پاکستانی طالبان سے مذاکرات کیوں کئے جائیں؟

چند دن پہلے دانشوروں کی ایک صف میں پاکستانی طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے بحث چھڑی۔ بعض سینئراحباب کا خیال تھا چونکہ پاکستان میں موجود طالبان گروپ متعدد حصوں میں تقسیم ہوچکے ہیں، اس لئے کس سے بات کی جائے؟اتنے سارے گروپوں سے کیسے بات ہواور ان کی کیا کیا بات مانی جائے؟ اس بات میں وزن ہے مگریہ مکمل طور پر درست نہیں۔ یہ درست ہے کہ ہمارے ہاں عسکریت پسندی کا عفریت خاصاطاقتور ہوچکا ہے، اس کی کئی جہتیں اور سطحیں ہیں،ان سب کو دیکھنا ہوگا۔ یہ مگر حقیقت ہے کہ آج بھی تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)سب سے بڑی تنظیم ہے جس کا ہرحلقے میں اثرورسوخ ہے اور کوئی بھی گروپ اسے نظرانداز نہیں کر سکتا۔ حکیم اللہ محسود اس کے سربراہ اور احسان اللہ احسان ترجمان ہیں۔ ٹی ٹی پی کی مختلف قبائلی ایجنسیوں میں مختلف شاخیں اور وہاں طاقتور مقامی کمانڈرز ہیں۔ پاکستانی حکومت یا اسٹیبلشمنٹ اگر مذاکرات کا ڈول ڈالے گی تو سب سے پہلے ٹی ٹی پی ہی سے رابطہ ہوگا۔ اس وقت بعض گروپ ٹی ٹی پی سے فاصلے پر ہیں، اگرچہ ماضی میں وہ اس کاحصہ رہے۔ ان میں سوات کے مولوی فضل اللہ کا گروپ ہے جو افغان صوبہ کنٹر میں مقیم ہے۔ ٹی ٹی پی کے سابق نائب امیر اور باجوڑ کے معروف طالبان کمانڈر مولوی فقیر محمد بھی کنٹر میں موجود ہیں۔ مولوی فضل اللہ اور فقیر محمد میں اشتراک عمل ہے۔ یہی گروپ مل کرافغان سرحد سے چترال اور دیر وغیرہ میں ایف سی کی چیک پوسٹوں پر حملے کرتے ہیں۔مہمند ایجنسی کے کمانڈر عمر خالد بھی آج کل افغان صوبوں نورستان اور کنٹر وغیرہ میں سرگرم عمل ہیں۔ ان کے نائب قاری شکیل کے گروپ کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ ٹی ٹی پی سے برہم ہیں۔ اسی گروپ نے مہمند میں فورسز اور امن لشکروں پر حملے کر کے خاصا نقصان پہنچا رکھا ہے۔ لشکر جھنگوی کے بعض گروپ بھی ٹی ٹی پی کی براہ راست کمانڈ میں نہیں۔ کوئٹہ میں دائود بادینی اور عثمان کرد کا گروپ ہزارہ آبادی پر حملے کرتا ہے۔ ان کا اپنا خاص ایجنڈا ہے؛ تاہم وقت پڑنے پر یہ لوگ ٹی ٹی پی کے ساتھ اشتراک عمل کر لیتے ہیں۔ لشکر جھنگوی کا مین گروپ آج کل آصف چھوٹو کی کمان میں ہے اور کہا جا رہا ہے کہ کراچی میں یہ فعال ہو رہے ہیں۔ لشکر جھنگوی کے ماسٹر مائنڈ مطیع الرحمن ٹی ٹی پی کی شوریٰ کاحصہ رہے ہیں۔ لشکر جھنگوی کے مختلف چھوٹے چھوٹے گروپ اور دھڑے بھی بن چکے ہیں۔ کہیں یہ پاکستانی طالبان کے ساتھ کام کرتے ہیں ، کہیں پر آزادانہ۔ عصمت اللہ معاویہ کا گروپ خاصا اہم ہے۔ عصمت اللہ معاویہ کو تحریک طالبان پنجاب کا امیر بھی مقرر کیا گیاتھا، وہ پنجابی طالبان کے بھی اہم لیڈر شمار ہوتے ہیں۔ عصمت اللہ معاویہ ماضی میں کشمیری جہادی تنظیموں میں سرگرم رہے، حرکت المجاہدین اور جیش سے ان کے تعلق کی اطلاعات ہیں۔ لال مسجد پر حملے کے بعد عصمت اللہ متحرک ہوئے اور انہوں نے پہلے چھ مختلف گروپوں کو اکٹھا کر کے فدائین اسلام نام کا ایک گروپ بنایا جس کا مقصد لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر حملے کا انتقام لینا تھا۔ یہ گروپ جنوبی وزیرستان اور پھر شمالی وزیرستان میں متحرک رہا۔ حال ہی میں نانگا پربت بیس کیمپ حملے میں جنود حفصہ نامی گروپ کا نام آیا، بنیادی طور پر یہ عصمت اللہ معاویہ کے گروپ کا نام ہے۔ اسی لئے بعض اخبارات میں خبریں آئیں کہ اس حملے کے پیچھے عصمت معاویہ ہیں۔اس پورے منظرنامے کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان مسلح گروپوں سے مذاکرات کا معاملہ اس قدر آسان نہیں۔ ٹی ٹی پی سے معاملات طے ہوگئے تب بھی مولوی فضل اللہ گروپ کے حملے جاری رہیں گے۔ اسی طرح لشکر جھنگوی سے مختلف انداز سے نمٹنا ہوگا، ممکن ہے بعض گروپوں کے خلاف آپریشن ہی واحد آپشن رہے۔ جہاں تک مذاکرات کا سوال ہے، پہلے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ کسی بھی مسلح گروپ یا تنظیم کے خلاف فوجی یا سویلین آپریشن ہو، بات مذاکرات تک جاتی ہی ہے۔ آپریشن دراصل دو مذاکرات کے درمیانی وقفے کا نام ہے… ناکام اور کامیاب مذاکرات کا درمیانی وقت۔بعض اوقات واضح طور پر نظر آ رہا ہوتاہے کہ کسی خاص گروپ سے مذاکرات کامیاب نہیںہوں گے‘ اس کے باوجود مذاکرات کی پیش کش کر کے حکومتیں امن کو ایک موقعہ دیتی ہیں۔اس سے دو فوائد حاصل ہوتے ہیں: ایک طرف حکومت کی اخلاقی برتری قائم ہوتی ہے اور دوسرا مقصداس گروپ کو اس کے دوسرے اعتدال پسند حامیوں سے الگ کرنا ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتوں ، فوج اور حکومتوں کی طرح ہر مسلح تنظیم یا گروپ میںمختلف لابی اور مختلف دھڑے کام کرتے ہیں۔ بعض کا موقف سخت اور بے لچک جبکہ کچھ اعتدال پسند ہوتے ہیں۔ سخت گیر عناصر مذاکرات کو ناکام بنانے کے لئے سرگرم ہوتے ہیں، ان عناصر کی کوشش ہوتی ہے کہ کوئی ایسی کارروائی ہوجائے جس سے امن پراسیس سبوتاژ ہوجائے۔ اسی طرح فورسز ، حکومت اور دانشوروں میں سے بھی بعض ہارڈ لائنر ہوتے ہیں ، وہ مذاکرات کے بجائے سختی سے پیش آنے، کچلنے اور صفایاکرنے کے الفاظ کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ بہتر حکمت عملی درمیان کا راستہ ہے۔ مذاکرات کی کوشش ہونی چاہیے، پوری دیانت داری اور خلوص کے ساتھ۔ مخالف گروپ اگر شدت پر آمادہ ہے تو اس کی صفوں میں موجود قدرے نرم اور لچکدار لوگ ان سے الگ ہوجاتے ہیں۔ سری لنکا میں تامل ٹائیگرز کے خلاف فیصلہ کن آپریشن سے پہلے سری لنکن حکومت نے مذاکرات کے ذریعے ایک اہم تامل کمانڈر کوالگ کر لیا، اسے ایک پورے صوبے کی عمل داری دے دی گئی، اس سے تامل لیڈر پربھاکرن کمزور ہوا، آخر کار وہ آپریشن میں مارا گیا۔ اس لئے مذاکرات میں کوئی حرج نہیں۔ ٹی ٹی پی کے اندر ایک لابی امن کے حق میں ہے، مرحوم کمانڈر ولی الرحمن کی یہی سوچ تھی۔ دو دن پہلے احسان اللہ احسان نے اپنی تازہ ترین ویڈیو میں دانستہ طور پر مذاکرات کی بات کو دہرایا ہے کہ سویلین حکومت بااختیار نہیں،ا س لئے ہم مذاکرات نہیں کر رہے۔ اس بات کے اندر مذاکرات کی خواہش پوشیدہ ہے۔ یہ سب ٹی ٹی پی کے اندرونی مسائل اور تضادات کے باعث ہو رہا ہے۔ وہاں ایک طاقتور لابی یہ سوال اٹھا رہی ہے کہ آخر پاکستانی ریاست کے خلاف کارروائیاں کیوں ، بھارت جو مسلمہ طور پر کشمیری عوام کا دشمن ہے، اس کے خلاف بات کیوں نہیں کی جاتی۔ اسی وجہ سے احسان اللہ احسان نے اسی ویڈیو میں کہا ہے کہ ہم مقبوضہ کشمیر بھی جائیں گے، بھارت کے خلاف کارروائیاں کریں گے۔ واضح رہے کہ ٹی ٹی پی نے پچھلے چھ سات برسوں میں کبھی کوئی کارروائی بھارت کے خلاف نہیں کی۔ ان کا کوئی کمانڈر یا جنگجو مقبوضہ کشمیر نہیں گیا یا وہاں کی جدوجہد میں شامل نہیں ہوا۔ کہا جا رہا ہے کہ اس قسم کے بیانات ٹی ٹی پی کے اندر طاقت پکڑتی اس لابی کو مطمئن کرنے کے لئے دیے جا رہے ہیں جو پاکستانی ریاست اور فورسز کے ساتھ مسلسل ٹکرائو کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھ رہی ہے۔ اگر حکومت کی جانب سے امن مذاکرات کی پیش کش کی گئی تو یہ لابی مضبوط ہوسکتی ہے اور ٹی ٹی پی کی قیادت پر سیز فائر کے لئے اندرونی دبائو پڑنے کا امکان ہے۔ ہمارے خیال میں مذاکرات کس سے اور کیوں کئے جائیں، اس سوال کا جواب تو موجود ہے‘ اہم ترین سوال یہ ہے کہ پاکستانی طالبان سے مذاکرات کن امور پر ہوں۔ اس بظاہر سادہ سوال پر جب غور کیا جائے تو آدمی چکرا جاتا ہے۔اس پر مگر اگلی نشست پر بات ہوگی کہ اس کے کئی پہلو ہیں،جو علیحدہ کالم کی متقاضی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں