آخری آپشن ہمیشہ باقی رہتا ہے

ہمارے ہاں میڈیا کے فعال ہونے اور سوشل میڈیا کا آپشن پیدا ہونے سے جہاں اور کئی مسائل پیدا ہوئے‘ وہاں ایک معاملہ خصوصی طور پر سامنے آیا‘ جس کا اعتراف کیا جانا چاہیے کہ اب ایسے موضوعات پر بحث شروع ہوئی ،جو پہلے ممکن نہ تھی۔ سرکاری ٹی وی ، ریڈیو اورصرف دو بڑے اخبارات کی موجودگی میں بہت سے ایشوز پر اس طرح بات نہیں ہوتی تھی، جیسی اب ہو رہی ہے۔ اس بحث کا معیار البتہ زیادہ بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہوجائے گا۔اس حوالے سے دو باتوں کو ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہیے۔ بحث کو گہرائی کے ساتھ بڑے تناظر میں دیکھنا اور ایک دوسرے پر الزامات لگانے سے گریز کرنا۔ بلیم گیم (Blame Game) انٹیلی جنشیا(اہل دانش) کا کام ہے نہ انہیں زیب دیتا ہے۔ بسا اوقات کسی معاملے میں انٹیلی جنشیا منقسم ہوجاتی ہے، ایک دوسرے سے یکسر متضاد آرا سامنے آتی ہیں۔ دوسرے کی علمی دیانت پر شبہ مگر نہیں کرنا چاہیے۔ پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات یا آپریشن بھی ایک ایسا ہی ایشو ہے ،جس پردونوں انتہائیں موجود ہیں۔ بعض لوگ ہر حال میں مذاکرات کے حامی ہیں اور بعض ہر قیمت پر جنگجوئوں کا صفایا چاہتے ہیں۔ پھر وہ لوگ جو ایک خاص مغربی ایجنڈے کو پروان چڑھانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں‘ جو مغربی تھنک ٹینکس کی زبان بولتے اور پاکستانی اداروں کی تباہی جن کی تمنا ہے ۔ ایسے معدودے چند لوگوں کے سوا اہلِ صحافت اور اہلِ دانش کی اکثریت کی دیانت اور خلوص پر کوئی شک نہیں کرنا چاہیے۔ جہاں تک اپر دیر میں دو ستاروں والے جرنیل کی شہادت اورپشاور میں چرچ پر حملہ کا تعلق ہے، یہ دونوں ایک طرح سے گیم چینجر واقعات ہیں۔ میرے خیال میںاس حوالے سے چند پہلوئوں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ ٭ مسیحی بھائیوں کو اس ہولناک سانحے سے جس قدر دکھ اور تکلیف پہنچی ، اس کا احساس پورے ملک کو ہوا۔ہر طرف سے پُرجوش اظہار یک جہتی ہوا، علماء سے لے کر مختلف طبقہ فکر کے لوگوں تک سب نے مسیحی کمیونٹی کی بھرپور سپورٹ کی۔ نیویارک ٹائمز کے رپورٹر نے جب اس موضوع پر لکھا تو وہ بھی یہ کہے بغیر نہ رہ سکا کہ پاکستان بھر میں اس حملے پر شدید رنج وغم کا اظہار کیا گیا۔ ایسا ہونا بھی چاہیے تھا۔اس حوالے سے بہت کچھ لکھا بھی گیا۔ مجھے ذاتی طور پر ان لوگوں سے شدید اختلاف ہے ،جنہوں نے اس واقعے پر جذباتی انداز میں یہ تک لکھ ڈالا کہ ریاست پر سوالیہ نشان لگ گئے ہیں یا ریاست کمزور ہوگئی، اس کارہنے کا جواز ختم ہوگیا… وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کا اندازِ تحریر اور گفتگو افسوسناک ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ پاکستانی ریاست ایک بڑی جنگ میں پھنسی ہوئی ہے۔ ایسی جنگ ،جس میں کچھ دشمن سامنے ہیں تو اس سے زیادہ پس پردہ بیٹھے مصروفِ کار ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا اپنا خاص ایجنڈا ہے، وہ پاکستانی ریاست کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ چرچ پر حملہ بھی دہشت گردی کے ان واقعات کا تسلسل ہے، جو پچھلے چار پانچ برسوں سے اہلِ پاکستان کو سہنا پڑ رہے ہیں ۔ فورسز کے سینکڑوں جوانوںاورافسروں سمیت چالیس پچاس ہزار پاکستانی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں، ہزاروں زخمی ہوئے، مالی نقصان کا حساب تک نہیں۔ شیعہ کمیونٹی زخم زخم ہے، مزارات پر حملے الگ ہوئے، بعض اعتدال پسند علمائے دین کو بھی قربانی دینا پڑی، اہلِ سیاست مسلسل اس کا نشانہ بنتے رہے۔ مسیحی برادری پر حملہ بھی دہشت گردی کی زنجیر کی ایک کڑی ہے۔ اسے الگ کر کے کیوں دیکھا جا رہا ہے؟ یہ تک کہا گیا کہ مسیحی برادری پر حملہ سے یہ معاملہ بین الاقوامی بن گیا اور اب اگر دنیا ہمارے اوپر ڈرون حملے کرے تو بجا ہے۔ یہ بات افسوسناک ہونے کے ساتھ بالکل غلط اور غیر منطقی ہے۔ بھارت میں گجرات کے اندر مسلمانو ں کے لہو کی جو ہولی کھیلی گئی ،وہ ناقابل یقین تھی، پچھلے دس برسوں میں وہاںکئی بار اعلیٰ ذات کے ہندئوں نے اڑیسہ اور دیگر علاقوں میں عیسائیوں کو نشانہ بنایا،کئی جانیں گئیں، ابھی حال ہی میں یوپی کے شہر مظفر نگر میں مسلمانو ں پر جو ظلم ہوا ، اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس سب کے باوجود کبھی کسی بھارتی صحافی یا تجزیہ کار نے اپنی ریاست پر سوال اٹھایا؟ یا اس ظلم کو بین الاقوامی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب عالمی برادری ہمارے ملک میں جو مرضی کرے؟ ظلم کی مذمت کی جاتی ہے، ایسا کرنے والوں کو نشانِ عبرت بنانے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ آئندہ ایسا نہ ہوسکے۔یہ سب درست ہے ، مگر اپنے ہی ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنا تو کسی طور جائز نہیں۔ ٭ مجھے ذاتی طور پر تحریک طالبان پاکستان (TTP)سے کوئی ہمدردی نہیں۔قارئین جانتے ہیں کہ میری ان کے بارے میں کیا رائے ہے۔ ان میں ایسے سفاک گروہ موجود ہیں ،جو کچھ بھی کر سکتے ہیں ، ماضی میں انہوں نے بہت کچھ کیا بھی، مگر منطقی طور پر چرچ حملہ میں ان کی شمولیت بعیدا زقیاس ہے۔ اس کی دو تین وجوہ ہیں۔ پہلی یہ کہ اس واقعے سے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوا۔ ان کی ہر کارروائی ایک خاص مقصد اور ایجنڈے کے تابع ہوتی ہے۔ یہ حملہ اس ایجنڈے اور پچھلے حملوں کے تسلسل سے ہٹا ہوا ہے۔ ٹی ٹی پی ہر واقعے کی ذمہ داری قبول کرتی ہے۔ اس واقعے کی نہ صرف ذمہ داری قبول نہیں کی بلکہ اس کی تردید اور بار بار تردید کی جار ہی ہے۔ گوریلا تنظیمیں ایسا نہیں کرتیں ،وہ فخریہ ہر حملے کو مانتی ہیں ،ورنہ اپنے بندے ضائع کروا کر کارروائی کا انہیں کیا فائدہ ؟اس حملے کی ذمہ داری شروع میں جند الحفصہ کی طرف سے قبول کی گئی ۔ یہ بات بڑی عجیب تھی۔ یہ تنظیم ستمبر 2007 ء میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر آپریشن کے بعد عصمت اللہ معاویہ نے قائم کی تھی، اس کا مقصد فورسز سے بدلہ لینا تھا۔ پچھلے سات برسوں میں اس تنظیم نے ایک بھی حملہ مسیحیوں پر نہیں کیا، یہ اس کا ایجنڈا ہی نہیں، اب اچانک ذمہ داری کیسے قبول کر لی؟ پھر عصمت اللہ معاویہ وہ پہلا شخص ہے ، جس نے مذاکرات کا خیر مقدم کیا ،جس پر اس وقت ٹی ٹی پی کی قیادت برہم بھی ہوئی کہ اپنے طور پر وہ یہ فیصلہ کرنے والا کون ہے؟ اب عصمت اللہ معاویہ‘ جو مذاکرات کا اولین حامی تھا، اچانک اس کو سبوتاژ کیوں کرے گا؟ پھر اپر دیر والے حملے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ بغیر کسی بیرونی سپورٹ یا سیٹلائیٹ سے تعاون کے ،ا س قدر درست نشانہ لگانا ممکن نہیں۔ کانوائے کی بہت سی گاڑیوں میں سے اصل گاڑی تک یوں پہنچنا ممکن نہ تھا۔ یہ سب بڑا معنی خیز اور پراسرا رہے۔ اس پر غور کرنا ضروری ہے۔ جلد بازی میں کوئی فیصلہ نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ ٭ مذاکرات کے حوالے سے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ یہ ایک جامع پولیٹیکل اصطلاح ہے، جو باقاعدہ حکمت عملی کا حصہ سمجھی جاتی ہے۔ اس کے ذریعے اعتدال پسند یا امن کی طرف لوٹنے والے گروپوں اور افراد کو راستہ دیا جاتا ہے۔ممکن ہے یہ حکمت عملی کامیاب ہو ،ممکن ہے نہ ہوپائے ،مگر اس سے اس کی افادیت پرحرف نہیں آتا۔ جو لوگ شمالی وزیرستان پر چڑھائی کی بات کر رہے ہیں، انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ اصل کام عسکریت پسندوں کو شہروں سے نکالنا ہے، لاہور، کراچی، پنڈی، پشاور جیسے شہروں سے ان کا نیٹ ورک توڑنا زیادہ اہم کام ہے۔ القاعدہ، ٹی ٹی پی، پنجابی طالبان ، لشکر جھنگوی یا کسی بھی اور کالعدم تنظیم کی اصل قوت شہروں میں موجود ان کا نیٹ ورک اور سلیپنگ سیلز ہیں۔یہی نیٹ ورک انہیں زیادہ خطرناک اور مہلک بناتا ہے۔یہ کام تو ہمیں کر گزرنا چاہیے، اس میں کیا رکاوٹ ہے؟ مذاکرات بھی اس کام سے نہیں روکتے ۔آپریشن کا آخری آپشن موجود ہے، یہ ہر وقت رہے گا، مگر اس کا فیصلہ ہمیں خود کرنا چاہیے۔ جو لوگ ایسی کارروائیاں کر کے ہمیں آپریشن کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں، ان کے ہاتھوں میں کھیلنے سے بچنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں