عہد جو بے ثمر نہیں رہے

انسانی زندگی کے کئی پہلو عجب انداز کی پراسراریت لئے ہیں، ان کے بارے میں کچھ حتمی بات کہنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ہر آدمی اپنے ذاتی تجربے ہی سے انہیں سمجھ اور پرکھ سکتا ہے۔ میرے جیسے لوگوں کے لئے جو ہر بات کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کے خواہاں ہوتے ہیں، ان معاملات کو سمجھنا آسان نہیں ہوتا،پھر آہستہ آہستہ سمجھ آئی کہ ان باتوں کو جانچنے کے لئے صرف عقل کی کسوٹی کافی نہیں، ذاتی تجربہ زیادہ اہم ہے۔ 
اولیاء کے قصوں اور روحانیت کی کتابوں میں ایسی بے شمار مثالیں ملتی ہیں کہ کسی بزرگ نے اﷲ تعالیٰ کے ساتھ کوئی عہد کیا اور پھر رب تعالیٰ نے ان صاحب کی کمٹمنٹ اور اخلاص کا بار بار حیران کن انداز میں جواب دیا اور انہیں ہر بار سرخرو کیا۔ تین چار سال پہلے میرے ذاتی تجربے اور مشاہدے میں ایسے بعض واقعات آئے، ان پر کالم لکھا تو پھر بہت سے لوگوں نے مزید واقعات شیئر کیے، انہیں پڑھ اور سن کر روح سرشار ہوجاتی تھی۔ یوکرائن میں مقیم ایک پاکستانی کبھی کبھار کسی کالم کے فیڈ بیک کے حوالے سے فون کر لیا کرتے تھے۔ ایک بار دوران گفتگو ان سے پوچھا کہ آپ یوکرائن کیسے پہنچے؟ انہوں نے بتایا کہ وہ ایم بی اے ہیں اور ایک بینک میں ملازمت کرتے تھے، پھر سب چھوڑ چھاڑ کر اپنی تقدیر آزمانے یوکرائن جا پہنچے۔ وہاں حالات خاصے خراب رہے ، نوبت فاقوں تک آ پہنچی۔ ایک روز ان کے ذہن میں نجانے کیا بات سمائی کہ قلم اٹھایا اور اﷲتعالیٰ کے ساتھ ایک عہد تحریر کیا۔ انہوں نے کمٹمنٹ کی کہ اگر میرے حالات بدل گئے اور رزق کشادہ ہوگیا تو میں اپنی آمدنی کا ایک تہائی یعنی 33فیصد حصہ رب تعالیٰ کے نام یعنی چیریٹی کے لئے صرف کروں گا۔ وہ صاحب بتاتے ہیں کہ جس روز میں نے یہ عہد باقاعدہ طور پر تحریر کیا، اس وقت یہ حالت تھی کہ میرا قلم اپنا تھا یا جسم پر پہنے کپڑے تھے، باقی کچھ بھی نہیں تھا۔ اگلے چند ہی دنوں میں البتہ ڈرامائی تبدیلی آئی۔ انہیں ایک ملازمت مل گئی، دو تین ہفتوں میں مزید اچھی ملازمت مل گئی۔ پہلی تنخواہ پر انہوں نے اس کا ایک تہائی حصہ الگ کر کے چیریٹی کے لئے رکھ دیا۔ یہ سلسلہ جاری رکھا، تین چار ماہ میں ایسا موقعہ ملا کہ اپنے ذاتی کاروبار کی آپشن پیدا ہو گئی۔ انہوںنے رسک لینے کا فیصلہ کر لیا، محنت ڈٹ کر کی اور ہر ماہ بڑی پابندی اور دیانت داری کے ساتھ آمدنی کا حساب کر کے ایک تہائی الگ کر لیتے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ چیریٹی کے لئے مختص ایک تہائی بھی بڑھتا گیا اور اس کی برکت کے طور پر کل آمدنی بھی بڑھ گئی۔ چند ہی برسوں میں یہ صورتحال ہوگئی کہ ملک کی دوسری بڑی فروٹ کمپنی کی ملکیت، ہزاروں ایکڑ پر مختص زرعی فارم اور نجانے کہاں کہاں کاروبار پہنچ گیا۔ 
وہ صاحب اپنی داستان سناتے رہے ، میں حیرت زدہ سنتا رہا، ان سے پوچھا کہ اس عہد کا کیا ہوا؟ ہنس کر بولے ، صاحب وہی تو اصل مشکل ہوچکی ہے، اب وہ ایک تہائی حصہ لاکھوں میں جا چکا ہے ،ہر مہینے اسے مختلف اداروں کو دیتا ہوں، پاکستان میں بھی کئی اداروں کو سپورٹ کیا، ایک ٹرسٹ بنانے کا ارادہ ہے، اللہ تعالیٰ نے اتنی کرم نوازی کی، عہد شکنی میں بھی نہیں کرنا چاہتا۔ وہ مجھ سے مشورہ مانگنے لگے کہ کیا کرنا چاہیے ؟ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ میں تو اداروں کو مضبوط کرنے کا حامی ہوں، جو چند ایک اچھے ادارے کام کر رہے ہیں، ڈاکٹر امجد ثاقب کی اخوت ، جماعت اسلامی کی الخدمت، غزالی ٹرسٹ سکول، ڈاکٹر انتظار حسین بٹ کی آنکھوں کے مفت آپریشن کرنے والی تنظیم پی اوبی، جھگی والے بچوں کے لئے سکول بنانے والا ادارہ ڈورز آف اویئرنیس وغیرہ، یہ تمام ایسے ادارے ہیں، جن کو سپورٹ کرنا چاہیے۔ ان صاحب نے شکریہ ادا کیا۔ اب خاصے عرصے سے ان سے رابطہ نہیں ہوا، معلوم نہیں کہ یوکرائن کے حالیہ بحران میں ان پر کیا گزری ، مجھے معلوم نہیں کہ وہ یورپ کا حصہ بننے والے یوکرائن میں تھے یا روس کا حصہ بن جانے والے کریمیا میں کام کر رہے تھے ؟
ایک بار یہ واقعہ نقل کیا تو کئی دوستوں نے اپنے اپنے تجربات شیئر کیے، بہت سوں نے عہد کیا کہ وہ اپنی آمدنی کا پانچ فیصد یا دس فیصد چیریٹی کے لئے نکالیں گے۔ جنہوں نے 
استقامت سے اس پر عمل کیا، وہ اس کے حیران کن نتائج بتاتے ہیں۔ ایک واقعہ تو میرے سامنے کا ہے۔ میں پہلے جس اخبار میں کام کرتا تھا، اس کے دفتر کے ساتھ ایک مکینک کی دکان تھی، پہلے ان صاحب کا بہنوئی چلاتا تھا، وہ نہیں چلا پایا تو وہ صاحب خود آ بیٹھے۔ بھلے مانس سے سیدھے سادے آدمی تھے۔ دو تین ماہ میں دکان بے پناہ چل پڑی، سامنے گاڑیوں کا ہجوم کھڑا ہوتا، کئی مکینک ملازم تھے۔ ایک بار میں نے حیرت سے پوچھا کہ اسی جگہ پر آپ کے بہنوئی تین چار سال سے دکان نہیں چلا پائے، آپ نے کیا جادو کر دیا کہ فیل ہوئی دکان چلا دی۔ کہنے لگے، ''مجھے تو اس کاروبار کا بھی کوئی خاص آئیڈیا نہیں، ایمانداری سے کام کر رہا ہوں، ایک بزرگ کے مشورے پر البتہ ایک کام پابندی سے کر رہا ہوں۔اپنی آمدنی کا پانچ فیصد حصہ روز کے روز ہی الگ کر لیتا ہوں، اسے دو چار دنوں کے بعد کسی ادارے کو بطور عطیہ دے دیتا ہوںیا پھر عزیز واقارب میں سے کسی کی مدد کر دیتا ہوں۔ یہ عادت اتنی پختہ ہوگئی ہے کہ چاہے دکان جتنی دیر سے بند ہو، سیل کا حساب کر کے اپنے منافع سے اللہ کے بندوں کا حصہ روزانہ کی بنیاد پر الگ کر کے گھر جاتا ہوں۔ اللہ نے اس میں کچھ ایسی برکت دی ہے کہ مجھے خود بھی اس قدر تیزی سے بڑھتے ہوئے کاروبار پر حیرت ہو رہی ہے‘‘۔ یہ دو تین ماہ پہلے میرے ساتھ ایک اور دلچسپ 
واقعہ ہوا، فیس بک پر ایک خاتون نے میسج کیا، میں انہیں جانتا بھی نہیں تھا۔ انہوں نے لکھا کہ میں نے آپ کا کالم پڑھ کر وہ کمٹمنٹ کر لی تھی ،میں گھر میں رہتی ہوں، آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، سوچا کہ اللہ کوئی سبب بنا دے تو میں بھی اپنا عہد نبھائوں گی۔ مجھے لکھنے لکھانے کا شوق ہے، اب ایک ڈائجسٹ میں میرا ناول شائع ہو رہا ہے، انہوںنے مجھے پہلا چیک بھیجا ہے، میں چاہتی ہوں کہ اپنے وعدے کے مطابق اس کا ایک حصہ کسی نیک کام میں صرف کروں، مشورہ دیں کہ کس چیریٹی ادارے کی مدد کروں؟یہ پڑھ کر آنکھیں بھیگ گئیں۔ میں نے سوچا کہ اصل بات یقین اور اخلاص کی ہے، رب تعالیٰ پر جس کسی نے بھروسہ کیا، اس نے اسے کبھی تنہا نہیں چھوڑا، اس ذات سے بڑھ کر عہد نبھانے والا اور سخی کوئی نہیں۔
ماہ رمضان جاری ہے، اس مبارک ماہ میں اپنے مستقبل سے متعلق تو کوئی عہد کرنا ہی چاہیے ،مگر سب سے زیادہ ضرورت ہے کہ اپنی آمدنی کا ایک حصہ شمالی وزیرستان کے لاکھوں متاثرین کے لئے مختص کیا جائے۔ بنوں ، ٹانک اور اردگرد کے کیمپوں میں لاوارث پڑے ہزاروں ،لاکھوں خاندان مدد کا انتظار کر رہے ہیں۔الخدمت،فلاح انسانیت،اخوت، ڈاکٹر آصف جاہ اور ان جیسے بے شمار لوگ ادھر پہنچے ہیں، مگر ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ پچھلے برسوں میں جو آزمائشیں آئیں ، ان سب میں حکومت کے بجائے عوامی امداد ہی سے مصیبت زدگان کے آنسو پونچھے گئے۔ اس بار ہم سیاسی جنگ وجدل میں جتے سیاستدانوں کی طرف کیوں دیکھ رہے ہیں ؟ یہ ہمارا فرض ہے، ہمیں مل کر ہی نبھانا ہوگا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں