پاکستانی طالبان کو سمجھئے

واقعات کی ایسی یلغار ہے کہ کچھ کئے بن نہیں رہی، تیزی کے ساتھ ایک کے بعد دوسرا سانحہ رونما ہو رہا ہے۔ایک سانحے سے نکل نہیں پاتے کہ ایک اور قیامت خیز جھٹکا منتظر ہوتا ہے۔ بدقسمتی یہ کہ قوم میں کنفیوژن بھی اسی قدر شدید ہے۔ نوبت یہاں تک آچکی ہے کہ ایک شدت پسند تنظیم انتہائی سفاکانہ کارروائی کرتی اور پھر فخریہ اس کی ذمہ داری قبول کرتی ہے، اس کے باوجودایسے لوگوں کی کمی نہیں جو ان تنظیموں کے وجود ہی سے منکر ہیں، ان کے خیال میں یہود وہنود کی سازشیں ہیں ،جن کے ایجنٹ غالباً سلیمانی ٹوپی پہن کر آتے، کارروائی کرتے اور پھر دوبارہ سے غائب ہوجاتے ہیں۔ہمارے خیال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ صورتحال کو زیادہ گمبھیربنانے اور الجھانے کے بجائے صاف صاف بات کی جائے۔ یہ ضروری ہے کہ قوم اور دانشوروں میں موجود کنفیوژن دور کیا جائے، ورنہ یکسوئی پیدا نہیں ہوسکے گی۔ ٭ میرا خیال ہے کہ اب ہمیں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)یا پاکستانی طالبان کے حوالے سے کلئیر ہوجانا چاہیے۔ تین چار سال قبل راقم نے یہ لکھنا شروع کیا کہ افغان طالبان، پاکستانی طالبان، القاعدہ اور پنجابی طالبان الگ الگ وجود ہیں۔ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کا ایجنڈا بھی الگ ہے اور طریقہ کار بھی۔ القاعدہ کا ایجنڈا گلوبل ہے ،جبکہ پنجابی طالبان سابق جہادی تنظیموں سے الگ ہونے والے سپلنٹر گروپ ہیںجن میں لشکر جھنگوی کے مختلف گروہ بھی شامل ہوچکے ہیں۔ ان برسوں میںہم مسلسل لکھتے رہے کہ ان سب کو الگ الگ ڈیل سمجھ کر تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔اس وقت تو اس سوچ کا مذاق اڑایا جاتا تھا،آج خود امریکی اپنے تجربات کی روشنی میں اسی نتیجے پر پہنچ چکے ہیں۔ اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان الگ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ان میں کچھ مشترک نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ان دنوں گروپوں کا فہم دین ایک سا ہے،جو خامیاں افغان طالبان میں پائی جاتی تھیں،جو غلطیاں انہوں نے کی، وہ سب ان پاکستانی طالبان میں بھی موجود ہیں۔ اسلام کی ایک خاص پیرایے میں سخت گیر بے لچک تعبیر وتشریح کے ساتھ پختون ولی کو ملانے سے جو فکر تشکیل پاتی ہے، وہ افغان طالبان ہوں یا پاکستانی طالبان…ان سب میں موجود ہے۔ملا عمر افغان طالبان کے مسلمہ قائد ہیں، ملا عمر کا ضابطہ اخلاق ہر افغان طالبان ماننے کا پابند ہے اور نائن الیون کے بعد کے بارہ تیرہ برسوں میں افغان طالبان ملا عمر کی قیادت کے حوالے سے مکمل طور پر جڑے ہوئے اور یکسو رہے۔افغان طالبان کا واحد ہدف افغانستان میں موجود امریکی اور نیٹو افواج رہی ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے خلاف ایک بھی کارروائی نہیں کی۔ ٭ پاکستانی طالبان افغان طالبان کے برعکس کئی گروپوں کا مجموعہ بلکہ ملغوبہ ہیں۔ بیت اللہ محسود نے انہیں تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے پلیٹ فارم پراکٹھا کیا۔ ٹی ٹی پی میں زیادہ اثرورسوخ محسود قبیلے کا رہا، زیادہ تر جنگجو محسود ہیں، اس لئے ان کا سربراہ بھی محسود ہی بنتا رہا ہے۔ پاکستانی طالبان نے شروع ہی سے اپنا ہدف پاکستانی فورسز کو بنایا۔وہ امریکہ کے خلاف ہونے کے دعوے دار ہیں،مگر عملی طور پر کبھی پاکستانی طالبان افغانستان جا کر نیٹو کے خلاف نہیں لڑے۔ان کی دلیل ہمیشہ یہ رہی کہ پاکستانی فوج چونکہ امریکی فوج کا ساتھ دے رہی ہے، اس لئے اس کے خلاف لڑائی کرنا زیادہ ضرور ی ہے، اس حوالے سے انہوں نے ہر حد پار کی۔ پاکستانی طالبان بھی ملا عمر کے بیعت کے دعوے دار ہیں، یہ ان کی مجبوری ہے ، حقیقت تو یہ ہے کہ اگران کے لیڈروں میں سے کوئی ملا عمر کے خلاف اعلانیہ بات کرے تو وہ اپنا عہدہ برقرار نہیں رکھ سکتا۔عملی طور پر وہ افغان طالبان کے ڈسپلن میں کبھی نہیں رہے بلکہ ان کی وجہ سے افغان طالبان کے لئے مشکلات پیدا ہوتی رہیں۔ پاکستانی طالبان کی جانب سے جی ایچ کیو پر حملہ ہو ، مہران بیس یا پشاور ائربیس پر کارروائیاں ہوں، … ان سب کو افغان طالبان کے حلقوں میں ناپسند کیا گیا۔ ماضی میں پاکستانی طالبان کی جانب سے اغوا برائے تاوان کی وارداتوں اور مغویوں کے سر کاٹے جانے اور پھر ان کی ویڈیو بنائے جانے کے خلاف ملا عمر کی جانب سے ایک ضابطہ اخلاق جاری کیا گیا تھا، تیس نکاتی اس پمفلٹ میں ان تمام کارروائیوں پر پابندی لگائی گئی،یہ اور بات کہ وہ کارروائیاں رک نہ سکیں۔ ٭احسان اللہ احسان ٹی ٹی پی کے ترجمان ہیں۔ ہر اہم واردات کی ذمہ داری احسان اللہ احسان قبول کرتے ہیں۔ملالہ یوسف زئی پر حملہ ہو، اے این پی کے لیڈروں کا قتل ، پشاور بیس پر حملہ یا نانگا پربت بیس کیمپ پر غیر ملکی سیاحوں کا قتل … ہر واردات کی ذمہ داری احسان اللہ احسان ہی نے قبول کی۔ پاکستانی طالبان کے بعض حامی حلقے عوامی تنقید سے بچنے کے لئے یہ اعتراض کرتے رہے کہ احسان اللہ احسان ایک فرضی کردار ہے اور ان وارداتوں کی ذمہ داری خواہ مخواہ پاکستانی طالبان پر ڈالی جاتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مولوی احسان اللہ نے بھی اس کا برامانا، اٹھائیس دسمبر 2012کو پاکستانی طالبان نے ایک ویڈیو جاری کی ،جس میں حکیم اللہ محسود، مفتی ولی الرحمن محسود(جو چند ہفتے پہلے ڈرون حملے میں ہلاک ہوچکے ہیں)اور احسان اللہ احسان موجود تھے۔ اس میں دونوں کمانڈروں نے مولوی احسان اللہ کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر اعلان کیا یہ ٹی ٹی پی کے باضابطہ ترجمان ہیں۔ مولوی صاحب کا طریقہ یہ ہے کہ وہ کسی اخبارنویس کو فون کر کے اپنا موقف دیتے ہیں۔ الا ماشا ء اللہ کسی اخبارنویس کی جرات نہیں کہ وہ مولوی صاحب پر بے بنیاد الزام لگا دے یا ان کا موقف غلط طور پر آگے بڑھا دے۔ اس لئے اب یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جو بات احسان اللہ احسان کہتے ہیں، وہ ٹی ٹی پی کی باضابطہ پالیسی ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں بعض لوگوں کو حیرت ہوتی ہے کہ ٹی ٹی پی نے ملالہ کو نشانہ کیوں بنایا یا پھر اب غیر ملکی سیاح کیوں قتل کئے؟ دراصل وہ شدت پسندوں کا مائنڈ سیٹ نہیں جانتے ۔ ان کا اپنا ایجنڈا اور اپنی ترجیحات ہیں۔ اگر کسی کام سے پاکستانی ریاست دنیا میں بدنام ہوتی یا پاکستان دنیا میں الگ تھلگ ہوتا ہے تو اس سے ان تنظیموں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ عسکریت پسند تنظیمیں ریاست کو کمزور اور منتشر دیکھنا پسند کرتی ہیں کہ یہی ماحول انہیں راس آتا ہے۔پھران کی زندگی اسی میں ہے کہ ہر کچھ عرصے بعد اخبارات اور چینلز کی لیڈ سرخی میں جگہ ملے۔ہر وہ کام جس سے میڈیا میں تہلکہ مچ جائے اور ان کی قوت کی دہشت بیٹھے ، وہ مسلح تنظیموں کو پسند ہوتا ہے۔ممکن ہے ان کے بعض حملوں کے پیچھے کوئی ایک یا زیادہ غیرملکی قوتیں شامل ہوں ، یہ بھی ممکن ہے کہ عالمی قوتیں سامنے آنے کے بجائے کسی تیسرے واسطے یا لنک سے ان تنظیموں کو سپورٹ کر رہی ہوں، تاہم پاکستانی طالبان کے بیشترکمانڈر اور جنگجو پاکستانی ہیں ، ان میں سے بعض الیاس کشمیری جیسے معروف چہرے بھی شامل تھے، ان کا ایک خاص ایجنڈا اور سوچ ہے ، جمہوریت، پاکستانی آئین اور ہماری معاشرت کے بارے میں ان کی فکر جانی پہچانی ہے۔مذاکرات کے لئے آگے بڑھنے سے پہلے ان تمام باتوں کو سمجھ لینا چاہیے۔ بعض حلقے یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ان پاکستانی طالبان سے کیسے مذاکرات کئے جائیں کہ ان کے متعدد گروپ ہیں، یہ بات جزوی طور پر درست ہے، مگر اس پر کسی اور نشست میں بات ہوگی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں