دبنگ خان

ایس پی سی آئی ڈی کراچی محمد اسلم خان‘ جنہیں چودھری اسلم کے نام سے شہرت ملی، کی موت نے مجھے افسردہ کر دیا۔ نو جنوری کی نرم نرم دھوپ لیے خوشگوار سہ پہر اپنے اندر یہ افسوسناک خبر بھی لیے ہوئے ہے‘ اس کا اندازہ کسی کو نہ تھا۔ لاہور کے دوسرے بہت سے صحافیوں کی طرح میں بھی کراچی کے اس پولیس افسر کو ذاتی طور پر نہیں جانتا۔ ان کی تصاویر دیکھیں، ٹی وی پر ایک آدھ بار بولتے سنا‘ مگر ان کے کام سے بہرحال واقفیت تھی۔ شدت پسندی اور عسکریت پسندی جیسے معاملات کے ایک طالب علم کی حیثیت سے ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والی کارروائیوں کو بغور دیکھتا اور مانیٹر کرتا رہا، اس لیے چودھری اسلم کی اہمیت کا اندازہ تھا۔ یہ معلوم تھا کہ کراچی میں کالعدم فرقہ ورانہ تنظیموں، شدت پسند مسلح گروہوں اور لیاری گینگ وار کو اس ایک شخص نے جس قدر نقصان پہنچایا، اس کا اندازہ بہت سے لوگوں کو نہیں ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ کراچی میں ریاستی اداروں اور پولیس کا ایک بہت مضبوط مورچہ تباہ ہو گیا، فصیل کا ایک برج گر گیا، ایسا نقصان جس کی تلافی شاید جلد نہ ہو پائے۔
اسلم خان کی شخصیت مختلف تنازعات کا محور بنی رہی۔ نام سے بظاہر یہی لگتا ہے کہ پنجابی ہیں اور اسلم کے ساتھ چودھری کا سابقہ لگا ہوا ہے، لیکن تھا اس کے برعکس۔ ان کا تعلق خیبر پختون خوا کے علاقہ مانسہرہ سے تھا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق وہ ڈھوڈھیال کے گائوں ٹانڈے میں پیدا ہوئے اور تعلق ہزارہ کی تنولی برادری سے تھا۔ 1970ء میں ان کے وکیل والد کراچی منتقل ہوئے، بچپن کراچی ہی میں گزرا، اپنے دوستوں میں بلو کے نام سے مشہور تھے۔ 1984ء میں وہ سندھ پولیس میں بطور اے ایس آئی بھرتی ہوئے۔ اگلے تیس برس ان کے پولیس فورس ہی میں گزرے اور یہی ان کی وجہ شہرت بھی بنی۔ وہ اے ایس آئی سے ایس پی کے عہدے تک پہنچے مگر ان کا 
اثرورسوخ کسی بڑے سے بڑے سی ایس پی افسر سے کم نہ تھا۔ اسلم خان کو بے باکی، بے خوفی اور جرأت مندانہ منفرد سٹائل ہی کی وجہ سے دوست چودھری کہہ کر پکارتے تھے کہ چودھری کسی کی نہیں مانتا، اپنے سٹائل سے کام کرتا ہے۔ یہی چودھری بعد میں ان کے نام کا حصہ بن گیا۔ چودھری اسلم نے نوے کے عشرے میں ہونے والے دونوں پولیس آپریشن میں حصہ لیا۔ کراچی کی سب سے اہم سیاسی جماعت ایم کیو ایم دونوں آپریشنوں کو اپنے خلاف گردانتی ہے۔ پہلے آپریشن کے نگران جنرل نصیراللہ بابر تھے۔ اس وقت چودھری اسلم گلبہار تھانے کے ایس ایچ او تھے۔ دوسرے آپریشن کے انچارج ڈاکٹر شعیب سڈل تھے۔ ان کی سربراہی میں چودھری اسلم نے انسپکٹر بہادر علی اور دوسرے افسروں کے ساتھ ٹیم کی صورت میں جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف کارروائیاں کرکے غیرمعمولی کامیابیاں حاصل کیں۔ عجب اتفاق ہے کہ چودھری اسلم وہ واحد نمایاں پولیس افسر تھے جو مذکورہ دو آپریشنوں میں حصہ لینے کے باوجود کل تک زندہ تھے۔ باقی تمام پولیس افسر پہلے ہی ایک ایک کر کے مار دیے گئے تھے۔ بہادر علی سمیت بیشتر افسر پرویز مشرف کے دور میں نشانہ بنائے گئے۔ اسے چودھری اسلم کا شخصی کرشمہ سمجھیں یا ان کی غیرمعمولی صلاحیتوں کا اعتراف کہ جو جماعت ان پر الزام لگاتی رہی کہ انہوں نے ان کے کارکنوں کو ماورائے عدالت مارا، وہ بھی حکومت میں آ کر انہیں ذمہ داریاں سونپنے پر مجبور ہو گئی۔ لیاری گینگ وار کے خلاف کارروائی کے لیے اسلم خان ہی کو ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ انہیں کامیابیاں ملیں، لیاری گینگسٹروں کو سب سے زیادہ نقصان انہی 
نے پہنچایا۔ کہا جاتا ہے کہ اگر انہیں گزشتہ دور میں فری ہینڈ دیا جاتا تو وہ بڑی حد تک لیاری کے جرائم پیشہ گروپوں کا خاتمہ کر دیتے۔ لیاری میں دہشت کی علامت عبدالرحمٰن ڈکیت چودھری اسلم کے ہاتھوں ہی مارا گیا۔ لیاری کے مختلف گینگ چودھری اسلم سے اس قدر نالاں تھے کہ بدنام گینگسٹر بابا لاڈلا نے ان کے سر کی قیمت پچاس لاکھ روپے مقرر کر رکھی تھی۔ اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز ان کے شہید ہونے کی خبر سن کر لیاری کے جرائم پیشہ گروہوں میں باقاعدہ جشن منایا گیا۔
چودھری اسلم کو حالیہ برسوں میں طالبان گروپوں کے خلاف کارروائیوں سے شہرت ملی تھی۔ ٹی ٹی پی کے سوات گروپ، مہمند گروپ اور محسود کمانڈروں کے خلاف انہوں نے کئی آپریشن کئے اور بہت سے اہم کمانڈروں کو گرفتار اور ہلاک کیا۔ ٹی ٹی پی ان پر الزام لگاتی ہے کہ وہ ان کے کمانڈروں کو گرفتار کرکے ماورائے عدالت قتل کرتے رہے۔ ان کے مخالفین کا الزام ہے کہ انہوں نے کم و بیش پچاس ملزموں کو جعلی پولیس مقابلوں میں ہلاک کیا، یہ اور بات کہ اس قسم کے الزامات کبھی ثابت نہ ہو سکے۔ ان کی شہادت پر برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلی گراف نے ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ اخبار کے رپورٹر کے مطابق اسلم خان کا کہنا تھا کہ پولیس کا کام عام طور پر لوگوں کو گرفتار کرنا اور عدالت کے روبرو پیش کرنا ہوتا ہے لیکن یہاں ہم ایک جنگ لڑ رہے ہیں۔ کیا مجھ سے یہ توقع کی جائے گی کہ وہ میرے شہر میں بم دھماکے کریں اور میں ان سے نرمی سے بات کروں، وہ بم پھینکیں گے تو کیا میں پھول پھینکوں؟‘‘ ٹی ٹی پی کی مرکزی اور مقامی قیادت ان سے اس قدر تنگ تھی کہ طالبان ترجمان نے ان پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے ساتھیوںکو مبارکباد دی اور خوشی کا اظہار کیا کہ ہم چودھری اسلم کو مارنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ فیس بک پر گزشتہ شب بعض لوگوں نے چودھری اسلم کے خلاف یہ ریمارکس پوسٹ کئے کہ وہ ماورائے عدالت کلنگ کرتے رہے اس لیے انہیں اس کا منطقی نتیجہ بھگتنا پڑا۔ ایسے ایک فورم پر میں نے جوابی کمنٹ کیا: ''اگر چودھری اسلم پر یہ الزام نہ ہوتے تو کیا ٹی ٹی پی انہیں چھوڑ دیتی؟ انہیں اس لیے مارا گیا کہ وہ طالبان گروپوں کے راستے کی دیوار بن چکے تھے، بے خوف تھے، قاتلانہ حملوں کے باوجود پسپا نہ ہوئے بلکہ کھل کر سامنے آ گئے۔ ایسے پولیس افسر شدت پسند گروپوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہوتے ہیں اس لیے انہیں نشانہ بنایا گیا‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ پشاور کے نیک نام پولیس افسر ڈی آئی جی سعد سے خیبر پختون خوا کے لیجنڈری افسر صفوت غیور تک سب کو اپنی فرض شناسی اور ریاست کے ساتھ وفاداری کی قیمت ادا کرنی پڑی۔ 
چودھری اسلم تو نہیں رہے مگر انہیں جس طرح نشانہ بنایا گیا، اس سے کئی سوالات پیدا ہوئے ہیں۔ ان پر کئی قاتلانہ حملے ہو چکے تھے، وہ لیاری گینگ، طالبان گروپوں اور دوسرے مافیاز کی ہٹ لسٹ پر تھے۔ ان کے روزانہ کے روٹ بھی مختلف ہوتے تھے، اپنی نقل و حرکت بھی خفیہ رکھتے، زیادہ لوگ اس سے بے خبر ہوتے۔ اس لحاظ سے یہ حیرت انگیز ہے کہ انہیں فول پروف منصوبہ بندی کر کے نشانہ بنا یا گیا۔ دہشت گردوں کو کیسے پتہ چلا کہ وہ اس وقت اس روٹ سے آ رہے ہیں؟ اخباری اطلاعات کے مطابق چودھری اسلم کے استعمال میں ایک بم پروف گاڑی رہتی تھی جو چند دنوں سے مرمت کے لیے ورکشاپ میں تھی۔ دہشت گردوں کو یہ خبر کس نے دی؟ دنیا کراچی کی ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق تفتیش کار ابہام کا شکار ہیں، ایک شبہ یہ ہے کہ دھماکا گاڑی کے اندر سے ہوا۔ اگر یہ بات درست ثابت ہوئی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ان کے کسی قریبی ساتھی نے غداری کی۔ سٹرک کنارے بم نصب ہونے کا امکان بھی ظاہر کیا گیا ہے مگر موٹر وے پولیس اسے رد کرتی ہے۔ ماریا پوزو کا شاہکار ناول گاڈ فادر مجھے پسند رہا ہے۔ اس کا ایک کبھی نہ بھولنے والا باب ڈان ویٹو کارلیون کے بیٹے سونی کے قتل کا ہے۔ سونی کو تنظیم کے اندر سے غداری اور اپنے انتہائی قریبی حلقے سے مخبری کے نتیجے میں گھات لگا کر مارا گیا۔ چودھری اسلم کی ہلاکت کی خبر سے وہی منظر تازہ ہو گیا۔ تفتیش کاروں سے توقع کرنی چاہیے کہ وہ تمام خطوط کو مدنظر رکھیں گے۔ بہتر ہو گا کہ پولیس کے علاوہ عسکری ادارے بھی اس سانحے کی تفتیش کریں تاکہ حقیقت سامنے آئے۔ 
چودھری اسلم نے کم ہی یونیفارم پہننے کا تکلف کیا تھا، برسوں سے سفید کرتا شلوار پہنتے، کلاشن کوف ساتھ رکھے متحرک رہتے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سفید لباس ہی میرا کفن ہے۔ کہتے کہ میں نے کبھی بلٹ پروف جیکٹ نہیں پہنی، یہ میری زندگی تو بچا سکتی ہے مگر یہ میرا سٹائل نہیں۔ چودھری اسلم اپنے انداز سے جئے اور اپنے انداز ہی سے دنیا سے گئے۔۔۔اس شمشیر زن کی طرح، آخری سانس لیتے جو شمشیر بکف رہا! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں