ہرایک کے لئے اس میں سبق ہیں

پچھلے چند ہفتوں کے دوران ملک میں جو بحرانی صورتحال رہی، وہ اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہی ہے، اگرچہ بسا اوقات بظاہر ختم ہوتا معاملہ اپنے اندر ایسے طوفان سمیٹے ہوتا ہے،جس کا باہر سے اندازہ نہیں ہوسکتا۔ خیریہ الگ بحث ہے کہ یہ معاملہ کدھر جاتا نظر آ رہا ہے۔ اس میں مگر کوئی کلام نہیں کہ اس بحران نے ہمارے قومی منظرنامے میں بہت کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔ 
انیس اپریل کو ایک صحافی پر حملہ ہوا اور اسی روز ایک میڈیا ہائوس کی جانب سے نشر ہونے والی ہنگامی ٹرانسمیشن نے ایسا بھونچال کھڑا کردیا، جس کے آفٹر شاکس ابھی تک جاری ہیں۔ انیس اپریل 2014ء کے دن نے اس ملک میں بہت کچھ بدل دیا۔ کئی چیزیں اب پہلے جیسی کبھی نہیں ہوسکیں گی۔ میڈیاکی جو پوزیشن انیس اپریل کی صبح تک تھی، دوبارہ ویسی نہیں ہوسکے گی، حساس ادارے جو اس دن سے پہلے تک دفاعی پوزیشن میں تھے، ہر طر ف سے ان پر یلغار جاری تھی اور ایک منظم ایجنڈے کے تحت ان کا امیج حددرجہ مسخ کیا جا چکا تھا، اچانک ہی ایسی لہر چلی کہ ان کی سابق غلطیاں دھل گئیں اور انہیں وسیع پیمانے پر عوامی مقبولیت حاصل ہوئی، شر کے اندر پوشیدہ خیر (Blessing In Disguise)اسے ہی کہتے ہیں۔ حکومت اور فوج کے درمیان تعلقات جس پوزیشن پر تھے، وہ بھی اب پہلے جیسے نہیں رہے،حکومتی وزرا جتنا مرضی ایک ہی پیج پر ہونے کے دعوے کرتے رہیں، ان کے مابین ایسی دراڑ آ گئی، جسے شاید خاصے عرصے تک درست نہ کیا جاسکے۔اس بحران میں کئی سبق موجود ہیں، جنہیں سمجھنے اور یاد رکھنے کی ضرورت ہے، ہر فریق کے لئے اس میں کچھ نہ کچھ موجود ہے۔ 
ابتدا میڈیا سے کرتے ہیں کہ یہ ہلچل اسی کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ میڈیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اس کا کام خبر دینا، لوگوں کی آگہی میں اضافہ کرنا اور ایشوز کی تفہیم کرنا ہے۔ اسے یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ایشوز پیدا کرنے کی کوشش کرے اور اپنی مرضی کا نیشنل ایجنڈا سیٹ کرے۔ کوئی بھی میڈیا ہائوس خواہ وہ کس قدر طاقتور ہو، اس کے حلقہ اثر میں جتنے بھی قارئین اور ناظرین موجود ہوں، وہ حکومتیں گرا اور بنا نہیں سکتا۔اس کی تمام تر قوت ایک خاص دائرے تک ہی محدود ہے،وہ ایک حد سے آگے جا کر قومی اداروں کو نشانہ نہیں بنا سکتا ، انہیں تباہ کرنے کی کوشش خود اس کے لئے مہلک ثابت ہوتی ہے۔ میڈیا کو اپنے دائرہ کار میں رہ کر ہی کام کرنا چاہیے۔ یہ بنیادی بات بھی ذہن نشین کرنی ہوگی کہ ہر معاشرے کے کچھ بنیادی فیبرکس ہوتے ہیں، اس کے اجزائے ترکیبی میں بعض ایسی اخلاقی روایات شامل ہیں، جن سے لا تعلق نہیں رہا جا سکتا۔ ہرملک کے اخبارات اور ٹی وی چینلز کو اپنے سماج کے اس بنیادی جوہر، ان روایات کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو معاشرے کے کئی طبقات میں اشتعال پیدا ہوتا ہے۔ فوری طور پر وہ اگر کچھ نہ کر پائیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ سب اچھا ہے۔ بے بسی اور فرسٹریشن کی وہ کیفیت اشتعال میں اضافہ کرتی ہے، وہ لاوا اندر ہی اندر کھولتا رہتا ہے، جب صورتحال بدلتی ہے ، تب وہ جوالا مکھی ایک ہولناک دھماکے کے ساتھ پھٹ پڑتا ہے۔ اس وقت بعض لوگوںکوحیرت ہوتی ہے کہ یہ اچانک کیا ہوگیا؟ وہ یہ سمجھ نہیں پاتے کہ لاوا اتنے عرصے سے پک رہا تھا، ظاہر اب ہوا ہے۔ اس بحران کے دوسرے فیز میں بھی ایسا ہی ہوا۔ ایک عرصے سے لوگ نالاں تھے کہ انٹرٹینمنٹ چینلز پر ریٹنگ کی دوڑ میں نہایت قابل اعتراض مواد نشرہو رہا ہے۔ لوگ حیرت سے ایک دوسرے سے پوچھتے کہ ان چینلز کو کیا ہوگیا ہے؟پرنٹ میڈیا میںاس پر مسلسل تنقید ہوتی رہی، انہی کالموں میں بھی یہ ایشو کئی بار اٹھایا گیا۔ ہم حیرت زدہ تھے کہ اس طوفان بدتمیزی کو روکنے والا کوئی نہیں ؟ پھر یہی ہوا جس کا خطرہ تھا۔ ایسا لگتا ہے جیسے قدرت کا دست غیبی حرکت میں آیا ہے۔ سبق سب کو سیکھنا ہوگا۔ اپنے شوز کو پاپولر ضرور بنائیں ،مگر پاکستانی سماج کی اخلاقی 
روایات کی قیمت پر یہ کام نہ کیا جائے۔ میڈیا کو اپنے مواد پر ایڈیٹوریل کنٹرول بڑھانا ہوگا۔ بیشتر اینکرز کسی بھی قسم کی قدغن اور پابندی سے بے نیاز ہیں، انہیں کسی ڈسپلن میں لانا ہوگا،ورنہ کسی بھی ایسے ویسے پروگرام سے کوئی اور آگ بھڑک اٹھے گی۔بعض حلقے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ میڈیا منقسم ہوگیا۔ میڈیا کو اپنی صفوں میں احتساب اور ایک مضبوط ضابطہ اخلاق طے کرنا ہوگا۔ یہ کام وہ خود کریں تو بہتر ہے، ورنہ ان کی توقعات سے بھی زیادہ سخت شکنجہ ان پر مسلط ہوجائے گا۔
حکومت کا رویہ اس حوالے سے خاصا مایوس کن رہا۔ حکمرانوں نے تباہ کن غلطیاں کیں۔ پرائم منسٹر اور حکومت کو فوری طور پر آئی ایس آئی کا دفاع کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ میڈیا کے لوگ جانتے ہیں کہ سیاسی قیادت کے خلاف اگر اس نوعیت کی کوئی ذاتیات پر مبنی مہم چلتی تو اسے فوری طور پر رکوایا جاتا۔ آئی ایس آئی کے معاملے میں کئی گھنٹوں تک حکومت خاموش رہی۔ وزیراعظم نے بہت دیر سے ایک رسمی بیان جاری کیا۔ فورسز نے قوانین کی پابندی کرتے ہوئے وزارت دفاع کی وساطت سے پیمرا میں درخواست بھیجی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس پر فوری نوٹس جاری ہوتا اور اگلے چند دنوں میں کارروائی ہوتی۔ جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ ایک مہینہ گزر گیا ،مگر ابھی 
تک پیمرا کے حکومتی ارکان چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ ایک بچہ بھی اندازہ کر سکتا ہے کہ پیمرا حکومتی دبائو پر اس ایشو کو لٹکا رہا ہے۔ حکومت اس بحران میں نیوٹرل کردار ادا نہیں کر رہی تھی۔ اس نے قومی اداروں کا ساتھ دینے کے بجائے ان کو نشانہ بنانے والوں کو ترجیح دی۔ یہ رویہ سمجھ سے بالا تر ہے۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ جلد از جلد اس ایشوپر فیصلہ کراتی، جو بھی سزا قانون کے مطابق بنتی ہے ،وہ دی جاتی تو یہ ایشو اتنا طول نہ کھینچتا۔ چرچل نے ایک بار کہا تھا کہ کسی بھی لیڈر کی ہزار خامیاں برداشت کی جا سکتی ہیں،مگر اس کا کسی معاملے میں فیصلہ نہ لینا اور نتائج کے خوف سے لٹکائے رکھنا ایسی غلطی ہے،جو قابل معافی نہیں۔ موجودہ حکمران اس بحران میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ یہ محسوس ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن میں دانش مند لوگ موجود نہیں، یا ان کی سنی نہیں جاتی۔ دونوں صورتیں ہی کسی حکومت کے لئے تباہ کن ثابت ہوتی ہیں۔ ہمارے قومی اداروں کو اللہ کا شکر کرنا چاہیے کہ ان پر ہونے والے رکیک حملے نے ان کے لئے ایسی عوامی لہر پیدا کی، جس کی پچھلے دس پندرہ برسوں میں مثال نہیں ملتی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ جو چاہیں کریں، حقیقت یہ ہے کہ چونکہ اس معاملے میں وہ مظلوم تھے، اس لئے میڈیا کا غالب حصہ، سیاسی قوتیں اور عوامی حلقے ان کے حق میں کھڑے ہوئے۔ اس سے یہ سمجھنا اور سیکھنا ہوگا کہ اگر عوامی تمنائوں اور خواہشات کے ساتھ ہم آہنگ رہا جائے تو اس سے کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر مقبولیت حاصل ہوسکتی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں