کتابیں

پچھلے دنوںایک جریدہ نظر سے گزرا، اس میں جاپان کے حوالے سے ایک دلچسپ رپورٹ موجود تھی ۔ بتایا گیا کہ جاپان کے چھوٹے شہروں اور قصبات میں درجنوں لائبریریاں قائم ہیں، بڑے شہروں میں تو ان کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ لائبریریاں سرکاری طور پر قائم ہیں، جہاں کوئی بھی اپنا شناختی کارڈ دکھا کر اس کا رکن بن سکتا ہے۔ ایک سے زائد لائبریریوں کا بیک وقت رکن بھی بنا جا سکتا ہے۔ ضابطہ یہ ہے کہ کوئی بھی ممبر سات لائبریریوں سے مختلف موضوعات پر پندرہ دنوں کے لئے کتابیں ایشو کرا سکتا ہے۔ ممبر چاہے توکتاب مزید پندرہ دنوں کے لئے ایشو ہوجاتی ہے۔ اس مدت میں مزید اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔ یہ لائبریریاں ہر نئی کتاب کے پانچ سات نسخے خریدتی ہیں۔ اس طرح پبلشر کو یہ فائدہ پہنچتا ہے کہ اس کی نئی کتاب کی کئی ہزار کاپیاں ان لائبریریوںمیں چلی جاتی ہیں۔ سکول ،کالج اور یونیورسٹی کی لائبریریاں اس کے علاوہ ہیں، جہاں طلبہ پر پابندی ہوتی ہے کہ وہ خاص موضوعات پراپنے اساتذہ کی طرف سے بتائی گئی کتابیں ضرورلے کر پڑھیں۔ کتابوں کی دستیابی کا پڑھ کر بے اختیار جاپانیوں پر رشک آیا۔ ایک زمانہ تھا، ہمارے ہاں بھی کتاب پڑھنے کا کلچر کسی نہ کسی حد تک موجود تھا۔ چھوٹے بڑے شہروں میں لائبریریاں موجود تھیں،جہاں ہر سال کچھ نہ کچھ نئی کتابوں کا اضافہ بھی ہوجاتا۔ ان دنوں کرائے پر کتابیں دینے والی لائبریریوں کا بھی رواج تھا۔ کسی زمانے میں آنہ میں کتاب ملتی تھی، وہ دور ہم نے تو نہیں دیکھا، ہمارے دور میں ایک روپیہ بعد میں دو اور پھر پانچ روپے روزانہ میں کتاب ملتی تھی۔پہلے ابن صفی اور پھر مظہر کلیم کی عمران اور فریدی سیریز سے لے کر نسیم حجازی کے ناولوں کی پوری سیریز میں نے لائبریریوں سے لے کر پڑھی۔ عبدالحلیم شرر کے تاریخی ناول بھی وہاں سے مل جاتے تھے۔ تاریخی ناول نگاروں میں مجھے قمر اجنالوی سب سے بہتر لگے۔ مقدس مورتی، بغداد کی رات وغیرہ ان کے مشہور ناول ہیں۔ کچھ عرصہ سے ہمارے لبرل لکھنے والے نسیم حجازی کا مضحکہ اڑاتے ہیں، ہمیشہ طنزاً ان کا نام لکھا جاتا ہے۔ پاکستانی کلچر سے ناواقف ان نام نہاد دانشوروں کے خیال میں نسیم حجازی کی تحریروں سے شدت پسندی نے جنم لیا کہ پڑھنے والوں کے ذہنوں میں عظمت رفتہ کا نقش گہرا ہوا اور مسلمان سپہ سالار اس کے آئیڈیل بن گئے۔ سچ یہ ہے کہ نسیم حجازی کے تمام ناول بار بار پڑھنے کے باوجود ہمارے ذہن اور مزاج پر کوئی منفی اثر مرتب نہیں ہوا۔ دراصل انہیں تاریخی کتابیں نہیں صرف فکشن سمجھنا چاہیے۔ نسیم حجازی کی نثر خوبصورت اور دلکش ہے، اس میں رومانویت موجود ہوتی ہے، مگر ایک خاص ملفوف انداز میں، فحاشی کے عنصر سے پاک ۔میں نے تو اپنے بھانجے بھتیجوں کو ہمیشہ نسیم حجازی پڑھنے کی نصیحت کی،ماشا ء اللہ ان میں سے کسی ایک میں بھی شدت پسندی کا شائبہ تک نہیں آسکا۔ ہم اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ احمد پورشرقیہ میںایک اچھی میونسپل لائبریری ہے‘ جہاں اچھی خاصی تعداد میں کتابوں کے ساتھ مختلف اخبارا ور جرائد مفت پڑھنے کو مل جاتے تھے۔ اگرچہ وقتاً فوقتاًمقامی بلدیہ میں ایسے چیف آفیسر آتے رہے، جن کے خیال میں بلدیہ کا فنڈ لائبریری پر ضا ئع ہو رہا تھا؛ تاہم علم دشمنی کے یہ رویے اس لائبریری کو ختم نہ کرسکے۔ وہاں کے نوجوانوں کے لئے یہ غنیمت تھی۔ اس زمانے میں سول سروس کا امتحان دینے والے یہیں پر پائے جاتے۔پچھلے دنوں احمد پورشرقیہ کا چکر لگا تو ایک بزرگ نے لائبریری کے حوالے سے مقامی سیاستدانوں کے رویے پر مبنی واقعہ سنایا۔ کہنے لگے کہ معززین شہر نے پروگرام بنایا کہ لائبریری میں توسیع اور یہاں پر کتابوں کی تعداد میں اضافے کے لئے ایم پی اے سے فنڈ مانگا جائے۔ لائبریری میں ایک تقریب رکھی گئی، جس کا مہمان خصوصی عباسی نوابوں کے چشم وچراغ کو بنایا گیا جو ان دنوں ایم پی اے تھا۔ شہزادہ صاحب تشریف لے آئے، تقریریں ہوئیں، جن میں کتابوں کی افادیت اور قوموں پر ان کے اثرات کے حوالے سے گفتگو ہوئی۔ نوجوان ایم پی اے اس دوران لاتعلقی سے اپنے موبائل پر میسج پڑھتا رہا۔ جب اس کی تقریرکی باری آئی تو کہا، ’’میں کتابوں کے لئے اپنے فنڈ سے پیسے کیوں دوں؟ یہاں سے کون سے ووٹ مل جانے ہیں؟‘‘ یہ جواب سن کر سب ششدر رہ گئے۔ جہاں پر ارکان اسمبلی کا ویژن یہ ہو، اس خطے کے عوام کی قسمت کا فیصلہ کیا ہوگا،یہ جاننے کے لئے کسی دانش کی ضرورت نہیں۔بہاولپور صوبہ کا مطالبہ سن کر مجھے ہمیشہ ہنسی آتی ہے کہ اگر خدانخواستہ بہاولپور کا اقتدار ان عباسی شہزادوں، مخدوموں،گردیزیوں اورچیموں وغیرہ کے ہاتھ آگیا تو لوگوں کا کیا بنے گا؟ ہمارے ہاں کتابوں کا ٹرینڈ جس خوفناک حد تک کم ہوچکا، اس کا حال سب کومعلوم ہے۔افسوس یہ ہے کہ جن شعبوں میں کتابیں پڑھنا لازمی تصور ہوتا ہے ، وہاں بھی اب کتاب کا ذکر ہی نہیں ملتا۔ میری جس نوجوان صحافی سے ملاقات ہو، اس سے یہ ضرور پوچھتا ہوں کہ آج کل کون سی کتاب پڑھ رہے ہو۔ نوے فیصد سے زیادہ نوجوان یہ سن کر یوں حواس باختہ ہوجاتے ہیں، جیسے ان کی توہین کر دی گئی ہو۔جب پوچھا جائے کہ آخری کتاب کب پڑھی تو بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔ کئی ایک تو کہہ اٹھتے ہیں کہ کتاب کون پڑھے، یہاں تواخبار پڑھنے کا وقت نہیں۔جی چاہتا ہے کہ پوچھا جائے ، آخر آپ دن بھر کرتے کیا ہیں؟ ہمارے خیال میں تو جو صحافی یہ کہے کہ میرے پاس اخبار پڑھنے کا وقت نہیں ، اسے فوری طور پر اس شعبے ہی سے نکال باہر کرنا چاہیے۔ ویسے جہالت کے یہ مظاہر ہر جگہ نظر آتے ہیں۔جب سے نیوز چینلز کا آغاز ہوا، اس وقت سے ہم کرنٹ افئیرز کی دنیا میں جی رہے ہیں۔ ہر طرف کسی نہ کسی خبر یا واقعے پر بات ہوتی ہے۔ سطحی تجزیے، سطحی باتیں۔ جن ایشوز پر گہرائی سے بات کرنی اور سننی چاہیے، ان کی کمرشل ویلیو ہی نہیں رہی، اس لئے ایسے پروگرام ہی نہیں بنتے۔ کبھی گریٹ ڈیبیٹ کے نام سے کوئی پروگرام ہوبھی جائے تو اس میں چھ سات شرکا کو بلا لیا جاتا ہے۔ پانچ منٹ سے زیادہ کوئی بات ہی نہیں کرپاتا۔ ایسے میں سنجیدہ مکالمہ کیسے ہوسکے؟ یہی وجہ ہے کہ کوئی نیا خیال ، کوئی فکر افروز بات سنے ہفتوںمہینوں بیت جاتے ہیں۔ ایشوز کو سمجھنے ، ان کی تفہیم کرنے کے لئے بھی ایک خاص قسم کی ذہنی سطح کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ انٹیلی جنشیا کا کام ہے کہ وہ قوم کی ذہنی اور فکری تربیت کرے، عوام کی ایک معقول تعداد کا کم از کم لیول اتنا کرے کہ وہ دانشورانہ گفتگوکو سمجھ سکیں،ا س میں حصہ لے سکیں۔ اس کام میں ہم سب ناکام ہوئے ہیں۔ ادیبوں سے کالم نگاروں او ر اینکرز سے دانشوروں تک سب کسی نہ کسی حد تک اس ناکامی میں حصہ دار ہیں۔ اس عمل کو ریورس کیا جا سکتا ہے۔ ناممکن کچھ بھی نہیں۔ کتاب کلچر کو مگر دوبارہ سے فروغ دینا ہوگا۔ سکول اور کالج ابتدائی سیڑھیاں ہیں۔ یہاں سے ابتدا کرنی ہوگی۔ طلبہ کو کتاب پڑھنے اور سمجھنے کی عادت ڈالنی ہوگی۔ کتاب ، صاحب کتاب اور اہلِ علم کوعزت بخشے بغیر معاشرے میں علمی کلچر پیدا نہیں ہوسکتا۔ اس کے لئے پہلے استاد میںبھی علمی کلچر پیدا کرنا ہوگا۔ جب تک استادوں کو کتاب پڑھنے کی عادت نہیں ہوگی، اس وقت وہ شاگردوں کو کتاب پڑھنے پر کیسے آمادہ کر سکتے ہیں؟ سوال مگر یہ ہے کہ بڑے بڑے گمبھیر مسائل میں الجھے سیاستدانوں کے پاس ان معاملات پر غور کرنے کا وقت کہاں سے آئے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں