امید کے ننھے جگنو

مجھے یوں لگا ،جیسے کسی نے سر پر ڈنڈا رسید کر دیا ہو، ہکابکا میں سفید ڈاڑھی والے پروفیسر کو دیکھتا رہا۔ چند لمحوں تک تو سمجھ نہیں آئی کہ اس بات کا کیا جواب دوں۔ بسا اوقات آدمی کے ساتھ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس بات کو وہ اپنی سب سے بڑی دلیل سمجھتا ہو، دوسرا اسے ہی سب سے کمزور پہلو قرار دے کر مسترد کر دے۔ ایک تند وتیز جملہ ذہن میں کوندے کی طرح لپکا، آخری لمحے پر مگر میں اپنی لگامیں کھینچنے میں کامیاب رہا۔ ایک لمحے کے لئے خود کو باور کرایا کہ دوسرے کے نقطہ نظر کو پہلے سمجھ تو لیا جائے ۔ایک لمحے کے لئے میں نے پروفیسر صاحب کی چشمے کے پیچھے جگمگاتی آنکھوں میں جھانکا تو وہاں طنز سے پاک مسکراہٹ محسوس ہوئی۔یہ پچھلے ہفتے کا واقعہ تھا۔ 
پچھلے ہفتے مجھے ایک قریبی عزیز کی شادی کے سلسلے میں ملتان جانا پڑا۔ رات کو تقریب تھی، کھانے میں ابھی وقت تھا، سیاسی حالات پر گفتگو شروع ہوگئی۔میڈیا سے باہر کی دنیا میں عام تاثریہی ہے کہ صحافیوں کے پاس کچھ زیادہ ہی خبریں ہوتی ہیں، یہ اور بات کہ ہم اپنی حقیقت سے اچھی طرح باخبر ہیں،مگر بھرم تو رکھنا پڑتا ہے۔ بعض مہمانوں نے مجھ سے سوالات شروع کر دئیے، کسی کو اس میں دلچسپی تھی کہ حکومت اور حساس اداروں میں اتفاق رائے ہے یا اندرون خانہ معاملات بگڑے ہوئے ہیں۔میرے بڑے بھائی کے برادر نسبتی کی فیملی جماعت اسلامی سے قریب ہیں، ایک دو تو باقاعدہ ارکان ہیں، باقی بھی جماعت کی فکر سے خاصے قریب ہیں۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ جماعت اسلامی کے الیکشن میں سید منور حسن کی جگہ سراج الحق کے کامیاب ہونے کے مثبت پہلوئوں پر میڈیامیں کم بات ہوئی، زیادہ تر نے اس میں بھی منفی پہلو ہی نکال لئے۔ بات چیت ہوتی رہی ، اسی دوران ہمارے ایک بزرگ جو بہاولپور کے ایک کالج میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر ہیں، اٹھ کر میرے ساتھ آ بیٹھے۔ انہوں نے ایک ایسی بات کی کہ میں ان کا منہ دیکھتا رہ گیا۔ کہنے لگے،آپ میڈیا سے تعلق رکھتے ہیں،یہ بتائیے میڈیا کا کنٹری بیوشن کیا ہے ؟ میں نے فوراً جواب دیا، میڈیا ہی نے سوسائٹی میں یہ سب تبدیلی پیدا کی ہے۔ لوگوں کے شعور کا عالم کس قدر بڑھ گیا ہے،میڈیا کتنی ہی حقیقتوں کو بے نقاب کر رہا ہے، سیاست سے لے کر کتنے ہی شعبوں کے لوگ ایکسپوز ہوچکے ہیں، کرپشن کے بے شمار سکینڈل میڈیا ہی کی وجہ سے باہر آئے ہیں۔ برق رفتاری سے میں نے دو چار مثالیں بھی جڑ دیں۔ وہ پروفیسر صاحب یہ سن کر مسکرائے اور بولے: ''میں روزانہ ٹی وی چینلز دیکھتا اور ایک سے زیادہ اخبارات پڑھتا ہوں، کالم بھی بڑی توجہ سے دیکھتا ہوں۔ میرا تو یہی تاثر ہے کہ میڈیا سوائے مایوسی اور فرسٹریشن پھیلانے کے کچھ نہیں کر رہا۔ آپ لوگوں کے کالم اور پروگرام دیکھ کر یہی احساس ہوتا ہے کہ پاکستان میں کوئی کام اچھا نہیں ہو رہا، ایک بھی لیڈر ایسا نہیں جو کرپٹ نہیں، ہر ایک کے ہاتھ آلودہ ہیں، حتیٰ کہ وہ لوگ جو ماضی میں جیلوں میں جاتے رہے، ڈکٹیٹروں کے مقابل کھڑے ہوئے ، کرپشن کی دلدل میں وہ بھی دھنسے ہوئے ہیں۔ میں کالج میں پڑھاتا ہوں، روزانہ کئی لوگوں سے ملتا ہوں، ہر ایک کا یہی تاثر ہے۔ روزانہ صبح سات بجے اٹھ کر اخبار پڑھنے سے لے کر رات گیارہ بجے کے آخری ٹاک شو تک میڈیا منوں ٹنوں کے حساب سے مایوسی، فرسٹریشن اور ایک دوسرے سے نفرت ہی ہم پر انڈیلتا ہے۔ اب تو ہمیں اپنے آپ سے شدید نفرت ہونے لگی ہے۔کبھی آپ نے غور کیا کہ جسے میڈیا کا سب سے بڑا کریڈٹ سمجھا جا رہا ہے ، کہیں وہ میڈیا پر سب سے بڑی چارج شیٹ تو نہیں؟ ‘‘ 
لفظوں کا ہم بیوپار کرتے ہیں،یہی ہمارے رزق کا وسیلہ ہیں، جواب تو میں نے پروفیسر صاحب کو کچھ نہ کچھ دے ہی دیا۔ بعد میں سوچتا رہا کہ بات غلط تو نہیں۔ میڈیا کے مثبت پہلو اپنی جگہ ،یہ بھی تو حقیقت ہے کہ بریکنگ نیوز کے تیز تر کلچر اور انویسٹی گیٹو جرنلزم کرتے کرتے لوگ منفی پہلو زیادہ ڈھونڈنے اور کمزوریوں کو عیاں کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ کسی مثبت یا اچھے کام کو خبر نہیں سمجھا جاتا کہ اس میں وہ تھرل اور سنسنی نہیں، جو کسی بڑے سیکنڈل میں چھپی ہوتی ہے۔ مثبت چیزوں کو بھی خوبصورت اور پرکشش بنایا جا سکتا ہے ،مگر اس کے لئے اعلیٰ تخلیقی صلاحیتوں اور بلند ویژن کی ضرورت پڑتی ہے۔ اتنی محنت کر کے کون ہلکان ہوتا پھرے؟بنا بنایا سکینڈل اٹھایا اور اس پر مبنی خبر فائل کر دی یا پروگرام چلا دیا۔ 
کچھ قصور ہمارے اہل دانش کا بھی ہے۔ ہماری انٹیلی جنشیا ہمیشہ جذباتیت کا شکار رہی۔ احتجاج اور مزاحمتی رویوں کے حوالے سے تربیت کرنے میں تو اس کا حصہ ہے ،مگر یہ کبھی نہیں سمجھایا جاتا کہ انفرادی طور پر کیا کچھ کیا جا سکتا ہے؟ حکومت بدلنا، نظام بدلنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں ، وہ اس کا مکلف بھی نہیں، روز آخرت اس سے اس کی جواب طلبی نہیں کی جائے گی۔ ہر فرد کا اپنا دائرہ کار ہے ، وہ اپنے دائرے میں تو خیر پھیلائے، خیرکاشت کرے اور سماج میں مثبت لہریں داخل کرے۔ یہ بھی نہیں کہہ رہا کہ وہ اجتماعی زندگی سے لاتعلق ہوجائے اور ملک وقوم کی سطح پر چلنے والے معاملات میں حصہ نہ لے۔ اس پر لازم ہے کہ اپنی دانست اور فہم ودانش کے مطابق وہ وہاں پر مثبت قوتوں کو سپورٹ کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ انفرادی سطح پر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ کسی نہ کسی پیشے یا کیریئر سے وابستہ ہوگا، وہاں پر وہ کس قدر ایمانداری سے کام کرتا اور بدعنوانی اور منفی ترغیبات سے دور رہتا ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ بہت سے لوگ فرض شناسی سے کام کرنے کو نیکی سمجھتے ہی نہیں۔ وہ تنخواہ تو دفتر سے پوری لیں گے ،مگرزیادہ تر وقت گپیں مارنے اور چائے پینے پلانے میں صرف کر دیتے ہیں۔ یہ ان لوگوں کا تذکرہ کر رہا ہوں، جن کے اندر انقلابی روح موجود ہوتی ہے اور وہ تبدیلی لانے کے لئے بے تاب پھرتے ہیں۔ اسی طرح ہر آدمی کے کردار کے مختلف شیڈز رشتوں کے حوالے سے بھی ہیں، والد یا والدہ، بہن، بھائی، داماد، سسر، دیور ، دیورانی وغیرہ کے مختلف رشتوں کے طور پر اس کی مختلف ذمہ داریاں ہیں۔ایسے اعلیٰ پائے کے فنکار، شاعر، دانشور، سکالر یا سیاسی رہنما دیکھے جو ایک طرف تواپنے شعبے میں اہم کنٹری بیوشن کر رہے ہیں، مگران کی ذاتی زندگی تاریک ہے۔ وہاں وہ نہایت ظالم اور خودغرض شوہر، داماد یا بھائی کے طور پرنظر آتے ہیں۔ ہر ایک کو سوچنا چاہیے کہ بطور ہمسایہ وہ کیا کردار ادا کر رہا ہے ؟ محلے کی سماجی سرگرمیوں میں کس قدر شمولیت ہے ؟ایسے سیاسی کارکنوں کو دیکھا، جنہوں نے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں، انقلاب لانے کے لئے وہ عمر بھر کوشاں رہے، مگر اپنی گلی صاف نہ کر سکے۔نظام تو خیر کیا بدلا جانا تھا، اپنے ہمسایے ،گلی محلے کی سطح پر جو مثبت تبدیلی وہ اپنی محنت ، خلوص اور متحرک شخصیت سے لا سکتے تھے، وہ بھی نہ آ پائی۔ چھوٹے شہروں میں مقیم بہت سے نوجوانوں کی مجھے ای میلز اور فیس بک میسجز آتے ہیں کہ ہم فلاں فلاں مشہور کتاب کہاں سے پڑھیں، کدھر سے لیں کہ یہاں پر کوئی پبلک لائبریری ہی نہیں۔ ان شہروں کے رہنے والے ''انقلابیوں‘‘ کوسب سے زیادہ توجہ اپنے گائوں، قصبے، شہر یا محلے میں کتاب پڑھنے اور پڑھانے کی تحریک چلانے پر دینی چاہیے۔ چھوٹی سطح پر سٹڈی سرکل چلائے جائیں، نوجوانوں کو اچھی کتابوں سے متعارف کرایا جائے، ان پر گفتگو کی جائے۔ یہ وہ کام ہے جو کوئی بڑی قربانی دیے بغیر تھوڑی سی توجہ سے کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح چھوٹے شہروں ،قصبوں میں نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنے والا، ان کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں۔ ویسے تو یہ مسائل بڑے شہروں میں بھی ہیں کہ یہاںمشینی زندگی گزارنے والوں کے پاس کسی کی مدد کے لئے وقت ہی نہیں۔ معاشرے میں ہر طرف پھیلی فرسٹریشن اورمنفی چیزوں سے پریشان ہونے اور ڈپریشن لینے کے بجائے ہمیں اپنی اپنی سطح پر امید کے ننھے جگنو جلانے ہوں گے ۔ ایسے لا تعداد جگنو جو تاریک رات میں کسی حد تک روشنی تو پیدا کر دیں۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں، صرف تھوڑی سی توجہ، کمٹمنٹ اور ایک دوسرے سے جڑ کر نیکی ، خیر کا نیٹ ورک بنانے کی ضرورت ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں