدوم امین فہیم نے اسمبلی میں فرمایا کہ شکست کی وجہ اسٹیبلشمنٹ تھی، انہوں نے خفیہ اداروں کو مبارکباد دی۔ کون سی اسٹیبلشمنٹ ، کیا لاہور اور پنجاب سمیت تینوں صوبوں میں پارٹی کے بے شمار امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوئیں، وہ اسٹیبلشمنٹ نے کرائی تھیں۔ کیا ایجنسیوں نے لوگوں کو مجبور کیا تھا کہ تیر کے نشان پر مہر نہ لگانا؟یہی رویہ رہا تو پارٹی کا رہا سہا اثاثہ بھی تحلیل ہوجائے گا۔ مسلم لیگ ن فاتح پنجاب اور مرکز بنی۔ جنوبی پنجاب میں پہلی بار اسے بڑی تعداد میں نشستیں ملیں، سرائیکیوں نے اس بارن لیگ پر اعتماد کرتے ہوئے اسے ووٹ سے نوازا ۔مسلم لیگ ن کو اپنی مرضی کی ٹیم بنانے کا حق حاصل ہے ،مگرلوگ یہ توقع رکھتے ہیں کہ یہ لاہور کے بجائے ملک بھر کی نمائندہ بنے ۔ ابتدائی اشارے یہ ظاہر کر رہے ہیںکہ میاں نواز شریف اپنے پرانے سٹائل کو چھوڑنے پر تیار نہیں۔ وزیراعظم، سپیکر قومی اسمبلی اور وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے لاہور کو مل گئے۔سپیکر کا عہدہ لاہور کو دینے کا کوئی جواز نہیں تھا، اگر پنجاب سے ہی کسی کو چننا ضروری تھا تو کسی اور علاقے کو نمائندگی دینا مناسب ہوتا۔ ادھر جنوبی پنجاب سے ایک غیرمعروف سے شخص کو ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی بنایا۔معلوم نہیں گورنر پنجاب کا عہدہ بھی سرائیکیوں کو مل پاتا ہے یا نہیں۔ اگر سرائیکی عوام نے اس بار ن لیگ کو ووٹ دیا، اسے سینے سے لگایا تو ان کو جواباً بھی محبت ملنی چاہیے۔ن لیگ بھی اپنی ماضی کی غلطیوں سے کچھ سیکھتی نظر نہیں آرہی۔ جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے ،یہ امر خوش آئند ہے کہ عمران خان کے پی کے میں رول ماڈل گورننس دینا چاہتے ہیں۔ اپنی شکست سے انہوں نے بھی نہیں سیکھا۔ان کا اصرا ر ہے کہ دھاندلی ہوئی۔ خان صاحب خود کہتے ہیں کہ پچیس حلقوں میں دھاندلی ہوئی، اس کا مطلب ہے دوسری نشستیں ہارنے کی وجوہات مختلف تھیں۔حقیقت یہ ہے تحریک انصاف کی انتخابی مہم میں غلطیاں ہوئیں، فاش غلطیاں۔ بہت سے امیدوار کمزور اور ناموزوں چنے گئے۔ کئی یقینی سیٹیں جیت سکنے والوں کو بلاجواز محروم رکھا گیا۔ عمران خان کے نعروں اور انتخابی مہم میں دیہی آبادی کے لئے کم کشش تھی، تاجراورلوئر مڈل کلاس کاروباری طبقہ کے دلوں تک وہ نہیں پہنچ پائے۔ اور بھی کئی طبقوں کو ہدف نہ بنایا جا سکا۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ تحریک انصاف اپنی ان غلطیوں کا احساس کرتی، نیا انتخابی پلان بناتی کہ اگلے چند ماہ میں بلدیاتی انتخابات کا معرکہ اسے درپیش ہوگا، ٹکٹیں فروخت کرنے کے الزامات کی تحقیق اور ذمہ دار عہدے داروں کو فوری طور پر نکالنے کا قدم اٹھایا جاتا۔ ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا۔ جماعت اسلامی ملک کی اہم اور منظم جماعت ہے، اندازہ تھا کہ اس بار جماعت اسلامی کو جیسی ہزیمت اور رسوائی اٹھانی پڑی ،اس پر جماعت بڑے پیمانے پر برین سٹارمنگ کرائے گی،اپنی کمزوریوں کا ادراک اور دعوت وتربیت کا نیا پلان بنایا جائے گا۔ اس ماہ کے ترجمان القرآن میں امیر جماعت سید منورحسن کا طویل مضمون شائع ہوا۔ اسے بڑی توجہ سے پڑھا،افسوس کہ اگرمگر، چونکہ چنانچہ کے سوا کچھ نہ ملا۔ یوں لگا جیسے جماعت کے شکست خوردہ کارکنوں کی تشفی کے لیے اس تحریر کا کشٹ اٹھایا گیا۔شکست کی ذمہ داری ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ پر ڈالی گئی، فرمایا،’’عوام ہار گئے ، ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ جیت گئی‘‘۔سید صاحب سے دریافت کرنے کوجی چاہا کہ اسٹیبلشمنٹ نے جماعت کے حامی ووٹروں کو گھر میں بند رکھا تھاکہ فرید پراچہ کو ڈھائی ہزار کے قریب، حافظ سلمان بٹ کو ساڑھے نو سو اور سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی لیاقت بلوچ کو سوا تین ہزار ووٹ پڑے؟ پنجاب بھر میں جماعت کے امیدواروں کی ضمانتیں کس نے ضبط کرائیں، کے پی کے کے بیشتر علاقوں میں بھی یہی حال نظر آیا۔وہاں تو ڈرون حملوں کی مخالف ،ا ینٹی اسٹیبلشمنٹ موقف رکھنے والی تحریک انصاف جیتی، جماعت اسلامی بھی جیت سکتی تھی، ایسا کیوں نہیں ہو سکا؟ سچی بات یہ کہ جماعت اسلامی کے پاس وہ پروگرام نہیں ،جو آج کے ووٹر کی نظر میں اہم اور متعلق ہے، نئی نسل کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے پرکشش ایجنڈا نہیں۔ پرانا اسلوب، جمود کا شکار تقریریں، گھسے پٹے دلائل، تھکے ہارے جرائدجن میں تازہ ہوا کا گزر تک نہیں۔ طلبہ ہوںیا مزدور، کسان ہو ں یا شہری طبقہ، لوئر مڈل کلاس ہویا اپر مڈل کلاس، دینی ذوق رکھنے والے نوجوان ہوں یا روایتی سیاست سے تنگ لوگ… جماعت کے پاس ان میں سے کسی کو پیش کرنے کے لیے کچھ نیا نہیں۔ جو جماعت پچھلے تیس برسوں میں کوئی دانشور پیدانہیں کر سکی، اس نے انٹیلی جنشیا میں کیا فکری تحریک چلانی ہے؟بس ایک تحریکی حلقہ ہے، احباب کا سوشل سرکل کہہ لیجئے، اسے چلاتے رہیے،جب تک چل پائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں