افغانستان کا پُر پیچ منظرنامہ

گزشتہ دوتین برسوں میں مجھے تین چار بار افغانستان جانے کا موقع ملا، اپنے طور پر یہی کوشش کی کہ تعصبات سے اوپر اٹھ کرمعروضی حالات سمجھے جائیں۔ افغانستان ایک پیچیدہ ملک ہے، جسے سمجھنا آسان نہیں۔ممکن ہے نائن الیون سے پہلے کی صورتحال مختلف ہو ،مگرنوے کے عشرے کے اواخر میں طالبان حکومت اور پھر نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکہ اور نیٹو افواج کے بارہ تیرہ برس مقیم رہنے سے معروضی حالات بہت حد تک بدل چکے ہیں۔ جن لوگوں نے طالبان کے دور کا افغانستان دیکھا ، وہ آج کے افغانستان کو اپنے ماضی کے تجربے کی بنیاد پر نہیں سمجھ سکتے۔ انہیں وہاں جا کر نئے معروضی حالات اور بدلے ہوئے موڈ کو ضرور دیکھنا چاہیے،اسی طرح صرف کابل میں جا کر رہنے والوں کو دیہی افغانستان ، خاص کر مغربی اور جنوبی افغانستان کی پشتون بیلٹ کا دورہ ضرور کرنا چاہیے۔
ہمارے ہاں بعض سینئر تجزیہ نگار بھی‘ ابھی تک شمالی افغانستان کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ اطلاعاً عرض ہے کہ یہ اصطلاح کئی سال پہلے دم توڑ چکی ہے، زمینی حالات اب یکسر بدل چکے ہیں اور سابق شمالی اتحاد کے مختلف دھڑوں کے درمیان اقتدار کی کشمکش ہے۔ شمالی اتحاد کی اصطلاح 1997-98 ء سے لے کر نائن الیون تک چلتی رہی ، اس وقت طالبان افغانستان کے پچانوے فیصد علاقے پرحکمران تھے، صرف پانچ سات فیصد شمالی افغانستان کا علاقہ ان کے قبضے سے باہر تھا، جہاں ازبک کمانڈر رشید دوستم، ہزارہ لیڈر کریم خلیلی اور استاد محقق اور تاجکوں کے اساطیری گوریلا کمانڈر احمد شاہ مسعود وغیرہ کے گروپوں پر مشتمل ایک ڈھیلا ڈھالا اتحاد اپنے بقا کی جنگ لڑ رہا تھا، شمالی افغانستان کی مناسبت سے اسے شمالی اتحاد کا نام دے دیا گیا، حالانکہ اس میں گلبدین حکمت یارجیسے پشتون کمانڈرکی حزب اسلامی اور عبدالرب رسول سیاف کا گروپ بھی شامل تھا۔نائن الیون کے بعد کے برسوں میں شمالی اتحاد ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔اس لئے براہ کرم شمالی اتحاد کی گھسی پٹی اصطلاح کی جان چھوڑ دی جائے ۔ حالیہ صدارتی انتخابات ہی کو دیکھ لیں،تاجک لیڈر ڈاکٹر عبداللہ صدارتی امیدوار ہیں، ان کے پینل میں نائب صدر کے امیدوارہزارہ لیڈر استاد محقق ہیں،دوسرے صدارتی امیدوار ڈاکٹر اشرف غنی ہیں، جن کے ساتھ نائب صدارت کے لئے ازبک کمانڈر جنرل رشید دوستم اور ہزارہ سرور دانش امیدوار ہیں،تیسرے اہم امیدوار زلمے رسول زاد کے ساتھ احمد شاہ مسعود کے بھائی احمد ضیا مسعود(تاجک) اور بامیان کی خاتون گورنرحبیبہ سروبی(ہزارہ) ہیں۔ آپس ہی میں مقابلہ ہے۔
کابل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کبھی پرو پاکستان شہر نہیں رہا،طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد اس کا ماحول مکمل طور پر پاکستان مخالف ہوگیا۔ کابل میں رہیں تو پاکستان مخالف جذبات جگہ جگہ محسوس ہوتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ مقامی آبادی میں اکثریت تاجک ہیں۔ تاجکوں میں پنج شیری تاجک اور بدخشان کے تاجک مختلف مزاج رکھتے ہیں۔ احمد شاہ مسعود پنج شیری تھے، کابل میں اکثریت پنج شیری تاجکوں کی ہے، مرحوم احمد شاہ مسعود کی ان میں وہی حیثیت رہی جو کسی پیر کی اپنے مریدین کے نزدیک ہو سکتی ہے۔بدخشاں کے تاجک نسبتاً کم پاکستان مخالف ہیں۔ پاکستان نے بدخشاں میں کئی پراجیکٹ بھی شروع کر رکھے ہیں، جن میں ایک بڑی یونیورسٹی بھی شامل ہے۔پاکستانی حکومت یا اسٹیبلشمنٹ پر الزام ہے کہ ان کا افغان طالبان کے حوالے سے نرم گوشہ ہے اور وہ حقانی نیٹ ورک کی سپورٹ کرتے ہیں ۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے اور اس کی منطقی وجوہ ہیں۔ پاکستانی نے روس کے خلاف افغان مزاحمت میں افغان مجاہدین گروپوں کا ساتھ دیا، بعد میں ان کے مابین خانہ جنگی شروع ہوئی ۔ گلبدین حکمت یار اور احمد شاہ مسعودایک دوسرے پر چار برسوں تک راکٹ برساتے رہے، طالبان اچانک ابھرے ، خانہ جنگی سے تنگ افغان عوام نے ان کا سا تھ دیا اور وہ کابل پر قابض ہوگئے، سابق مجاہدین گروپوں کو بری طرح پسپا ہونا پڑا۔ یہ کھلا سچ ہے کہ طالبان کی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے کھل کر سپورٹ کی۔ فطری طور پر سابق افغان مجاہدین گروپ پاکستان کے مخالف ہوگئے، ان کے پاس بھارتی مدد لینے کے سوا کوئی اور آپشن نہیں بچی تھی۔ نائن الیون نہ ہوتا تو وہ شکست خوردگی کی حالت میں افغانستان کے ایک کونے میں دبکے بیٹھے رہتے ۔نیٹو افواج کے حملے اور طالبان حکومت کے خاتمے نے انہیں حکمران بنا دیا۔اس نان پشتون آبادی میںپاکستان مخالف جذبات واضح طور پر موجود ہیں، انہوں نے بھارت کی کھل کر حمایت کی اور اسے افغانستان میں قدم جمانے کا پورا موقع فراہم کیا۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے پاس مجبوری کی حالت میں طالبان کی حمایت کے سوا اور کوئی آپشن نہیں تھی۔ ڈبل گیم ان کی چالبازی نہیں بلکہ مجبوری بن چکی تھی۔ جارج فرائیڈ مین جیسے ممتاز امریکی دانشور کھل کر یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ پاکستان کا یہ ردعمل فطری تھا۔پچھلے تین چار برسوں میں البتہ پاکستان نے تاجک، ازبک اور ہزارہ گروپوں کے ساتھ کشیدگی میں کمی پیدا کی، شعوری کوشش کے ذریعے بعض اہم تاجک لیڈروں کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی۔ حکومت نے یہ اعلان بھی کیا کہ افغانستان میں ہماراکوئی فیورٹ نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ حالیہ صدارتی انتخابات میں پہلی بار پاکستانی حکومت مکمل طور پر غیر جانبدار رہی۔ انہوں نے کسی امیدوار کی حمایت کی نہ ہی ان کے حق میں ووٹ ڈلوانے کی کوشش کی۔ ماضی میں پاکستانی حلقے کسی خاص امیدوار (جیسے پچھلی بار حامد کرزئی)کے حق میں اپنا اثر ورسوخ استعمال کرتے رہے۔پاکستان لاکھوں افغان مہاجر ووٹر پر اثر انداز ہوسکتا ہے،اس بار کوئی ایسی کوشش نہیں کی، اگر کی ہوتی تو زلمے رسول زاد کی ایسی مایوس کن کارکردگی نہ ہوتی۔یہ وہ بات ہے جو ہمارے ہاں زیادہ زیر بحث نہیں آئی۔ افغانستان میں طالبان کے ہر حملے کا ذمہ دار پاکستان کو سمجھا جاتا ہے، ہر واقعے کی ذمہ داری آئی ایس آئی پر ڈالی جاتی ہے۔ اس کی ایک بڑی نفسیاتی وجہ بھی ہے۔ افغانستان میں صدیوں سے پشتون حکمران رہے ، اگرچہ ان کی وہاںتعداد پچاس فیصدکے لگ بھگ ہی رہی، بعض کے خیال میں چالیس پینتالیس فیصد سے زیادہ نہیں، ازبک اورتاجک آبادی پندرہ پندرہ بیس بیس فیصد تک ہے، پانچ سات فیصد ہزارہ اور دو فیصد کے قریب ترکمان وغیرہ ہیں۔ طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد پچھلے دس بارہ برسوں کے دوران تاجک ،ازبک اور ہزارہ بہت اوپر آئے ہیں، بلکہ ایک طرح سے چھا گئے ہیں۔ بے شمار تاجک نوجوان سکالرشپس پرامریکہ اور یورپ گئے، کابل ہزاروں ایسے نان پشتوں پروفیشنلز سے بھرا پڑا ہے، جنہیں نیٹو افواج اور افغان حکومت کے مختلف شعبوں میں اعلیٰ ملازمتیں مل گئیں، ہزارہ افغانستان کی پسماندہ آبادی تھی، وہ بہت ترقی کر گئے، ہزارہ لیڈروں نے تعلیم پر خاص فوکس کیا، ایران سے بے شمار سکالرشپس ملیں اور ہزارہ نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں جت گئے۔ ہم کابل میں تھے کہ انٹر کا نتیجہ آیا، معلوم ہوا کہ پہلی بیس پوزیشن لینے والوں میں سے بارہ ہزارہ سے تھے۔ ان سب کو یہ خطرہ نظر آتا ہے کہ اگر طالبان دوبارہ اقتدار میں آگئے اور انہوں نے پرانے سٹائل سے حکومت کی تو ان سب کے کیرئیر یک لخت ختم ہوجائیں گے۔ 
افغانستان کا معروضی منظرنامہ بدل چکا ہے، اب تاجکوں، ازبکوں اور ہزارہ کو حکومت اور اقتدار میںٹھیک ٹھاک شیئر دئیے بغیر بات نہیں بن سکتی، افغانستان کو ایک نیا معاہدہ عمرانی چاہیے، پرانے سٹائل سے معاملات چلنے کے بجائے خانہ جنگی ہی ہوسکتی ہے۔ یہ وہ بات ہے جو سب کو سمجھنی ہوگی، افغانستان کے موجودہ حکومتی ڈھانچے کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ پشتون آبادی پچھلے دس بارہ برسوں میں بری طرح نظرانداز ہوئی ہے، انہیں بھی ان کا حق دینا ہوگا، طالبان افغانستان کی ایک بڑی اہم قوت اورزمینی حقیقت ہیں، جسے نظرانداز کرنا حماقت ہوگی۔ الیکشن کا ٹرن آئوٹ اچھا ہونے کا یہ مطلب قطعی نہیںکہ افغان عوام طالبان کے مخالف ہوگئے۔ جو یہ کہتا ہے ، وہ سراسر جھوٹ بول رہا ہے۔ طالبان ری گروپ ہو رہے ہیں ، افغانستان میں اپریل کے اواخر سے اگلے دو تین مہینوں تک بڑے پیمانے پر گوریلا کارروائیاں ہوتی ہیں، امریکہ عسکری ماہرین اسے سپرنگ افینسو(Spring Offensive) کا نام دیتے ہیں۔ امریکی پریشان ہیں کہ اس بار سپرنگ افینسو خونریز ہوگا۔ افغان طالبان اپنی پوری قوت مجتمع کر کے فیصلہ کن معرکہ لڑنا چاہ رہے ہیں۔اطلاعات ملی ہیں کہ ملا عمر کی جانب سے عسکریت پسند گروپوں ،کمانڈروں اور قبائلیوں کو اس میں ساتھ شامل ہونے کا کہا گیا، مالی مدد کے لئے بھی اس موسم سرما میں افغان طالبان سرگرم رہے۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ اب یا کبھی نہیں والی پوزیشن ہے۔ افغانستان کا مستقبل کئی اگر مگر پر منحصر ہے۔ کئی سوالات ہیں، جن کے جوابات ابھی آنے باقی ہیں۔رہے افغان صدارتی انتخابات، تو ان پراگلی نشست میں بات کریں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں