آخری اوورز

گزشتہ روز ایک ٹی وی پروگرام میں شریک تھا ، دوسرے موضوعات کے ساتھ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے بھی گفتگو جاری تھی۔ لائیو کالز شروع ہوئیں تو سب کا یہی کہنا تھا کہ پاکستانی طالبان کے خلاف آپریشن میں اتنی تاخیر کیوں کی جا رہی ہے، ان کی وجہ سے ہزاروں جانیں گئیں اور ملک کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا، اب ان کا صفایا ہوجانا چاہیے۔ اس پروگرام میں بھی کچھ بات کی،مگر یہ اتنا اہم معاملہ ہے کہ اس پر تفصیل سے بات ہونی چاہیے۔ یہ حقیقت ہے کہ عام آدمی اس خون خرابے سے تنگ آچکا ہے، مسلسل خوف اور تنائو کی کیفیت سے بیزار ہے اور چاہتا ہے کہ جلد کوئی حل نکلے۔ دس سال سے زائد عرصے پر پھیلے اس ایشو کو فوری طور پر نمٹانا مگر ممکن نہیں۔
دراصل پاکستانی طالبان سے وابستہ معاملات اتنے پیچیدہ اور الجھے ہوئے ہیں کہ ان کا ادراک کرنا آسان نہیں۔تصوف کے حوالے سے ایک معروف قول ہے کہ'' روحانیت دو انکار کے درمیان کی چیز ہے، جو صاحب روحانیت ہیں، وہ کبھی اس کا اعتراف نہیں کرتے،جن کے پاس کچھ نہیں، وہ اس کے دعوے دار ہیں۔ ‘‘بدقسمتی سے طالبان سے متعلقہ عسکریت پسندی کا معاملہ بھی وہی ہوچکا ہے۔ جن کو اس معاملے کی پیچیدگیوں کا ادراک ہے، وہ کھل کر بیان نہیں کرتے کہ کچھ کے مفادات کو زک پہنچتی ہے تو بعض لوگ پرو طالبان حلقوں کی مخالفت کے خوف سے خاموش رہتے ہیں۔ جن کو اس معاملے کا زیادہ گہرائی سے علم نہیں، وہ بڑھ چڑھ کر دعوے کرتے اور بیانات داغ ڈالتے ہیں۔مثلاً بہت سے لوگ یہ بات کہتے ہیںکہ آخر شمالی وزیرستان میں آپریشن کیوں نہیں ہو رہا؟ پچھلے دنوں جنرل کیانی سے منسوب ایک بیان کا غلغلہ رہا کہ آپریشن سے چالیس فیصد تک کامیابی ہوگی، بعد میں اس کی تردیدیں آئیں ، آخر کار جنرل صاحب کو خود ایک وضاحتی بیان جاری کرنا پڑا۔ جنرل کیانی کے بیان کو غلط تناظر میں لیا گیا، یہ مگر حقیقت ہے کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کرنا پاکستانی طالبان کے خلاف مربوط اور فیصلہ کن کارروائی کا صرف چالیس پچاس فیصدحصہ ہی ہوگا۔مجھے ذاتی طور پر اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری فوج شمالی وزیرستان کلیئر کرانے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ اس سے مگر مسئلہ حل نہیں ہوگا کیونکہ ملا فضل اللہ گروپ اور عمر خالد خراسانی کا مہمند گروپ افغان سرحدی صوبوں نورستان اور کنٹر میں اپنا گہرا اثرورسوخ رکھتے ہیں، وہ وہاں پر مقیم رہے ہیں، اب بھی ان کے لڑکے بھاگ کر وہاں چلے جائیں گے۔ یوں جنگجوئوں کی پندرہ سے بیس فیصد قوت وہاں مجتمع ہو جائے گی، جو بعد میں تنگ کرتی رہے گی۔
پاکستانی طالبان کی تیس سے چالیس فیصد قوت سیٹلڈ علاقوں میں موجودہے۔ پشاور اور خیبر پختون خوا کے کئی اہم شہروںمیںتو ان کا گہرا اثرونفوذ ہے ہی، پنڈی، لاہور، فیصل آباد اور جنوبی پنجاب کے کئی شہروں اور قصبات میں ان کا نیٹ ورک پوری طرح موجود ہے، کراچی میں بھی ان کے سلیپر سیل موجود ہیں۔ یہ گروپس ہی سب سے بڑا خطرہ ہیں۔چند دن پہلے فوجی ذرائع کی جانب سے ایڈیٹروں کو غیر رسمی بریفنگ دی گئی، جس کی تفصیلات اخبارات میں شائع ہوچکی ہیں۔ اس میں بتایا گیا کہ شمالی وزیرستان تو کلیئر ہوجائے گا، مگر کچھ گروپ شہروں میں پھیل جائیں گے، جن پر قابو پانا سول اداروں کا کام ہے۔ اصل سوال یہی ہے کہ کیا ہمارے سول ادارے اس قابل ہوچکے ہیں؟پچھلے چھ سات ماہ میں ہمیں سنہرا موقعہ ملا تھا کہ اپنے سول سیٹ اپ اور پولیس و انٹیلی جنس بیورو کو وسیع پیمانے پر منظم کر سکیں۔ ہم نے اب تک کیا کیا؟جواب خوفناک خاموشی میں ملتا ہے۔ ہم نے دہشت گردوں کے مقابلے کے لئے ریپڈ ایکشن فورس بنانے کا اعلان اور فیصلہ کیا تھا، وہ فورس کہا ں ہے؟ ہم نے اعلان کیا تھا کہ انٹیلی جنس نظام کو بہتر بنانے کے لئے ایک مشترکہ انٹیلی جنس سیکرٹریٹ بنایا جائے گا۔ اگر کسی کو اس سیکریٹریٹ کا علم ہو تو براہ ِکرم مجھے بھی خبر کر دے۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی موجودہ نفری، ان کے وسائل اور آلات اس قابل نہیں کہ عسکریت پسندوں کے کسی بڑے پیمانے پرردعمل کا مقابلہ کر سکیں۔یہ کام کس نے کرنا تھا؟ کسی کو شک ہے تو لاہور یا دوسرے شہروں کے پولیس افسروں سے نجی طور پر بات کر کے دیکھ لے۔ جنہیں یہ خطرہ دامن گیر ہے کہ اپنے دفاتر کا تحفظ کس طرح کیا جائے ، عوام کو بچانا تو دور کی بات ہے۔عسکریت پسندوں کی سوچ ہمیشہ واضح ہوتی ہے، ابہام کا شکارحکومت اور سول ادارے ہیں۔ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ جس طرح ہنگامی اقدامات کر کے پانچ سو ارب روپے سے سرکلر ڈیٹ ختم کیا گیا، اسی طرح ڈیڑھ دو سو ارب روپے پولیس اور انٹیلی جنس نیٹ ورک کو بہتر بنانے پر لگا دیتے، چاہے نئے نوٹ ہی کیوں نہ چھاپنے پڑ جاتے۔ الللوں تللوں پر خرچ ہو رہے ہیں تو ملک اور عوام کے تحفظ کے لئے کیوں ایسا نہیں کیا جاسکتا؟
ان سطور کے لکھے جانے تک قومی سلامتی پالیسی کے حوالے سے حکومتی بیان جاری نہیں ہوا۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میںمنگل کے روز یہ فیصلہ کیا گیاکہ پاکستانی طالبان غیرمشروط جنگ بندی کریں،جبکہ ٹارگٹڈ آپریشن اور مذاکرات بیک وقت جاری رکھنے کا فیصلہ ہوا، جو گروپ مذاکرات کے خواہاں ہیں، ان سے مذاکرات جبکہ جو لڑنا چاہتے ہیں، ان کے خلاف فوجی کارروائی ہوگی۔ اس کامطلب یہ ہے کہ ابھی پہلے مرحلے پر سرجیکل سٹرائیکس ہوں گی، فضائیہ کو استعمال کرتے ہوئے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جائے گا، یہ بھی اطلاعات مل رہی ہیں کہ ان کارروائیوں میں پاکستان ساختہ ڈرون بھی استعمال کئے جا رہے ہیں، جن کی مدد سے موثر کارروائیاں کرنا ممکن ہو رہاہے۔ یہ خوش آئند ہے کہ مذاکرات کی آپشن ختم نہیں کی جا رہی۔ مہمند گروپ کی جانب سے ایف سی جوانوں کی شہادت کا واقعہ ایک نپی تلی چال تھی، جس کا مقصد یہی تھا کہ حکومت مذاکرات ختم کر کے ٹی ٹی پی کے ساتھ آل آئوٹ وار پر چلی جائے۔ حکومت نے دانشمندی کا مظاہرہ کیا اور دہشت گرد ی کرنے والے گروپوں کے خلاف کارروائی کے ساتھ مذاکرات کی آپشن باقی رکھی۔ عمران خان نے درست موقف اختیار کیا کہ مہمند گروپ کے خلاف کارروائی کی جائے جبکہ ٹی ٹی پی کی مین قیادت سے دوبارہ مذاکرات شروع کئے جائیں۔ہمارے خیال میں حکومت کو واضح طور پراعلان کرنا چاہیے کہ تحریک طالبان پاکستان عمر خالد خراسانی کے مہمند گروپ کو اپنے سے الگ کریں ،تاکہ دوسرے گروپوں سے مذاکرات کئے جا سکیں۔ حکومت نے مذاکرات کا فیصلہ اس لئے کیا تھا کہ ٹی ٹی پی سے منسلک جو گروپ امن کی طرف آنا چاہتے ہیں، انہیں واپسی کا راستہ دیا جائے۔ یہ مثبت سوچ اور درست حکمت عملی تھی۔ اس کے اچھے اثرات برآمد بھی ہوئے۔ پنجابی طالبان کے عصمت اللہ معاویہ وغیرہ نے خاصی لچک دکھائی اور امن مذاکرات کا خیر مقدم کیا۔ اسی طرح محسود قبائل کے سید سجنا گروپ کی جانب سے بھی نرم رویہ اپنانے کی خبریں آ رہی ہیں۔ اگرحکومت کی جانب سے دانشمندی سے کام لیا گیا تو ٹی ٹی پی کے اعتدال پسند دھڑوں کو شدت پسندوں سے الگ کیا جاسکتا ہے۔دہشت گردی کرنے والے گروپوں کو پوری قوت سے جواب دیا جائے ،تاہم اگر بلا امتیازسب کو نشانہ بنایا گیا تو مذاکرات کی بساط بچھانے کا اصل مقصد فوت ہوجائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ جتنا بھی وقت میسر ہے، اس میں سویلین سیٹ اپ کو مستحکم کیا جائے۔ پولیس کے سسٹم کو مضبوط بنائے بغیر گلی محلے سے دہشت گردوں کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ نئی فورس کھڑی کرنے سے زیادہ اہم کام پہلے سے موجود سسٹم کو بہتر بنانا ، اس کا مورال بلند کرنا اور طاقت مہیا کرنا ہے۔ وقت بہت کم ہے۔ آخری اوورز کا کھیل جاری ہے، کوئی بھی غلطی بھاری نقصان پہنچا سکتی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں