اخوان المسلمون کے بارے میں چند اہم مغالطے

مصر میں فوجی بغاوت اور منتخب صدر ڈاکٹر مرسی کی برطرفی کے حوالے سے مغربی اور عرب میڈیا میں مباحث جاری ہیں۔ ہمارے ہاں اخوان کے حوالے سے خاصا کچھ شائع اور نشر ہو چکا ہے۔ دلچسپی سے سب دیکھتا اور پڑھتا رہا۔ مجھے یوں لگ رہا ہے کہ ہمارے ہاں اخوان المسلمون کے حوالے سے کئی مغالطے پائے جاتے ہیں۔ معلومات کی کمی یا مصری پس منظر کا علم میں نہ ہونے کے باعث ہمارے بیشتر تجزیہ کاروں کی آرا یک رخی محسوس ہوتی ہیں۔ ضروری ہے کہ ان مغالطوں پر ایک نظر ڈال لی جائے تاکہ مکمل تصویر سامنے آئے۔ کیا اخوان نے محاذ آرائی شروع کی؟ عام تاثر یہ بن رہا ہے جیسے مصری صدر ڈاکٹر مرسی نے غیرمعمولی عجلت سے کام لیتے ہوئے بہت سے محاذ کھڑے کئے اور یوں اپنی حکومت برطرف کرا لی ’’ اخوان نے فوج، عدلیہ، اپوزیشن سب کے ساتھ یک لخت جنگ شروع کر دی، ان میں تحمل اور برداشت کی کمی تھی وغیرہ وغیرہ‘‘۔ اصل صورتحال اس الزام کے برعکس رہی۔ پہلی بات یہ ہے کہ اخوان نے فوج کے ساتھ بطور ادارہ کوئی تصادم شروع نہیں کیا۔ آرمی چیف اور ان کے دست راست کو ضرور ہٹایا مگر اس کی وجوہ دوسری تھیں۔ مصری فوج نے عبوری حکومت کے اختیارات سنبھالے ہوئے تھے، مصری صدر کے انتخاب کے بعد انہیں اختیارات منتقل کرنے چاہئیں تھے، مگر آرمی چیف فیلڈ مارشل طنطاوی گریزاں رہے۔ وہ حسنی مبارک کے قریبی ساتھی تھے اور کم وبیش پندرہ برسوں کی ایکسٹینشن لے چکے تھے۔ وہ دنیا بھر میں اٹھہتر برس کی عمر کے واحد آرمی چیف تھے۔ ڈاکٹر مرسی نے مجبور ہو کر انہیں ریٹائر کیا مگر گھر بھیجنے کے بجائے انہیں اپنا مشیر کا عہدہ پیش کیا۔ ادھر فوج کے ینگ جرنیلوں میں اس کا کوئی ردعمل نہیں ہوا کیونکہ طنطاوی صاحب متعدد جرنیلوں کا کیرئر ختم کر چکے تھے۔ اسی وجہ سے مصری جرنیلوں نے ڈاکٹر مرسی کے اس اقدام پر خاموشی اختیار کئے رکھی۔ ہمارے ہاں ڈاکٹر مرسی کی بھٹو صاحب کے ساتھ مشابہت تلاش کی جا رہی ہے کہ بھٹو کی طرح ڈاکٹر مرسی کے مقرر کردہ جرنیل نے ان کا تختہ الٹا۔ مصر میں صورتحال ایسی نہیں تھی۔ جنرل السیسی ڈاکٹر مرسی کی چوائس نہیں بلکہ سینئر بلکہ معمر جرنیلوں کے ہٹانے کے بعد آنے والی فطری چوائس تھے۔ اخوان کو علم تھا کہ جنرل عبدالفتاح السیسی کا امریکہ اور مغرب کے ساتھ اچھا تعلق ہے، وہ پروویسٹرن جنرل سمجھے جاتے تھے، اسرائیل کے ساتھ بھی نئے آرمی چیف کا اچھا تعلق تھا، وہ سرحدی علاقے سینائی میں تعینات بھی رہے۔ اس سب کے باوجود ڈاکٹر مرسی نے انہیں آرمی چیف بنایا کہ وہ مغرب کے ساتھ کوئی ٹکرائو نہیں چاہتے تھے۔ یہ تاثر نہیں دینا چاہتے تھے کہ اخوان سسٹم میں ایڈجسٹ ہونے کے بجائے اسے الٹانا چاہتی ہے۔ ڈاکٹر مرسی کے کمپورمائز کی حد یہ تھی کہ انہوں نے حسنی مبارک دور کے ایک وزیر ہشام قندیل کو وزیراعظم جیسے اہم عہدے پر فائز کیا۔ یہ ثابت کرنے کے لئے کہ اخوان صرف اپنی پارٹی کے لوگوں کو آگے نہیں لانا چاہتی اور وہ اعتدال پسندوں سمیت مصری اسٹیبلشمنٹ کو بھی ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے۔ ڈاکٹر مرسی کی کابینہ میں نصف کے قریب وزیر اپوزیشن کی لبرل سیکولر جماعتوں سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے سخت گیر رجحان رکھنے والے مذہبی ووٹروں کی ناراضی مول لے کر اپنی کابینہ میں قبطی عیسائیوں اور خواتین کو وزارتیں دیں۔ مصری سیاست کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ شامی باغیوں کی حمایت ہمارے ہاں یہ بات بار بار کہی گئی کہ ڈاکٹر مرسی نے شامی باغیوں کی حمایت اور شامی صدر کی مخالفت کی جو ایک بڑا قدم تھا، اس کی وجہ سے ردعمل ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ شامی صدر بشارالاسد کی مخالفت اور شامی باغیوں کی حمایت مصری اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں دو اہم بلاک موجود ہیں۔ ایران، حزب اللہ اور شام پر مشتمل شیعہ بلاک اور سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات، قطر اور کویت وغیرہ پر مشتمل سُنی عرب بلاک۔ سعودی عرب اور مصری فوج ہمیشہ ایک رہے ہیں۔ ان دونوں کی حکمت عملی شامی صدر بشارالاسد کے خلاف جدوجہد کرنے والے شامی باغیوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ ڈاکٹر مرسی کی پالیسی مصری فوج سے مختلف نہ تھی۔ یہ ٹھیک ہے کہ حماس کے حوالے سے انہوں نے قدرے نرم پالیسی اپنائی مگر وہاں بھی کوئی جوہری تبدیلی نہیں آ سکی۔ رفاع کراسنگ سے اس دور میں بھی مصری فوج اور انٹیلی جنس ایجنسی سے کلیرنس لے کر جایا جا سکتا تھا۔ اسرائیل پر زبانی کلامی تنقید ڈاکٹر مرسی کرتے رہے (غزہ پر اسرائیلی حملہ اس قدر ظالمانہ اور بلاجواز تھا کہ دنیا بھر میں اس کا ردعمل ظاہر ہوا) مگر اسرائیل مصر معاہدے بدستور برقرار رہے، ایک بھی معاہدہ ختم نہ کیا گیا۔ اخوان نے اسلام کے نام پر اپوزیشن کو کچلا؟ یہ الزام بھی بالکل غلط ہے۔ مصر حسنی مبارک کے دور میں بھی کوئی سیکولر ملک نہ تھا، وہ اسلامی جمہوریہ ہی تھا۔ مجھے یاد ہے میں تین سال پہلے مصر گیا تو اخوان المسلمون کے مرشد عام نے انٹرویو میں صاف کہا کہ ہم مصر کو اسلامی ملک نہیں بنانا چاہتے، یہ پہلے سے ہے، ہم یہاں پر گڈ گورننس کے خواہش مند ہیں اور کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ جہاں تک نیا آئین بنانے کا تعلق ہے وہ بنانا مجبوری تھا کہ حسنی مبارک حکومت کے خاتمے کے بعد وہ آئین ختم کر دیا گیا تھا، ایک عبوری انتظام تھا، جس کے تحت یہ طے ہوا کہ پارلیمنٹ منتخب کی جائے جس کی کمیٹی آئین کا مسودہ بنائے اور پھر ریفرنڈم کرا کر عوامی رائے لی جائے۔ پارلیمنٹ منتخب ہوئی تو عدلیہ نے دانستہ طور پر معمولی سے قانونی سقم کا بہانہ کر کے کئی مہینوں کے عمل سے بنی پارلیمنٹ ہی تحلیل کر دی۔ خوش قسمتی سے اس کی کمیٹی بن چکی تھی۔ اس نے مسودہ بنایا۔ اپوزیشن نے دانستہ اس کا بائیکاٹ کر دیا۔ صدر مرسی نے نئے آئین پر ریفرنڈم کرایا جس میں 63 فیصد ووٹ حق میں پڑے۔ یاد رہے کہ یہ کوئی جنرل ضیاء الحق ٹائپ نام نہاد ریفرنڈم نہ تھا بلکہ اخوان کی مخالف بلکہ دشمن عدلیہ کے زیر اہتمام یہ ریفرنڈم کرایا گیا تھا۔ آئین کی منظوری کے لئے پچاس فیصد ووٹ ہی کافی تھے، یہاں تو دو تہائی کے قریب ووٹ مل گئے، ظاہر ہے اس آئین کو نافذ کرنا ہی تھا۔ اس میں تمام بنیادی حقوق اور آزادی اظہار رائے و تقریر موجود تھے۔ خواتین کو زیادہ سماجی آزادی اور تحفظ دیا گیا۔ یاد رہے کہ اخوان خواتین کی تعلیم اور ان کے کام کرنے کے قطعی مخالف نہیں۔ آئین میں صرف ایک نئی شق ایسی شامل ہوئی جس پر قبطی عیسائیوں، لبرل اور سیکولر حلقوں اور مغربی این جی اوز نے طوفان اٹھا لیا۔ وہ شق توہین رسالت کرنے والے کے خلاف سزا کا قانون تھا۔ اخوان المسلمون نے اس پر سٹینڈ لیا اور کہا کہ نبیؐ کی توہین کی جسارت کرنے والے کو سزا ملنی چاہیے۔ ایک بات اور کہی جاتی ہے کہ اخوان کو طیب اردوان ماڈل کی پیروی کرنی چاہیے تھی۔ ترکی اور مصر میں بہت فرق ہے۔ مصر مشرق وسطیٰ میں ہے، جہاں سرائیل نامی ایک ملک بستا ہے، جس میں امریکہ بہادر کی جان ہے۔ ترکی کی پوزیشن مختلف ہے۔ دوسرا ترکی میں اصلاحات مغربی کمپنیوں کو سوٹ کرتی تھیں۔ ترکی کے سخت گیر کمالسٹ سیکولرسٹوں نے نیشنلائزیشن کر رکھی تھی۔ طیب اردوان نے لبرل اکانومی اپنائی، نجکاری کی، غیرملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی، میڈیا کو آزادی دی۔ یہ سب باتیں مغربی ملٹی نیشنل کمپنیوں اور این جی اوز کو سوٹ کرتی تھیں۔ مصر میں ایسا ہو نہیں سکتا تھا۔ وہاں ترکی کی طرح کی تربیت یافتہ لیبر تھی، ویسی ٹیکنالوجی نہ مواقع۔ ڈاکٹر مرسی نے کئی ایسے پروجیکٹ شروع کئے جن کے ثمرات مصری عوام کو اگلے سال ڈیڑھ تک مل جاتے، کئی دیرینہ مسائل حل کرنے کی کوششیں شروع ہوئیں۔ اسی لئے تو مصری فوج، عدلیہ اور سیکولر اپوزیشن نے عجلت سے کام لیا کہ کہیں کچھ وقت مزید مل گیا تو اخوان پانسہ نہ پلٹ دے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں