ریاست نہیں‘ سسٹم ناکام ہوا ہے

پچھلے کچھ عرصے سے یکے بعد دیگرے ایسے واقعات ہو رہے ہیں جس سے یہ تاثر ملا کہ پاکستانی ریاست ناکام ہو چکی ہے اور یہ ملک کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر واقعہ پہلے سے زیادہ لرزہ خیز اور دہلا دینے والا ہے۔ پہلے جنگجوئوں کے ایک گروہ نے حملہ کر کے بنوں جیل توڑی اور سینکڑوں خطرناک قیدی آزاد کرا لیے۔ پھر انتخابات کے بعد جب نئی حکومت بنی اور عوام میں امید کی کرن جاگی، اس وقت یکا یک مختلف اطراف سے قیامت ٹوٹ پڑی۔اس بار نشانہ بلوچستان تھا۔ کوئٹہ میں طالبات کی بس میں دھماکہ اور پھر ہسپتال میں دہشت گردی نے پولیس اور صوبائی انتظامیہ کی نااہلی ثابت کر دی۔ اس سے چند گھنٹے پہلے رات کے اندھیرے میں تاریخی زیارت ریزیڈنسی جلادی گئی۔کراچی کے محاذ میں بدستور تیزی برقرار رہی، وہاں ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ لینے کے واقعات اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ لوگوں کے لئے جینا دوبھر ہوگیا۔ اندرون سندھ بھی دہشت گردی کے واقعات ہوئے ، جس سے نیا محاذ کھلنے کا اشارہ مل رہا ہے، حالانکہ وہاں اس قسم کی دہشت گردی ماضی میں نہیں ہوئی۔ ڈیرہ اسماعیل خان جیل پر حملہ کر کے قیدی چھڑانے کے واقعے نے تو انتظامیہ اور موجودہ سسٹم کے کھوکھلے ہونے کو پوری طرح ایکسپوز کر دیا ہے۔ اس واقعے اور اس کے بعد ہونے والے سانحات پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے، دہرانے کی ضرورت نہیں۔ ان میں سے بعض واقعات بظاہر ایک دوسرے سے جدا ہیں، ان کے ذمہ دار گروہ بھی مختلف ہیں،مگر ان میں قدر مشترک موجود ہے۔ جیلیں توڑنے کے واقعات کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ،جو ایک بنیادپرست ، شدت پسند مسلح تنظیم ہے، اس کی قیادت پشتون ہے ، فیلڈ جنگجوئوں اور خود کش بمباروں کی اکثریت کا تعلق بھی فاٹا سے ہے ۔زیارت ریذیڈنسی پر حملہ بلوچ انتہا پسند مسلح تنظیم بی ایل اے نے کیا، انہوں نے اس کی ذمہ داری بھی قبول کی۔ یہ شدت پسند تنظیم ریڈیکل لیفٹ اور سیکولر نظریات کے حامل لوگوں پر مشتمل ہے۔اس خلیج کے باوجود محسوس یہ ہوتا ہے کہ ٹی ٹی پی اور بلوچ شدت پسند تنظیموں کے درمیان ایک نادیدہ تعلق ہے، دونوں ہی صوبائی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ناکام بنانا چاہتے ہیں۔مچھ میں عید کے لئے پنجاب اور کے پی کے جانے والے مسافروں کو بسوں سے اتار کر قتل کر دینے کا واقعہ بھی ایک خاص سگنل دے رہا ہے۔ اس واقعے کی ذمہ داری ڈاکٹر اللہ نذر کی بی ایل ایف نے قبول کی، ان کی تنظیم تربت، اواران، پنجگور وغیرہ میں طاقت پکڑ چکی ہے۔اس واقعے کے بعد کوئٹہ میں پہلے ایک ایس ایچ او کو نشانہ بنایا گیا اور پھرمقتول کی نماز جنازہ پر خود کش حملہ کر دیا گیا۔یہ ٹی ٹی پی کا مخصوص طریقہ واردات ہے۔ اس حملے سے صوبائی پولیس کا مورال جس قدر گرا ہوگا، اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں ایک اور رشتہ بھی موجود ہے، یوں لگ رہا ہے جیسے کوئی ماسٹر پلانر بڑے سکون اور اطمینان سے بیٹھا شطرنج کی بساط پر چالیں چل رہا ہے۔ ایک طرف سے شاہ پر حملہ، دوسری طرف سے حملہ کر کے وزیر کو الجھا لینا، ساتھ ساتھ گھوڑا، فیل اور رخ جیسے قیمتی مہرے بھی مارتے جانا۔ایک تو ان حملوں میں تواتر کا عنصر ہے، انتظامیہ اور ایجنسیوں کو سنبھلنے کا موقعہ نہیں دیا جا رہا۔ ایک دوسرے سے دور واقع شہروں میں حملے ہو رہے ہیں ، ہر بار طریقہ واردات بھی بدل جاتا ہے۔کبھی پشاورتو کبھی ڈی آئی خان جیسے خبیر پختون خوا کے جنوبی ضلع کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اگلی کارروائی کوئٹہ میں ہوتی ہے تو ساتھ ہی اندرون بلوچستان میں محاذ کھول دیا جاتا ہے۔ سیٹلرز کے خلاف پچھلے کچھ عرصے سے محاذ گرم نہیں تھا، اب اچانک انہیں نشانہ بنا نے کا مقصد سراسیمگی پھیلانا ہے۔ کراچی میں معاملات پرسکون نہیں ہونے دئیے جا رہے تو اندرون سندھ بھی سافٹ ٹارگٹ ڈھونڈے جا رہے ہیں۔ کراچی کو تو پچھلے سال ڈیڑھ سے مفلوج بنایا ہوا ہے، اب بلوچستان اور کے پی کے کو نشانہ بنانے سے تین چھوٹے صوبوں کی انتظامیہ اور ایجنسیوں کو مفلوج بنانا مقصود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کی انتظامیہ کے اعصاب بھی چیک کئے جا رہے ہیں۔عید والے دن بھارہ کہو پر حملہ درحقیقت آنے والے سنگین حملوں کی پیشگی وارننگ ہے۔جمعرات کے روز بلیو ایریا میں ساڑھے پانچ گھنٹے تک جو ڈراما ہوا ، اسے کوئی فرد واحد کی احمقانہ حرکت یا محض اتفاق قرار دے سکتا ہے،مگر جس قسم کی جنگ میں ہم الجھے ہوئے ہیں، وہاں کسی بھی واقعے کو سادہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ جو ہو رہا ہے، اس کے پیچھے کارفرما ہاتھ اور ذہن پہچاننے کی ضرورت ہے۔اس وقت پنجاب واحد صوبہ ہے، جہاں کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوا،مگر ہمیں نہیں معلوم کہ دشمنوں کا کیا منصوبہ ہے اور وہ اگلا ٹارگٹ کہاں تلاش کر چکے ہیں؟کسی بھی وقت کہیں پر کوئی وار ہو سکتا ہے۔ اندرونی انتشار کے ساتھ ساتھ بیرونی محاذ بھی گرم ہو چکا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر ایک مشکوک واقعے کے بعد بھارتی حکومت اور میڈیا نے اپنی توپوں کا رخ پاکستان کی طرف کر دیا ہے۔ ڈاکٹر ویدک نے روزنامہ دنیا میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں لکھا کہ بھارتی فوج نے ایف آئی آر میں پہلے یہ لکھوایا کہ دہشت گردوں نے ہم پر حملہ کیا، بعد میں بھارتی حکومت نے قلابازی کھائی اور یہ الزام پاکستانی فوج پر تھوپ دیا۔ بھارتی الزام تراشی اور پروپیگنڈہ مہم کے ساتھ ساتھ یہ بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ بھارتی دفاعی ماہرین کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ ہم مخصوص پاکستانی علاقوں پر سرجیکل سٹرائیک کر سکتے ہیں۔ یہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں کہ دو مئی دوہزار گیارہ کے ایبٹ آباد آپریشن کی طرح اگر بھارت کی جانب سے لاہور کے قریب مریدکے یا کسی اور سرحدی شہر پر کوئی سٹرائیک ہوئی، تو اس کا کس قدر خوفناک نتیجہ برآمد ہوگا؟ مجھے توقع ہے کہ ہمارے منصوبہ سازوں نے ایسی ہر آپشن ذہن میں رکھی ہوگی۔ دو تین دن پہلے دنیا کے سینئر کالم نگار خالد مسعود نے اپنے کالم میں ایک خوفناک انکشاف کیا۔ کچھ عرصہ پہلے جماعت الدعوہ کے ایک تعلقات عامہ کے عہدے دار کو اغوا کر کے قتل کیا گیا تھا۔خالد مسعود کا دعویٰ ہے کہ ان صاحب کو قتل کرنے والوں کا سرا دور تک جاتا ہے۔ دبئی سے یہ آپریشن را نے پلان کیا، مقتول کو اغوا کر کے ٹارچر کیا گیا اور (غالباً)حافظ سعید صاحب کے حوالے سے کچھ معلوم کرنے کی کوشش کی گئی، بعد میں لاش نہر میں پھینک دی گئی۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ اطلاع کس حد تک درست ہے ، مگر خالد مسعود ایک ذمے دار شخص ہیں، انہیں یہ خبر کسی اہم ذریعے ہی سے ملی ہوگی۔ اگر اس میں کچھ فیصد بھی صداقت ہے توہمیں بطور قوم اور ہمارے اداروں کو خصوصاً کسی بھی انہونی سے نمٹنے کے لئے تیار ہو جانا چاہیے۔ ایک بات سمجھ لینی چاہیے کہ ریاستیںنہیں ، ان کا سسٹم ناکام ہوجاتا ہے۔ ہر قوم اور ریاست کو اپنی زندگی کے مختلف مراحل پر چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کا ردعمل ہی ان کی زندگی کی مدت کو طے کرتا ہے۔ یہ بات واضح ہوچکی کہ ہم اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہے ہیں، یہ بھی کھل چکا کہ ہمارا موجودہ سسٹم اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے ناکافی ہے‘ وہ ناکام ہوچکا ۔پریشان ہونے یا بوکھلانے کے بجائے ہمیں اس کا تدارک کرنا ہوگا۔ کرنے والا کام یہ ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر نیا سسٹم کھڑا کیا جائے یا اس سسٹم میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لا کر اسے مضبوط بنایا جائے۔ اس کے لئے انٹیلی جنشیا کو تجاویز دینی چاہئیں۔اداروں پر لعن طعن کرنے سے رہا سہا مورال بھی تباہ ہوجائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں