اتمام حجت کا اہتمام تو کیا جائے!

صورتحال پیچیدہ اور الجھی ہوئی سہی، نکلنے کا راستہ ہمیشہ باقی رہتا ہے۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے کنفیوژن بدستورموجود ہے۔اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے، کس فریق نے ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا،اس بحث میں الجھے بغیر ہم اس پورے معاملے کو مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کر کے جائزہ لیتے ہیں۔ کہتے ہیں جب کوئی ایشو سمجھ نہ آ رہا ہوتو اس کے سلائس بنا کر ان کو دیکھنا چاہیے۔ ٭ پاکستانی طالبان سے مذاکرات ہونے چاہئیں یا نہیں، اس حوالے سے مختلف آرا موجود ہیں۔ ہر ایک کے دلائل بھی سامنے ہیں۔ اخبارات اور ٹاک شوز میں اس ایشو پر بہت گرد اڑائی جا چکی۔ ہمارے خیال میں اب یہ بحث ختم ہوجانی چاہیے۔ آل پارٹیز کانفرنس میں پاکستان کی تمام اہم سیاسی جماعتوں نے متفقہ موقف اختیار کیا کہ پاکستانی طالبان گروپوں سے مذاکرات کئے جائیں۔ اے پی سی کے شرکا کو خفیہ اداروں نے تفصیلی بریفنگ دی تھی۔ ان سب پر آشکار تھا کہ یہ سب مسلح گروہ ہیں، دہشت گردی (یا چلئے عسکریت پسندی کہہ لیجئے)کی بے شمار کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ ان میں سے بعض کی فنڈنگ ملک دشمن قوتیں کر رہی ہیں۔کئی گھنٹوں پر محیط کانفرنس میں یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا کہ ان میں سے بعض شدت پسند گروہ ریاست کی رٹ قطعی تسلیم نہیں کریں گے، ان گروپوں کی تعداد کے بارے میں بھی اعتماد میں لیا گیا ، فطری طور پر شرکا کو یہ بھی بتلایا گیا ہوگا کہ امن مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ان تمام خدشات، تحفظات کے باوجودقومی سیاسی جماعتوں نے ، حکومت کو مینڈیٹ دیا کہ وہ ان گروپوں کے ساتھ مذاکرات کرے، امن کو ایک موقعہ دیا جائے۔یہ بات طے ہوچکی ، اب مجھے یا کسی اور کو اچھا لگے یا برا، اس سے قطع نظر مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے اور تکمیل تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ ٭ اے پی سی کے انعقاد سے پہلے اور اس کے اعلامیہ کے بعد امن مذاکرات کے حوالے سے لکھتے ہوئے ہم نے انہی کالموں میں عرض کی تھی کہ مذاکرات کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مخالف گروپوں میں تقسیم پیدا ہوجاتی ہے، بعض گروہ یا جنگجو کمانڈر جو جنگ سے تھک چکے ہوں یا امن کی طرف واپس آنا چاہتے ہوں، ان کے لئے راستہ نکل آتا ہے۔ حکومت کی جانب سے مذاکرات کی پیش کش ہوتے ہی یہی متوقع ردعمل سامنے آیا۔ پنجابی طالبان کے کمانڈر عصمت اللہ معاویہ نے حکومتی پیش کش کے چند ہی گھنٹوں بعد اس کا بھرپور خیرمقدم کیا۔محسوس یہ ہوتا ہے کہ ٹی ٹی پی کی قیادت اس پر بھونچکا رہ گئی۔پاکستانی طالبان کے ترجمان نے فوراًردعمل ظاہر کیا اورعصمت اللہ معاویہ کو تحریک طالبان پنجاب کے امیر کے عہدے سے ہٹا دیا۔ اب بعض اطلاعات آئی ہیں کہ ٹی ٹی پی کے لوگوںنے عصمت اللہ معاویہ کے گھر پرچھاپہ بھی مارا ،مگر وہ پہلے ہی کسی اور خفیہ مقام پر شفٹ ہو چکے تھے۔ گزشتہ روز ایک انگریزی معاصر نے ڈیرہ اسماعیل خان سے خبر دی کہ عصمت اللہ معاویہ نے کسی خفیہ مقام سے ان کے نمائندے سے فون پربات کی اور واضح طور پر اعلان کیا کہ ان کا گروپ غیر مشروط مذاکرات کے لئے تیار ہے۔ اخبارکے مطابق عصمت اللہ معاویہ نے واضح طور پر چرچ حملہ، سیکریڑیٹ بس دھماکہ اور قصہ خوانی بازار دھماکوں سے لاتعلقی ظاہر کی اور اس کا ذمہ دار امریکہ اوران قوتوں کو ٹھہرایاجو بقول اس کے مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے ساتھ کے پی کے کی موجودہ صوبائی حکومت کو ڈس کریڈٹ کرنا چاہتے ہیں۔ ٭ بات آگے بڑھانے سے پہلے یہ بتاتے چلیں کہ پنجابی طالبان دراصل مقبوضہ کشمیر میں مسلح جدوجہد کرنے والی تین بڑی جہادی تنظیموںکے سپلنٹر گروپوں اور لشکر جھنگوی کے بعض گروپوں پر مشتمل ایک ڈھیلے ڈھالے نیٹ ورک کا نام ہے۔ بنیادی طور پرکشمیری جہادی تنظیموں کے بعض بڑے کمانڈروںنے الگ ہو کر جنوبی وزیرستان میں تحریک طالبان پاکستان کو جوائن کرلیا اور ان کے ساتھ اتحاد قائم کر لیا۔ ان میں حرکتہ الجہاد الاسلامی کے سابق کمانڈر الیاس کشمیری،حرکت المجاہدین کے بدر منصور اور جیش محمد کے عصمت اللہ معاویہ شامل ہیں۔ ان تینوں نے اپنے اپنے گروپوں کو ساتھ لیا اور جنوبی وزیرستان مقیم ہوگئے۔چوتھا اہم گروپ لشکر جھنگوی کے قاری ظفر کا تھا، جس نے کراچی سے بھی ریکروٹنگ کی۔ لشکر جھنگوی کے بعض گروپ بھی ان کے ساتھ شامل ہوئے۔ الیاس کشمیری کو جنرل پرویز مشرف پر حملوں کے بعد گرفتار کیا گیا، جب ڈیڑھ دو سال بعد2005ء میںرہا کیا گیا تو انہوںنے سیدھا جنوبی وزیرستان کا رخ کیا۔ عصمت اللہ معاویہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر ملٹری آپریشن کے بعد فعال ہوئے، انہوں نے جند الحفصہ نامی گروپ بنایا ۔خفیہ ادارے عصمت اللہ معاویہ کو اپنے لئے اہم خطرہ سمجھتے رہے کہ ان کے گروپ کے پاس گن فائٹ کی صلاحیت بھی تھی اور سابقہ جہادی تنظیموں میں ان کا خاصا اثرورسوخ تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ الیاس کشمیری، بدرمنصور اور قاری ظفر مختلف ڈرون حملوں میں مارے گئے۔ پنجابی طالبان کے نمایاں کمانڈروں میں عصمت اللہ معاویہ ہی بچے ہیں،اس اعتبار سے دیکھا جائے تو عصمت معاویہ کا مذاکرات کی جانب کھنچے چلے آنا خوش آئند ہے کہ پنجاب کے شہری علاقوں میں پنجابی طالبان ہی اصل قوت اور خطرہ ہے، اگر اس کے ساتھ بات طے ہوگئی تو خطرات خاصے کم ہوجائیں گے۔ ٭ جہاں تک ٹی ٹی پی یعنی تحریک طالبان پاکستان کا تعلق ہے، اس کی اہمیت اور قوت سے انکار نہیں۔ یہ عسکریت پسندوں کی سب سے بڑی تنظیم ہے، جس کا اپنا منظم سٹرکچر موجود ہے۔ حکیم اللہ محسود اس کے قائد ہیں، بات انہی سے کرنی ہوگی۔یہ کوئی آسان کام نہیں، ٹی ٹی پی نے پچھلے چند برسوں میں غیرمعمولی قوت اور اثرورسوخ حاصل کیا ہے، جس سے دستبردار ہونا ان کے لئے بھی آسان نہیں۔ایک بات سمجھنی چاہیے کہ مذاکرات کے لئے دبائو صرف حکومت پرہی نہیں بلکہ تحریک طالبان پاکستان کے اندر بھی ایک مضبوط لابی مذاکرات کے لئے دبائو ڈال رہی ہے۔مفتی ولی الرحمن محسود کے گروپ کے علاوہ افغان طالبان سے متاثر بعض مقامی جنگجو بھی پاکستانی فوج کے بجائے اپنا ہدف افغانستان کو بنانا چاہتے ہیں۔ یہ دبائو ٹی ٹی پی کو نہ چاہتے ہوئے بھی مذاکرات کی میز پر لے آئیں گے، مگر اس حوالے سے حکومت کوتدبر کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ٭ ممتاز دیوبندی مدارس کے شیوخ اور علماء کی جانب سے طالبان اور حکومت کے نام جنگ بندی کی جو اپیل شائع ہوئی ہے، اس پر میرے سمیت بہت سے لوگوں کے تحفظات ہیںکہ انہوں نے پاکستانی ریاست اور طالبان کو ایک ہی کیٹیگری میں کھڑا کر دیا ہے۔ ان حالات میں علماء کی جانب سے یہ مداخلت بھی غنیمت ہے۔ ان میں ایسے ممتاز لوگ شامل ہیں ، جن کی دیانت ، تقویٰ اور خلوص پر شبہ نہیںہوسکتا۔علماء کی مداخلت نے ڈیڈلاک کو ختم کرنے کا موقعہ فراہم کیا۔فوری طور پر حکومت کو باضابطہ طور پر سیز فائر کا اعلان کرتے ہوئے مذاکراتی کمیٹی تشکیل دینی چاہیے۔ پاکستانی طالبان پر واضح کر دینا چاہیے کہ ڈرون حملوں کی ذمہ داری ہم پر عائد نہیں ہوتی ،اس لئے ڈرون حملوں کو سیز فائر کی خلاف ورزی نہ گردانا جائے۔ ان علما میں سے چند ایک کو مذاکراتی کمیٹی میں شامل کیا جائے۔اخباری اطلاعات کے مطابق جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے بزرگ استاد شیخ الحدیث ڈاکٹر شیر علی شاہ نے ثالث بننے پر رضامندی ظاہر کی ہے ۔ ڈاکٹر شیر علی ملا عمر سمیت کئی اہم طالبان کمانڈروں کے استاد رہے ہیں اور ان کا طالبان حلقوں میں ایک بڑے کے طور پر احترام کیا جاتا ہے۔ علما کو شامل کرنے سے اتمام حجت بھی ہوجائے گا اور طالبان کے حامی حلقوں کے شکوک بھی دور ہوںگے۔ مذاکرات ممکن ہے مطلوبہ نتائج نہ دے سکیں ،مگر اے پی سی سے حاصل کردہ مینڈیٹ کا تقاضا ہے کہ اس حوالے سے بامقصد عملی کوشش کی جائے۔ آپریشن تو کسی بھی وقت ہوسکتا ہے ۔ میدان دور ہے نہ گھوڑا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں