سمارٹ پلے

پاکستانی طالبان سے مذاکرات کرنے چاہئیں یا ان کے خلاف بھرپور آپریشن ہوناچاہیے... یہ ایسا سوال ہے جس پر ابھی تک ہمارے ہاں فکری تقسیم پائی جاتی ہے۔ کسی بھی فورم پر آپ بات کر لیں، دو چار آوازیں کسی ایک آپشن کے حق میں اٹھیں گی، تو دو تین لوگ دوسری طرف کی بات کریں گے۔ کنفیوژن کی یہ فضا ہی وہ فیصلہ کن فیکٹر ہے، جس کا فائدہ ہمیشہ مسلح گروہوں کو ملتا ہے۔عسکریت پسندوں یا کسی بھی شدت پسند تحریک کے خلاف کارروائی سے پہلے قومی اتفاق رائے اور یکسوئی بہت ضروری ہوتی ہے۔ الیکشن کے بعد میاں نواز شریف سے ایک بڑا حلقہ یہ توقع کر رہا تھا کہ وہ ایک نئے ویژن اور یکسو سوچ کے ساتھ دہشت گردی کے گمبھیر مسئلے کو سلجھائیں گے۔ مذاکرات یا آپریشن ، ان دونوں میں سے کسی آپشن پر جانا پڑا، وہ اسے پوری دلجمعی اور قوت کے ساتھ نمٹانے کی کوشش کریں گے۔ میاں صاحب نے اپنے مداحین کو بری طرح مایوس کیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو کے بعض بیانات ان کی ناپختہ سوچ اور جذباتیت کو ظاہر کرتے ہیں۔وہ ابھی نوجوان اور ناتجربہ کار ہیں،ان کے چاہنے والے انہیں عمر کی رعایت دیتے ہیں، یہ بات درست بھی ہے، مگر ٹوئٹر پربلاول کے تند وتیز تبصرے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ انہیں سنجیدہ مشاورت حاصل نہیں یا پھر وہ اپنے مشیروں کی بات کو درخوراعتنا نہیں سمجھتے۔ یہ بات مگر بلاول نے درست کہی کہ حکومت نے اے پی سی کی صورت میں حاصل ہونے والا قومی اتفاق رائے ضائع کر دیا۔ اپنے مخالف سیاستدانوں کو بزدلی کا طعنہ دینا البتہ بلاول کو زیب نہیں دیتا۔ جو شخص خود ہزار حصاروں میں مقید ہو، خوف کے مارے عوامی اجتماعات میں جائے نہ ہی کارکنوں سے مل پائے... اسے یہ بات کہنے کا کوئی حق نہیں۔ 
یہ حقیقت ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس کے بعد کے مہینوں میں حکومت نے ڈھلمل رویہ اپنایا، غیر ضروری تساہل سے کام لیا اور مذاکرات کے لئے بروقت اور ٹھوس پیش رفت نہیں کی۔حکومت کے پاس اس حوالے سے دو تین آپشنز تھیں۔ ممتاز دیوبندی علما اور مدارس کے شیوخ کی ایک کمیٹی بنائی جاتی ، ان میں جامعہ بنوریہ ، جامعہ حقانیہ وغیرہ کے شیخ الحدیث ، شیخ القرآن صاحبان جیسے محترم مفتی رفیع عثمانی، ڈاکٹر علی شیر وغیرہ کو شامل کرتے اور انہیں مذاکرات کے عمل کا ثالث بناتے ۔ یہ ایسے لوگ ہیں، جن کی کریڈیبلیٹی ہر جگہ موجود ہے، پاکستانی طالبان میں سے بہت سے ان کے شاگرد ہیں یا پھر ان کا احترام کرتے ہیں، کم ازکم پاکستانی طالبان کی فکری حمایت کرنے والے حلقے میں ان جید علماء کی مثالی ساکھ موجود ہے۔ اگر یہ مذاکرات کے عمل میں شامل ہوتے یا باہر رہ کر بھی نگرانی فرماتے تو طالبان گروپوں کے لئے بیک آئوٹ کرنا ممکن نہیں تھا۔دوسری آپشن دینی سیاسی جماعتوں کے قائدین کو بروئے کار لانے کی تھی۔ سید منور حسن، مولانا فضل الرحمن اور مولانا سمیع الحق پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دینی چاہیے تھی۔ یہ تین رکنی اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی میڈیا سے دور رہ کر مختلف طریقوں کے ساتھ ٹی ٹی پی اور اس کے ذیلی گروپوں سے بات کرتی۔ اگر مذاکرات کامیاب ہوجاتے تو اس سے اچھی بات ہی کوئی نہیںتھی۔ اگر ٹی ٹی پی کی جانب سے وعدہ خلافی کی جاتی، مرکزی قیادت یا کچھ گروپ اختلاف کر کے جنگ کی طرف جاتے تو پھر ایسی صورت میں مجبوراً آپریشن کرنا پڑتا،مگر تب دینی حلقے فوج اور حکومت کے ساتھ کھڑے ہوتے۔
بدقسمتی سے حکومت نے بروقت کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ پہلے علماء کی آپشن ختم ہوئی، پھر سمیع الحق صاحب کو یہ ٹاسک دیا گیا۔ اس حوالے سے اگرچہ اب حکومتی حلقے متضاد باتیں کر رہے ہیں، مگر چند ہفتے پہلے تک جب مولانا سمیع الحق میڈیا پر آ کر یہ کہہ رہے تھے کہ مجھے مذاکرات کے لئے ذمہ داری سونپی گئی تو اس وقت کسی بھی حکومت وزیر یا رہنما نے ان کی تردید نہیں کی۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے مولانا سمیع الحق سمیت بیشتر دینی حلقوں کو شرمندہ ہی کرایا۔ مذاکرات کے حامی حلقوں میں یہ خاکسار بھی شامل رہا۔ انہی کالموں میں بارہا یہ لکھا گیا کہ مذاکرات ایک سٹرکچرڈ ڈپلومیسی کا حصہ ہیں، اس سے دو بڑے فائدے حاصل ہوتے ہیں ۔ایک تو امن کوآخری موقعہ دیا جاتا ہے، جو مسلح گروپ تھک چکے ہیں یاوہ مرکزی دھارے کا حصہ بننا چاہتے ہیں، انہیں محفوظ اور باعزت راستہ مل جاتا ہے ۔ دوسرا یہ کہ مذاکرات اگر شدت پسندوں کی ہٹ دھرمی کے باعث ناکام ہوئے تو پھر قومی اتفاق رائے قائم ہو جاتا ہے۔ یہ اور بات کہ صرف وہی حکومتیں ایسا کرنے میں کامیاب رہتی ہیں ،جن کے پاس ویژن ، دانش اور فیصلہ کرنے کی اہلیت ہو۔ 
جہاں تک پاکستانی طالبان کا تعلق ہے ، یہ ماننا پڑے گا کہ انہوں نے ابھی تک بڑے سمارٹ کھیل کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے اپنے پتے اچھی طرح کھیلے ہیں۔ پاکستانی طالبان کی سب سے بڑی قوت یہ تاثر ہے کہ پاکستانی فوج امریکہ کے زیرا ثر ہے اور اس کی تمام تر پالیسیاں امریکی دبائو کے پیش نظر بنائی جاتی ہیں،آپریشن بھی امریکی دبائو پر کیا جارہا ہے۔ان کے اس تاثر کو ہمارے روایتی دینی حلقے اور میڈیا میں بعض لکھنے والے بھی سپورٹ کرتے ہیں۔ خیبر پختون خوا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں ، سابق فوجی افسروں اور سفارت کاروں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں وہاں رہنا ہے ،وہ ٹی ٹی پی کے خلاف اعلانیہ نہیں جاسکتے۔ وہ ڈھلمل موقف اپناتے ہیں یا روایتی فقرے کو دہراتے ہیں کہ یہ سب امریکہ کے کہنے پر ہو رہا ہے۔یوں ٹی ٹی پی کے بیانیہ کو مزید تقویت ملتی ہے۔ ٹی ٹی پی کے بعض طاقتور گروپ شروع ہی سے مذاکرات کے حامی نہیں۔ انہوں نے ایسی کارروائیاں کیں، جن سے فوج مشتعل ہو اور امن مذاکرات کا راستہ بند ہوجائے۔ جب مذاکرات کی بات ہو رہی تھی، اس وقت اپردیر میں میجر جنرل کو نشانہ بنانے کی کیا ضرورت تھی؟ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد ٹی ٹی پی کے نسبتاً زیادہ سخت چہرے کو سامنے لانا مذاکرات مخالف گروپوں کی کامیابی ہی تھی۔ پچھلے دو ہفتوں کے دوران کئی ایسی بڑی کارروائیاں ہوئیں، جن کا کوئی جواز نہیں تھا۔ پہلے مسجد میں نماز پڑھتے فوجیوں پر حملہ، پھر کراچی میں چودھری اسلم کا قتل ، سب سے بڑھ کر بنوں میںایف سی پر حملہ۔ ٹی ٹی پی کے اندر کے سخت اور بے لچک گروپ مذاکرات کے عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتے تھے، اس لئے سوچ سمجھ کر یہ حملے کئے گئے،مگرطالبان گروپوں کی یہ کوشش ہے کہ اس کی ذمہ داری حکومت پر ڈالی جائے ، تاکہ وہ بعد میں مظلومیت کا تاثر دے سکیں۔ ان کی جانب سے مذاکرات کی تازہ پیش کش بھی اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ ورنہ یہ تو کامن سینس کی بات ہے کہ مذاکرات کا حامی کوئی بھی فریق سب سے پہلے سیز فائر کرتا ہیے۔ ٹی ٹی پی کے تھنک ٹینک اس پہلے فیز میں بڑا سمارٹ کھیلے ہیں، انہوں نے حکومت کو ناک آئوٹ کر دیا ہے۔پاکستانی طالبان کی چالوں کا توڑ کرنے کے لئے جس فہم ودانش اور مستعدی کی ضرورت ہے، موجودہ حکومت میں تو اس کا شدید فقدان نظر آ رہا ہے ۔ اللہ ہم پر رحم کرے اور اس پیچیدہ صورتحال کا کوئی بہتر حل نکال دے۔ 
پس تحریر: یہ کالم لکھا جا چکا تھا کہ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں طالبان کو ایک بار پھر مذاکرات کی دعوت دی ہے، اس بار ایک چار رکنی کمیٹی کا اعلان بھی ہوا ۔اس کے ارکان کا انتخاب البتہ دلچسپ ہے۔کہانی میںایک نیا موڑ آیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے یا انہیں دہرائیں گے؟ یہ بات بہرحال ہر فریق کو یاد رکھنی چاہیے کہ امن کو موقعہ دینا ہی بہترین حکمت عملی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں