صاف اور واضح بات کہنے کا وقت

پچھلے تین دن سے قومی منظر نامے پر بھونچال برپا ہے، اس پر بات کرتے ہیں، مگر پہلے دو مختصر واقعات سن لیجئے۔
بارہ جنوری 2011ء کے اخبارات میں لاہور میں ہونے والے ایک افسوسناک سانحے کی خبر اور تصاویر موجود تھیں۔ سپریم کورٹ کے اس وقت کے حاضر سروس جج جسٹس جاوید اقبال کے بوڑھے والدین اپنے گھر میں مردہ پائے گئے۔یہ ایک افسوسناک قتل تھا، جس کی بظاہر وجوہ سمجھ نہیں آ رہی تھیں، اسے ڈکیتی بھی نہیں قرار دیا جاسکتا تھا کہ گھر سے قیمتی اشیاء بھی نہیں چرائی گئیں۔ اگلے روز کے اخبارات ، خصوصاً انگریزی اخبارات نے واضح لکھ ڈالا کہ جسٹس جاوید اقبال آج کل بعض اہم اور حساس نوعیت کے کیس سن رہے ہیں، جن میں مسنگ پرسنز والا کیس بھی شامل ہے۔ اگلے دو تین دنوں میں تیزی سے ایک مہم چلنا شروع ہوئی، اخبارات میں پہلے ڈھکے چھپے انداز میں اور پھر واضح انداز میں کہا جانے لگا کہ لوگ جانتے ہیں کہ یہ قتل کس نے کیا ہے، کس کے لئے اشارہ ہے ... وغیرہ وغیرہ۔ ادھر سوشل میڈیا پر بھی طوفان بدتمیزی شروع ہوگیا۔خفیہ اداروں کے خلاف ایک بھرپور مہم شروع ہوگئی، کھل کر یہ کہا جانے لگا کہ ایجنسیوں نے یہ قتل کرایا ہے تاکہ جج صاحب کو سٹرانگ میسیج دیا جا سکے یا دوسروں کو تنبیہ مل سکے۔یہ مہم نجانے کیا رخ پکڑتی، مگر خوش قسمتی سے چند دن بعد جج صاحب کا سوتیلا بھائی پکڑا گیا اور اس نے یہ قبول بھی کر لیا کہ مالی وجوہ کی بنا پر اس نے اپنے بوڑھے باپ اور ماں کو قتل کیا ۔ یوں ساری فوج مخالف مہم یوں دم توڑ گئی جیسے جلتی لکڑی پر پانی کی بالٹی انڈیل دی جائے۔اگرقاتل اتفاقی طور پر نہ پکڑا جاتا تو یہ دونوں قتل ایجنسیوں کے کھاتے میں پڑ گئے تھے، کسی نے ان کی نہیں سننی تھی۔ ایسا ہی ایک واقعہ بلوچستان میں ہوا،جب زیارت میں قائداعظم ریزیڈنسی جلا دی گئی۔اس سانحے نے ہر ایک کو ہلا کر رکھ دیا۔ ایک شور بپا ہوا، اس میں ایسی آوازیں بھی اٹھیں اور میڈیا کے ایک حصے نے انہیں جگہ بھی دی کہ یہ آگ خود ایجنسیوں نے لگوائی ہے تاکہ ڈاکٹر مالک کی حکومت ختم ہوسکے۔ ان کی بدقسمتی کہ بلو چ لبریشن آرمی (بی ایل اے )نے نہ صرف اس واقعے کی ذمہ داری قبول کر لی بلکہ اس کی ویڈیو بھی جاری کر دی۔
اتفاق سے ہمارے ہاں دو حلقے ایسے وجود میں آ چکے ہیں ،جو مختلف وجوہ کی بنا پر فورسز اور ایجنسیوں ،خصوصاً آئی ایس آئی کے شدید ناقد ہیں۔ ایک حلقہ وہ ہے جو جنرل ضیاء کے دور سے فوج کے بارے میں ایک معاندانہ رویہ رکھتا ہے، ان میں سے کچھ جیالے، کچھ بھٹو صاحب کے پرستار اور زیادہ تر لبرل ، سیکولر حلقے شامل ہیں۔ مختلف وجوہ کی بنا پر وہ جنرل ضیاء کے شدید مخالف ہوئے ۔ضیاء آرمی چیف تھے، اس لئے یہ لوگ جنرل ضیا ء کے ادارے کے بھی خلاف ہوگئے ، ان میں سے کچھ کو سختیاں سہنی پڑیں،یہ تلخی بھی شامل ہوگئی۔ یہ لوگ ذہنی طور پر آج بھی جنرل ضیاء کے دور ہی میں موجود ہیں، انہی دنوں کی عینک لگا کر وہ حالات کو دیکھتے اور تجزیہ کرتے ہیں۔ دوسرا حلقہ ایک اور ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے دور میں وجود میں آیا۔جب جنرل مشرف نے ایک بڑا یو ٹرن لیا۔ جہادی تنظیمیں بھی ممنوع قرار دی گئیں او ر امریکہ کے ساتھ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان شامل بھی ہو گیا۔ یہاں ایک اور دلچسپ بات سامنے آتی ہے۔ امریکی ماہرین، جنرل، دفاعی ماہرین اور بش سے اوباما تک کے لیڈر یہ سمجھتے بلکہ یقین رکھتے ہیں کہ پاکستانی فوج نے ان کے ساتھ ڈبل گیم کی۔ انہیں یہ تاثر دیا کہ وہ امریکہ کے ساتھ ہیں، مگر درپردہ طالبان کا ساتھ دیا ، حقانی نیٹ ورک اور کوئٹہ شوریٰ کی سرپرستی کی اور یوں طالبان کو منظم ہونے اور گوریلا سرگرمیاں 
جاری رکھنے کا بھرپور موقعہ فراہم کیا۔ امریکہ میں آج یہ متفقہ رائے ہے کہ پاکستان نے اس کے ساتھ دھوکا کیا اور یوں افغانستان میں امریکی ایجنڈے کی ناکامی اور ایک طرح سے نیٹو افواج کی شکست کا باعث بنا۔ اس کے بر عکس ہمارے روایتی دینی حلقوں اور پرو طالبان گروپوں میں یہ مستحکم تاثر ہے کہ پاکستانی فوج امریکہ کی بھرپور ساتھی ہے اور اس نے امریکہ ایجنڈے کو آگے بڑھایا۔تاہم ہمارے روایتی رائیٹ نے سوچے سمجھے بغیر پاکستانی فوج اور ایجنسیوں کے خلاف ایک محاذ کھولا ہوا ہے۔ جماعت اسلامی بھی اس میں شامل ہے اور سوشل میڈیا پر جماعت کے وابستگان فوج کے خلاف طنز کرنے یا تنقید کرنے کا کوئی موقعہ ضائع نہیں جانے دیتے۔یہ ایک الگ بحث ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے اپنا امیج بدلنے کی سنجیدہ کوشش کیوں نہیں کی۔ اس حوالے سے بہت کچھ ہوسکتا تھا۔ حقائق ہی میڈیا پرسنز سے شیئر کئے جاتے رہیں تو بہت سی غلط فہمیاں دم توڑ جائیں۔پبلک ریلیشنگ آج آرٹ بھی ہے اور سائنس بھی ،یہ کام مگر پروفیشنل انداز سے ہوسکتا ہے ، لگے بندھے سرکاری انداز میں نہیں۔ 
کراچی میں حامد میر پر حملہ ہوا۔ یہ ایک افسوسناک واقعہ تھا۔ حامد میر معروف صحافی ہیں ،ا ن کی صحافت کا ایک خاص سٹائل ہے۔ وہ دبنگ انداز میں لکھتے اور بات کرتے ہیں، اپنے موقف کوپوری قوت سے پیش کرتے ہیں۔ اس سے اتفاق بھی کیا جاسکتا ہے ، اختلاف بھی۔انہوں نے لکھا کہ جگن ناتھ آزاد نے قومی ترانہ لکھا تھا،جسے قائداعظم نے پسند کیا اور وہ ریڈیو پر چلتا رہا، مگر اس ترانے کو اس لئے مسترد کر دیا گیا کہ وہ ایک ہندوہ نے لکھا تھا۔ یہ ایسی بات تھی جو تاریخی اعتبار سے درست نہیں۔ ڈاکٹر صفدر محمود نے دلائل کے ساتھ اس کا جواب لکھا، رائیٹ ونگ کے کئی اور لکھنے والوں نے بھی حامد میر کے مقدمے کو غلط ثابت کیا۔دوسری طرف علامہ اقبال ؒکے حوالے سے کچھ عرصہ پہلے لکھا گیا کہ انہوں نے جلیانوالہ باغ سانحے کی مذمت نہیں کی تھی، میر صاحب نے پوری قوت سے اس کا جواب دیا، رائیٹ ونگ والے ا س جرات کے ساتھ اقبالؒ کے دفاع پر حامد میر کے ممنون ہوئے۔ مقصد یہ کہنا تھا کہ مختلف ایشوز پر ان کی مختلف آرا تھیں، جن سے اتفاق بھی کیا جا سکتا تھا، اختلاف بھی۔ ان پر حملہ البتہ صریحاً ظلم اور زیادتی ہے۔ کون بدبخت ہے جو اس کی مذمت نہیں کرے گا۔ حملے کے بعد برپا ہونے والے طوفان میں ردعمل کی نفسیات کے تحت بعض لوگوں نے یہ کہا کہ حملہ ایک ڈرامہ تھا ، چند ایک نے میر صاحب کو ہدف تنقید بھی بنایا۔ میری رائے میں اس حملے کو ڈرامہ کہنا زیادتی اور جہالت کی انتہا ہے، حامد میر سے اختلاف کیا جا سکتا ہے ،مگر انہیں غدار کہنا قطعی طور پر غلط ہے ۔ اس سے بڑا جھوٹ اور نہیں ہوسکتا۔
اس روز اور اس کے بعد سے میڈیا کے ایک حصے نے جس بے رحمی اور دیدہ دلیری کے ساتھ ہمارے خفیہ اداروں کو نشانہ بنایا ،و ہ البتہ نہایت افسوسناک مہم تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے بھارتی چینلوں کی روح پاکستانی میڈیا کے ایک حصے میں حلول کر گئی ہے۔ صحافت کے ضابطہ اخلاق اور طے شدہ اصولوں کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ دنیا کے کسی ملک میں اپنی فورسز اور قومی اداروں کو اس طرح نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ خفیہ اداروں کے حوالے سے بات اس لئے مزید احتیاط سے کی جاتی ہے کہ وہ پبلک میں آ کر اس کا جواب نہیں دے سکتے۔ ڈی جی آئی ایس آئی پریس کانفرنس نہیں کر سکتا۔ اسے کرنی بھی نہیں چاہیے۔
قومی اداروں کا تحفظ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے نازک ترین مرحلے میں ہے۔ افغانستان میں امریکہ انخلا کے بعد کا منظر نامہ بڑا اہم ہے۔ اندرون ملک حالات مزید سنگین ہیں۔ فاٹا میں عسکریت پسندوں کے مذاکرات فیصلہ کن مرحلے میں ہیں، اگر وہ ناکام رہے تو آپریشن کرنا پڑے گا، جس کے لئے اطلاعات خفیہ اداروں ہی نے فراہم کرنی ہیں۔ بلوچستان میں عسکریت پسند بھرپور ہلہ بولنے والے ہیں، ان کی کارروائیوں میں شدت آچکی ہے، ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اسلام آباد تک رسائی حاصل کر چکے ہیں۔ سندھ میںبعض قوم پرست گروپوں کی جانب سے کریکر دھماکوں کی صورت میں وارننگ مل چکی ہے۔ایسے میں پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کو بھرپور اور غیر مشروط سپورٹ کی ضرورت ہے۔ ایجنسیوں کے ماضی کے کردار اور غلطیوں پر بحث کرنے کا یہ وقت نہیں، اس کے اور بہت سے موقعے ملیں گے۔ حالت جنگ میں یہ بحثیں نہیں چھیڑی جاتیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے کردار اور ایجنسیز کے حوالے سے ہمارے بھی بعض تحفظات ہیں ، مگریہ وقت انہیںمکمل طور پر سپورٹ کرنے کا ہے۔ یہ ان کے ساتھ کھڑا ہونے کا وقت ہے۔ صاف اور واضح الفاظ میں بات کرنے کا وقت۔ پوزیشن لینے کا وقت۔ اگر، مگر، چونکہ، چنانچہ نہیں، کھلی اور صاف بات۔ آپشنز دو ہی ہیں، قومی اداروں کی سپورٹ یا ان کے خلاف سرگرم عالمی قوتوں کے ایجنڈے کو تقویت دینا۔فیصلہ آپ خود کر لیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں