موقع‘ جو ضائع کر دیا گیا

قرطبہ کی اس حسین مسجد کے کشادہ صحن میں خلاف معمول خاموشی چھائی تھی۔ عصر کی نماز کے بعد وقفے میں تھکے ہارے طلبہ سستا رہے تھے۔ صحن کے ایک گوشے میں پانچ طالب علم بیٹھے دھیمی آواز میں گفتگو کر رہے تھے۔ ہر طالب علم مستقبل کے حوالے سے اپنی سوچ بیان کر رہا تھا۔ چار لڑکوں نے اپنی اپنی خواہش ظاہر کی۔ پانچواں لڑکا، جسے تاریخ نے ابن ابی عامر کے نام سے یاد رکھا، اپنی باری پر بولا: ’’تم سب کی سوچ بڑی محدود ہے، میں تو خود کو مستقبل میں سلطنت کے وزیر اعظم کے طور پر دیکھ رہا ہوں‘‘۔ یہ سن کر گویا ہنسی کا فوارہ پھوٹ پڑا۔ اس کے چاروں دوست بے ساختہ ہنسنے لگے۔ ایک شوخ لڑکے نے ایک طنزیہ شعر بھی چُست کر دیا۔ ابن عامر کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ اس نے جھنجھلا کر کہا: ’’میں وزیر اعظم بن کر ہی رہوں گا۔ ابھی وقت ہے، اپنے لئے جو مانگنا ہے، مانگ لو‘‘۔ یہ سن کر ایک دوست نے مسکرا کر کہا: ’’اے ابن ابی عامر! مجھے قاضی بننے کا شوق ہے، تم مجھے میرے آبائی شہر مالقہ کا قاضی بنا دینا‘‘۔ دوسرے نے پولیس کے حاکم اعلیٰ کا عہدہ مانگا۔ تیسرے نے کہا کہ مجھے باغات کا بڑا شوق ہے‘ مجھے تو بس شہر کے تمام باغات کا نگران بنا دینا۔ چوتھے لڑکے‘ جس نے طنزیہ شعر پڑھا تھا، نے حقارت سے ابن عامر کے سر پر چپت لگائی اور کہنے لگا: ’’تمہاری اگلی سات نسلوں میں بھی کوئی وزیر اعظم بنا تو میرا منہ کالا کر کے گدھے پر الٹا سوار کر کے شہر میں گشت کرانا‘‘۔ … دس سال بعد شہر کے بچوں کے جم غفیر کے درمیان وہی بدزبان طالب علم گدھے پر الٹا بیٹھا اس روز بد کو کوس رہا تھا، جب اس نے ابن عامر کا مذاق اڑاتے ہوئے اس منحوس خواہش کا اظہار کیا۔ مسجد قرطبہ کے صحن میں بیٹھ کر اندلس کی عظیم الشان سلطنت کے وزیر اعظم کا خواب دیکھنے والا ابن ابی عامر تاریخ کا ایک ایسا جگمگاتا کردار ہے، جس کی آب و تاب ہزار سال گزرنے کے بعد بھی ماند نہیں پڑی۔ ابن عامر جنوبی سپین کے ساحلی شہر الجزیرہ خضرا کے ایک نجیب، مگر متوسط گھرانے میں پیدا ہوا۔ مورخین نے اسے ’’ابو عامر محمد بن عبداللہ بن ابی عامرالحاجب المنصور‘‘ کے نام سے یاد رکھا اور پکارا۔ حاجب اس کا عہدہ تھا، جبکہ المنصور (فاتح) کا نام اس کی غیرمعمولی فتوحات کے باعث دیا گیا۔ اسے منصور اعظم کے نام سے بھی پکارا گیا۔ ابن عامر اپنے آبائی شہر سے قرطبہ قانون اور ادب کی تعلیم حاصل کرنے آیا۔ مدرسے سے فراغت کے بعد اس نے قرطبہ کی کچہری میں بطور عرضی نویس کام شروع کر دیا۔ اپنی قابلیت اور ذہن رسا کے باعث آہستہ آہستہ شاہی خاندان کے ساتھ اس کا تعلق قائم ہو گیا۔ حالات نے کچھ ایسی کروٹ بدلی کہ ابن عامر خود بخود نمایاں ہوتا گیا۔ خلیفہ ہشام اوّل کے انتقال کے بعد ابن عامر کے تعاون سے بارہ سالہ ولی عہد ہشام دوم کو مسند خلافت ملی۔ نوعمر خلیفہ نے اپنے محسن کو حاجب جیسے اہم ترین عہدے سے نوازا۔ ابن عامر نے اپنے چھتیس سالہ عہد میں عیسائی ریاستوں سے ستاون جنگیں لڑیں اور سب جیتیں۔ مورخ لین پول نے المنصور کے بارے میں لکھا: ’’عبدالرحمٰن سوئم نے جس عظیم اندلس کا خواب دیکھا تھا، اس کی تعبیر المنصور کے عہد میں ظہور پذیر ہوئی‘‘۔ ابن ابی عامر المنصور نے اندلس میں اعلیٰ پائے کا انتظامی نظام بھی قائم کیا۔ وہ رشوت اور بدعنوانی کے سخت خلاف تھا، اس نے ایسا نظام وضع کیا جس سے اسے کسی بھی شعبے میں کی گئی کرپشن یا اقربا پروری کی فوری اطلاع مل جاتی۔ وہ اس اہلکار کو سخت سزا دیتا تاکہ دوسروں کو عبرت ہو۔ ابن ابی عامر نے اہل علم و ادب کی بڑی عزت کی، ان کے لئے وظیفے مقرر کئے اور انہیں توقیر بخشی۔ مورخین کہتے ہیں کہ ابن ابی عامر المنصور کے دور میں عوام بہت خوش تھے کیونکہ کسی افسر یا اہلکار کی جرات نہ تھی کہ انہیں تنگ کر پاتا۔ ابن ابی عامر نے مرنے سے کچھ عرصہ پہلے اپنے وزرا کو بتایا: ’’میں زمانہ طالب علمی سے سوچتا تھا کہ اگر تقدیر مجھے اندلس کا طاقتور ترین شخص بنا دے تو میں اس سلطنت کو عظمت کی ان بلندیوں تک پہنچا دوں گا کہ یہاں کا شہری ہونا بھی فخر کی علامت سمجھا جائے‘‘۔ المنصور سے نفرت کرنے والے عیسائی مورخین بھی اس بات پر متفق ہیں کہ اندلس کو ویسا عروج دوبارہ نصیب نہ ہوا۔ ابن ابی عامر کا ذکر میں نے پہلی بار سکول کے زمانے میں مستنصر حسین تارڑ کی مشہور کتاب ’’اندلس میں اجنبی‘‘ میں پڑھا، اس کردار نے اس وقت سے مجھے انسپائر کر رکھا ہے۔ پانچ سال پہلے جب آصف علی زرداری صدر بنے تو میں نے ابن ابی عامر کا حوالہ دے کر لکھا تھا کہ جس طرح قدرت اندلس کے اس خوش بخت نوجوان پر مہربان ہوئی، ویسا ہی تاریخی موقع زرداری صاحب کو بھی ودیعت ہوا ہے۔ ستائیس دسمبر 2007 ء کی سہ پہر تک جس شخص کا پاکستانی سیاست میں کوئی کردار نہ تھا، جس کے لئے یہ طے ہو چکا تھا کہ وہ باقی زندگی ملک سے باہر رہ کر اپنے بچوں کی نگہداشت کرے گا، حالات نے ایسی کروٹ لی کہ صرف چند ہی ماہ میں وہ ملک کا اہم ترین اور طاقتور ترین فرد بن گیا۔ تاریخ ایسے مواقع ہر ایک کو نہیں دیتی، بار بار نہیں دیتی… اس لئے اس پانچ سالہ مدت کو اس طرح استعمال کریں کہ تاریخ میں آپ کا نام نقش ہو جائے۔ پانچ سال گزر گئے، تین دن پہلے جناب زرداری ایوان صدر سے رخصت ہو گئے۔ ان کے کردار پر حتمی رائے تو تاریخ ہی دے گی؛ تاہم ہم مظلوم پاکستانی عوام‘ جنہوں نے زرداری صاحب کا ’’سنہری دور‘‘ اپنی آنکھوں سے دیکھا، سہا بلکہ بھگتا، کے سامنے تو سب آشکار ہے۔ کسی لیڈر کی کارکردگی جانچنے کا سادہ ترین طریقہ یہ ہے کہ اس کے دور سے پہلے کی ملکی صورتحال اور اس کی مدت کے بعد کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے۔ اس حوالے سے زرداری صاحب کا دور ملکی تاریخ کے تاریک ترین ادوار میں سے ایک تھا۔ ایک عجب سی اذیت پسندی اور بے رحمی اس دور حکمرانی میں نظر آئی۔ لوگ لوڈشیڈنگ سے تنگ بلکتے تڑپتے رہے مگر کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ قومی ادارے ایک ایک کر کے ڈوبتے گئے، ان پر ایک سے بڑھ کر ایک نااہل فرد مقرر کیا جاتا رہا۔ کرپشن کی انتہا ہو گئی، عدالتوں کا مذاق اڑایا گیا، سزا یافتہ افراد کو نہ صرف تحفظ دیا گیا بلکہ انہیں اعلیٰ ترین مناصب بخشے گئے۔ عہدہ پانے کا معیار قابلیت کے بجائے غیرمشروط وفاداری تھا۔ ملکی معیشت کی تباہی کی داستان بڑی ہی خوفناک ہے۔ ملک پر پچیس ارب ڈالر سے زائد کا بیرونی قرضہ اور ایک ہزار ارب سے زیادہ اندرونی قرضہ چڑھ گیا۔ اربوں روپے کے نوٹ روزانہ چھاپ کر گزارا کیا جاتا رہا۔ یہ درست کہ بعض اچھے کام بھی ہوئے مگر عوامی ریلیف کے حوالے سے کچھ نہ کیا گیا۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی حقیقی تفصیلات جس دن منظر عام پر آ گئیں، ہر کوئی حیران رہ جائے گا۔ جس طرح جنرل ضیا نے اسلامی نظام کا نام لے لے کر اسے بدنام کیا، جنرل مشرف نے ’’اعتدال پسند روشن خیالی‘‘ کی اصطلاح کا بیڑا غرق کیا، وہی سلوک جناب زرداری نے ’’مفاہمت‘‘ اور ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ جیسی اصطلاحات سے کیا۔ آصف علی زرداری ایوان صدر میں وارد ہوئے تو مرکز اور تین صوبوں میں ان کی حکومت تھی۔ رخصت وہ اس حال میں ہوئے کہ بھٹو کی پارٹی‘ جو ملک کی سب سے بڑی جماعت تھی، اب اندرون سندھ تک محدود ہو چکی۔ پنجاب میں اسے تاریخ کی بدترین شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ یہی حال خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہوا۔ وہ بھٹو ووٹ‘ جسے پیپلز پارٹی کے مخالفین کوشش کے باوجود نہ توڑ سکے، اب کرچی کرچی ہو کر ایسا بکھرا کہ شاید دوبارہ جوڑنا ممکن نہ ہو۔ المنصور نے اپنے ایک گورنر کو خط میں لکھا تھا: ’’خوش نصیب وہ نہیں جسے اقتدار مل گیا بلکہ وہ ہے جس نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور اپنی قوم کی تقدیر بدل دی‘‘۔ افسوس آصف علی زرداری نے وہ موقع ضائع کر دیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں