بوڑھے ’’کرنل‘‘ کی موت

بوڑھا کرنل اوریلیانو بوئندیا اپنے آخری دنوں کے دوران اپنے گھر کی پرانی ورکشاپ میں بیٹھا طلائی مچھلیاں بناتا رہتا، یہ اس کی گزر بسر کا سلسلہ تھا اور وقت کاٹنے کا مشغلہ۔ یہیں پر ایک دن بوڑھا کرنل خاموشی سے مر گیا۔ بظاہر یہ ایک عام سا واقعہ تھا، مگر گارشیا مارکیز کے سحر انگیز قلم نے اسے فسوں خیز بنا دیا۔ کرنل وریلیانو بوئندیاگارشیا مارکیز کے شاہکار ناول ''تنہائی کے سو سال‘‘ کا ایک یادگار کردار ہے۔ ویسے تو یہ ناول پڑھنا بذات خود عجب تجربہ ہے ۔ایک مختلف مزاج کا قصبہ ، وہاں کے اپنی ہی ڈگر کے مکین۔ چھ سات نسلوں پر محیط سو سال کا نقشہ جس انداز میں گارشیا مارکیز نے کھینچا، وہ اسی کا خاصہ ہے۔تنہائی، تشنگی، نارسائی ،ہجر، وصال، طویل خانہ جنگی، اعصاب شکن واقعات، حیران کن گمشدگی، خیرہ کن حسن،قیامت خیز سوگواریت ... یہ سب کیفیات اس ناول میں ملتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ چند سطروں میںعالمی ادب کے اس شاہکار کو بیان کرنا بڑا مشکل ہے۔ میں نے اس کا اردو ترجمہ پہلے پڑھا اور انگریزی ورژن بعد میں۔ اردو میں اسے ڈاکٹر نعیم کلاسرا (مرحوم) نے ترجمہ کیا۔ ڈاکٹر نعیم ہمارے دوست اور منفرد صحافی وکالم نگار رئوف کلاسرا کے بڑے بھائی تھے۔فکشن کے ترجمہ میں رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں، ڈاکٹر نعیم کا یہ کریڈٹ ہے کہ ان کے ترجمے میں کچھ رنگ بڑھ گئے۔ اس کا دیباچہ غیر معمولی قوت کلام رکھنے والے سرائیکی شاعر اور دانشور ڈاکٹر آشو لال نے لکھا۔ فکشن ہائوس نے اسے شائع کیا ہے۔ستاسی سالہ مارکیز کے بارے میں کچھ عرصہ قبل خبر آئی کہ وہ ڈیمنشیا کے مریض بن گئے ہیں اوریادداشت کھو رہے ہیں۔اور پھر تین دن پہلے اپنے کردار کرنل اوریلینانو بوئندیا کی طرح مارکیز بھی خاموشی سے چل بسے۔مارکیز نے اپنے ایک سوانحی انٹرویو میں بتایا،'' کرنل اوریلیانو کی موت میرے لئے بڑے دھچکے سے کم نہیں تھی، جس سہ پہر میں نے اس کی موت والا باب ختم کیا،میں بستر پر لیٹ گیا اور دو گھنٹے تک روتا رہا۔ ‘‘گارشیا مارکیز بوڑھے ہوچکے تھے، ان کے پڑھنے والوں کو اندازہ ہوچکا تھا کہ کیا ہونے والا ہے، وہ کچھ عرصے سے لکھ بھی نہیں پا رہے تھے، مگر مارکیز سے محبت کرنے والوں کے لئے سترہ اپریل کا دن بڑا کٹھن اور کڑا تھا۔ کرنل اوریلیانو بوئندیا کا کردار ختم کرتے مارکیز جس تکلیف سے گزرے، ان کے قارئین کے لئے ایسے لافانی کرداروں کے خالق کی رخصتی بھی اتنی ہی اذئیت ناک اور دکھ دینے والی رہی۔
کہتے ہیںکتابیں بھی دلہنوں کی طرح ہوتی ہیں۔ کچھ ایسی کہ اگلی صبح میک اپ اترتے ہی دیکھنے والوں کودھچکا سا لگے۔خیال آئے کہ یہی ہے وہ،رات جس کے حسن کی اتنی دھوم تھی۔ ع سودا جو حال ہے تیرا ،اتنا تو نہیں وہ۔ بعض ایسی کہ دنوں تک گھونگھٹ نکالے پھریں، درمیانی خلیج مدتوں تک نہ پاٹی جائے۔کچھ پہلی نظر میں تو مایوس کریں، مگر تھوڑا وقت بتانے پر ان کے جوہر کھلیں، حسن میں ٹھنڈک ،مگر تاثیر دیرپا، رفتہ رفتہ دل ودماغ پر چھا جائیں۔کئی جگمگاتے آتشی حسن کی مالک، دیکھنے میں آدمی چندھیا جائے ،مگر قریب جانے پر معلوم ہو کہ صرف ظاہری تاثرہے، باطن خالی، گہرائی سے جائزہ لینے والے کو شدید مایوسی۔ ایک آدھ ایسی بھی کہ اگلی صبح دوپٹہ اتار، بے تکلف ،مہمانوں میں گھل مل جائیں ، ہر ایک کو اپنائیت کا احسا س ،دنوں میں محلے بھر کی چہیتی بن جائے۔
تھوڑے بہت فرق کے ساتھ کتابوں کی بھی ایسی درجہ بندی کی جا سکتی ہے۔ کچھ کتابیں ایسی ملیں گی، جن کی بڑی شہرت ہو،پڑھنے میں مگر مایوسی ملے۔کئی سرپرائز دیتی ہیں، ورق گردانی کی نیت سے اٹھائے تو پھر رکھی نہ جائے، ایسا جادو کہ اتارے نہ اترے۔ ہاں چند ایک ایسی بھی ہیں ،جو اپنی شہرت ، اپنی ساکھ کے مطابق ثابت ہوں،بلکہ کچھ بڑھ کر نکلیں۔مارکیز کے دو ناول ''تنہائی کے سو سال ‘‘اور''وبا کے دنوں میں محبت‘‘ایسی ہی کتابیں تھیں۔ تنہائی کے سو سال بڑے مختلف ذائقے والا ناول ہے، اس میں جا بجا جنسی تجربے بھی ملتے ہیں، مگر منٹو کی بعض کہانیوں کی طرح وہ تلذز آمیز نہیں بلکہ کہانی کا حصہ بنے چلے آتے اور پھر خاموشی سے گزر جاتے ہیں۔ ''وبا کے دنوں میں محبت‘‘ کو پڑھنا بھی ایک شاندار تجربہ ہے۔ ایسی بلا خیز محبت، اتنا طویل عرصے تک اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ قائم رہے اور 
پھر ایک اچھوتے موڑ کے ساتھ ستر سال کی عمر میں حیران کن وصال ۔ ہسپانوی ادب میں نے بہت زیادہ نہیں پڑھا ،مگر لاطینی امریکی لکھاریوں میں کچھ خاص بات ضرور ہے۔ وہ عام سی چیزوں کو بھی ہاتھ لگا کر خاص بنا دیتے ہیں۔ گارشیا مارکیز اس حوالے سے غیرمعمولی کمال تک پہنچ چکا تھا۔ اس کے کردار جیتے جاگتے ، سانس لیتے محسوس ہوتے۔ یوں لگتا کہ ہم انہیں دیکھ سکتے، چھو سکتے ہیں، ان سے ہماری محبت اورنفرت حقیقی حد تک پہنچ جاتی۔ اس کی بعض کہانیوں میں بھی یہی کیفیت دیکھی۔ایک خاص بات تو ان کہانیوں کا لینڈ سکیپ تھا۔مارکیز کا تعلق کولمبیا سے تھا، اس کی بیشتر کہانیاں اسی ماحول میں لکھی گئیں۔ شدید گرمی، پسینہ ، حبس، مکھیاں، اس موسم سے لوگوں کی اکتاہٹ ... ان سب کو ہم جنوبی ایشیائی لوگ بڑی آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ خوش قسمتی سے اس کا خاصا کام ہمارے ہاں ترجمہ ہو چکا ہے ۔ اس کا سب سے زیادہ کریڈٹ اجمل کمال کو جاتا ہے۔ گارشیا مارکیز کو انہوں نے حقیقی معنوں میں اردو میں متعارف کرایا۔ اپنے کتابی سلسلہ آج میں مارکیز کی کہانیاں اور ناولوں کے ابواب چھاپے، کوشش کر کے تراجم کرائے، پھر آج کا گارشیا مارکیز نمبرشائع کیا، جس میں مارکیز کے دو مشہور ناول یا ناولٹ ''کرنل کو کوئی خط نہیں لکھتا‘‘ اور ''ایک پیش گفتہ موت کی روداد ‘‘کے ساتھ مارکیز کے بے حد دلچسپ سوانحی انٹرویو ''امرود کی مہک‘‘اور اس کی کچھ مختصر 
کہانیاں بھی شامل ہیں۔ اگرچہ مارکیز کے فن سے مکمل واقفیت کے لئے تنہائی کے سو سال اور ''وبا کے دنوں میں محبت‘‘ پڑھنا لازمی ہیں۔مارکیز کا کہنا تھا کہ تنہائی کے سو سال کو لکھتے مجھے اٹھارہ ماہ کے قریب لگ گئے ،مگرمیں اسے پندرہ سال سے سوچ رہا تھا۔یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اسے شروع کس طرح کیا جائے۔پھر ایک روز اپنے بیوی اور بچوں کے ساتھ گاڑی میں کسی دوسرے شہر جاتے ہوئے اچانک ذہن میں کوندے کی طرح خیال لپکا کہ اسے داستانی انداز میں لکھا جائے۔ مارکیز نے وہیں پر گاڑی موڑی اور واپس گھر کا رخ کیا۔ بیوی بچے بھونچکا رہ گئے۔ گھر پہنچ کر اس نے اپنی گاڑی بیچی، بینک اکائونٹ خالی کیا اور جتنے پیسے تھے ، بیوی کے حوالے کر دئیے کہ مجھے ڈسٹرب نہ کرنا۔ وہ روزانہ کئی گھنٹوں تک اس ناول پر کام کر تار ہا۔ اس کی توقع سے زیادہ وقت لگ گیا۔وفا شعار دانا بیوی نے خاوند کو ڈسٹرب نہ کیا، گوشت اور بریڈ وغیرہ دکانداروں سے ادھار لیتی رہی، کئی ماہ تک یہ سلسلہ چلتا رہا، آخر ایک دن ناول مکمل ہوا، مارکیز نے مسودہ اپنی بیوی کو دیا اور اسے ایک پبلشر کو پوسٹ کرنے کے لئے بھیجا۔ وہ ناول ہٹ بلکہ سپر ہٹ ہوگیا، دو ہفتوں میں اس کی ہزاروں کاپیاں فروخت ہوگئیں۔ عالمی ادب کے قارئین کو مارکیز کے ساتھ ساتھ اس کی بیوی کا بھی شکر گزار ہونا چاہیے ۔ اگر وہ ایثار کیش نہ ہوتی تو شائد مارکیز اپنا سب سے اہم ناول کبھی نہ لکھ پاتا، عالمی ادب بھی تب شائد نامکمل ہی رہتا۔ یہ حقیقت ہے کہ مارکیز صرف فردنہیں ، بلکہ ایک اسلوب، سکول آف رائٹنگ اور طرز فکر کا نام بھی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں