تخلیقی بنجر پن

عید کے دو تین دن ایک طرح کی گوشہ نشینی میں گزرے۔ چھٹیوں میں عام طور پر میں اخبارات ، ٹی وی اور کمپیوٹر سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہوں۔ عید کی چھٹیوں میں تو خیر دو دن ویسے ہی اخبار نہیں آتا، کمپیوٹر سے بھی دوری رہی اور عید ڈے پر چھپنے والا اپنا آرٹیکل چھٹیوں کے بعد فیس بک وال پر پوسٹ کیا۔عیدوں پر انتہائی قریبی رشتے داروں سے ملنے ملانے کے علاوہ باقی وقت سونے یا کتابیں پڑھنے میں گزرتا ہے۔ اس بار جانے کیوں فیصلہ کیا کہ عید ڈے اور سکینڈ ڈے کی نشریات ٹی وی پر دیکھی جائیں۔ عرصے کے بعد گھنٹوں کے حساب سے ٹی وی پروگرام دیکھے۔ مختلف انٹرٹینمنٹ چینلز دیکھتا رہا۔ باقاعدہ قسم کی مایوسی ہوئی، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ شدید مایوسی اور افسوس ہوا۔ ہمارے بچوں نے تو خیر پی ٹی وی دیکھا ہی نہیں، نہ ہی کوئی امکان ہے کہ کبھی دیکھ پائیں گے۔ میری بیٹی ماشا ء اللہ بارہ سال کی ہوگئی، میرا خیال ہے اس نے اپنی تمام زندگی میں پی ٹی وی کی کل نشریات دس پندرہ منٹ سے زیادہ نہیں دیکھی ہوں گی۔ یہ بھی وہ وقت ہے جب چینل گھماتے ہوئے پانچ دس سکینڈ کے لئے پی ٹی وی لگا رہ گیا ہوگا۔ پی ٹی وی پر ان کے لئے کچھ بھی نہیں، کوئی ڈرامہ، کارٹون پروگرام یا بچوں کے لئے کشش رکھنے والی دلکش سکرین ہی سہی… ہمارے سرکاری چینل سے انہیں کبھی کچھ نہیں مل سکا۔میری نسل اور مجھ سے دس پندرہ سال بڑے لوگوں کے ذہنوں میں البتہ پی ٹی وی کی نہایت حسین یادیں محفوظ ہیں۔میں یہ اعتراف کرنا چاہوں گا کہ پی ٹی وی نے ہمیں بہت کچھ دیا، ہماری زندگی میں بے شمار خوشیاں اسی چینل کے باعث آئیں۔ ایسے ایسے شاندار ڈرامے اور پروگرام دیکھے، جو آج تک یاد ہیں، گزرتا وقت ان کے نقوش مٹانا تو درکنار مدھم تک نہیں کر سکا۔ حسینہ معین کے ڈرامے ان کہی، تنہائیاں اور دھوپ کنارے کو کون بھلا سکتا ہے، حسینہ آپا کے ڈرامے شہزوری اور انکل عرفی نشر مکرر میں دیکھے اور ان بلیک اینڈ وائٹ ڈراموں نے بھی سحر زدہ کر دیا۔ اسی طرح انور مقصود کے معین اختر کے ساتھ شاہکار پروگرام شو ٹائم ، یس سر نوسر، وغیرہ، جن میں بشریٰ انصاری نے ناقابل فراموش پیروڈیز پیش کیں۔ ہمارے ہاں عام طور پر جنرل ضیاء کے دور پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے فلم انڈسٹری اور آرٹ کی تباہی کا ذمہ دار ٹھیرایا جاتا ہے کہ گھٹن بہت زیادہ تھی،آزادی نہیں تھی وغیرہ وغیرہ۔ یقیناً ایسا ہی ہوگا، مگر مجھے یہ کبھی سمجھ میں نہیں آیا کہ اسی دور میں پی ٹی وی کے شاہکار ڈرامے اور پروگرام کیسے تیار ہوئے؟ جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء تخلیق کاروں کے لئے اتنا بھاگوان کیسے ثابت ہوا؟ امجد اسلام امجد کا وارث اور بعد میں ان کے دوسرے مقبول سیریلز سمندر وغیرہ۔ منوبھائی کا سونا چاندی، یونس جاوید کا اندھیرااجالا، اشفاق احمد اور بانوقدسیہ کے شاندار ڈرامے … سب اسی دور میں بنے۔ ٹیلی تھیٹرکے لانگ پلے جو کسی بھی اعلیٰ پائے کی آرٹ فلم سے کم نہیں تھے، ان میں سے بعض کو انٹرنیشنل فیسٹیولز میں ایوارڈ بھی ملے۔ ڈرامہ 86کے کلاسیک ڈرامے ’’فہمیدہ کی کہانی، استانی راحت کی زبانی‘‘کو کون بھلا سکتا ہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن کی عید نشریات بھی ہمارے لئے ایک تحفہ ہی ہوا کرتی تھی۔ ہم لوگ دو تین دنوں کا شیڈول یاد کر لیا کرتے تھے اور پھر نہایت دلچسپی سے دیکھا کرتے۔ موسیقی کے پروگرام، ہلکے پھلکے خاکے،مزاحیہ مشاعرے اور پھر رات کو فیچر فلم ۔ فیچر فلم کا بھی باقاعدہ انتظار ہوا کرتا تھا ۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ 80ء کی دہائی کے تخلیق کاروں کے ذہنوں میں نئے آئیڈیاز اور خیالات آبشار کی مانند وارد ہوتے تھے۔ پروڈیوسر حضرات بھی کمال محنت اورجمالیاتی خوبصورتی کے ساتھ اسے عملی شکل دیتے۔ان کے پاس وسائل کی کمی اور ٹیکنالوجی زیادہ جدید نہیں تھی۔ اس کی کمی وہ اپنی تخلیقی خوبصورتی اور مہارت سے پوری کرتے۔ نوے کے عشرے کے وسط تک تو یہ چلا، پھر لگتا ہے کہ وقت کے تیز رفتار طوفانی دھارے نے جیسے سب کچھ ہی بدل ڈالا۔ چینلز کی بھرمار ہوگئی، معیار گرتا گیا، ہر چیز کمرشل ہونے کے ساتھ ڈرامہ اور پروگرام بھی کمرشل ہوگیا۔ اس بار کی عید نشریات سے بات شروع ہوئی تھی، دو تین دن میں دل میں کڑھتا، اپنے آپ پر جبر کرتا مختلف چینلز کے پروگرام دیکھتا رہا۔ان کے فارمیٹ اور یکسانیت دیکھ کر حیرت ہوتی رہی۔ یوں لگتاکہ ہمارے پروڈیوسر اور سکرپٹ رائٹر حضرات شدید ترین تخلیقی بنجر پن سے دوچار ہوگئے۔ کسی کے پاس کوئی نیا آئیڈیا ہے نہ دوسرے سے مختلف خیال۔ لاہور کی ایک میزبان مجھے دو تین چینلز میں بطور اینکر نظر آئیں، ان سب کا دعویٰ یہی تھا کہ پروگرام لائیو ہے۔ جانے سائنس اس قدر ترقی کر گئی یا کوئی اور کرشمہ سازی تھی کہ ایک ہی لڑکی بیک وقت تین چینلز کے پروگراموں میں مختلف لباس، ہئیر سٹائل اور میک اپ کے ساتھ براجمان تھی۔ زیادہ تر انٹرٹینمنٹ چینلز کے پروگرام کراچی میں تیار ہوتے ہیں کہ اس وقت پاکستانی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کا HUB کراچی منتقل ہوچکا ہے۔ جس زمانے میں ہم پی ٹی وی دیکھاکرتے تھے، ان دنوں بھی کراچی سٹیشن کی خاصی ڈیمانڈ تھی، وہاں کے ڈرامے اور شو زیادہ گلیمرس اور خوبصورت ہوا کرتے تھے۔ گلیمر تو خیر اب بھی تھا، بلکہ اسے ہر پروگرام میں باقاعدہ ٹھونسنے کی کوشش کی گئی تھی، مگر آئیڈیاز کی شدید کمی محسوس ہوئی۔ صاف دکھائی دے رہا تھا کہ کسی کے پاس کچھ مختلف کرنے کو نہیں۔ زیادہ تر عید شوز کے مہمان بھی مشترک تھے۔مجھے تو چند ہی لوگ ہر جگہ نظر آئے۔ کراچی کی ایک خاصی طویل قامت ماڈل(چھ فٹ سے کم قد نہیں ہوگا)ہر شو میں موجود پائی گئیں۔ لاہورکے افضل خان ریمبو اور ان کی اہلیہ صاحبہ بھی دو تین شوز میں شریک ہوئیں۔ باقی مہمان بھی ملتے جلتے ہی تھے۔ ایک جیسے زرق برق ملبوسات، مصنوعی انداز کی مسکراہٹیں، بے معنی قہقہے، اینکر صاحب یا صاحبہ کی بچگانہ باتیں…معلوم نہیں یہ لوگ اپنے ریکارڈ شدہ پروگرام خود کیوں نہیں دیکھتے؟ انہیںاندازہ نہیں ہوجاتا کہ ان میں انٹرٹینمنٹ نام کی کوئی شے موجود نہیں۔ بولڈ نیس میں البتہ یہ پروگرام روز بروز ترقی کر رہے ہیں۔ذومعنی جملے، بولڈ فقرے اور حدود کا خیال نہ رکھنے والی گفتگو عام تھی۔ مجھے یاد ہے کہ دو ماہ پہلے چھوٹی عید پر ایک پچاس سالہ خاتون پی ٹی وی کے ایک پروگرام میں بڑے ٹھسے سے فرما رہی تھیں کہ یہ موبائل مجھے میرے بوائے فرینڈ نے دیا ہے۔یا وحشت! پی ٹی وی کا بھی یہ حال ہوگیا، اینکر خاتون یہ سن کر چکرا گئیں ، جھینپ کر بولیں ، ’’آج عید کا دن ہے ناں ، اس لئے ایسی گفتگو چل سکتی ہے۔‘‘یعنی عید کے دن فضول گفتگو کی اجازت ہے۔ اس عید پر بھی ایک معروف فیملی چینل کے شو میں مہمان خواتین بڑی بے باکی سے فرماتی رہیں کہ آپ کے سابقہ اور موجود ہ بوائے فرینڈز کو عید مبارک۔ میں یہی سوچتا رہا کہ پیمرا کیا کر رہا ہے؟ کوئی نہیں ہے جو ان چینلز پر گرفت کرے اورفیملی پرائم ٹائم میں گفتگو کی حدود وقیود کا تعین کرے۔ ایک بات ابھی تک سمجھ میں نہیں آسکی کہ آجکل کے مارننگ شوز میں شادیوں کی بھرمار کیوں ہوگئی ہے؟ ہر چینل پر کسی نہ کسی کی شادی ، مایوں وغیرہ۔ یہ سب کچھ اتنا مصنوعی اور بچگانہ لگتا کہ دیکھ کر افسوس ہوتا رہا۔ پاکستانی چینلز سے تنگ آ کر میں نے بھارتی چینلز دیکھے تو حیرت ہوئی کہ وہاں پر عید نام کی کوئی چیز ہی نہیں۔ لگتا تھا کہ عید کا تہوار مریخ میں رہنے والے لوگوں کے لئے ہے۔ بھارت میں سرکاری طور پر بائیس تئیس کروڑ جبکہ آزاد ذرائع کے مطابق پچیس کروڑ مسلمان ہیں۔ بھارتی مین سٹریم چینلز سٹار پلس، کلر، زی ، سونی وغیرہ پر توان پچیس کروڑ مسلمانوں کے لئے ایک گھنٹے کا بھی پروگرام نہیں تھا۔ چند منٹ بھی نہیں رکھے گئے۔میں سوچتا رہا کہ ناظرین کی اتنی بڑی تعداد کو کس طرح نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ہندو تہواروں دیوالی، دسہرہ وغیرہ پر تو ہفتوں پہلے پروگرام اور خصوصی شوزکرائے جاتے ہیں ۔مسلمانوں کو اس بری طرح نظر انداز کیا جائے گا، اس کا مجھے اندازہ نہیں تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں