بنیادی مسائل

پچھلے دس بارہ دنوں سے دھرنا ہی ہمارے اعصاب پر چھایا ہوا ہے، مسلسل اسی پر لکھا جا رہا ہے۔دھرنے پرہم بھی بات کریں گے ،مگر پہلے ایک چھوٹی سی کہانی سن لیں۔ ایسی کہانی جس میں درد واندوہ بھی چھپا ہے اور ہمارے سیکھنے کے لئے سبق بھی۔اس قصے کے راوی ڈاکٹر امجد ثاقب ہیں۔ میرے جیسے کالم نگاراپنے کالموں میں بسا اوقات کہانیاں بیان کرتے ہیں، ان میں سے بعض زیب داستاں کے لئے بھی ہوں گی،مگر بیشترحقیقی ہوتی ہیں۔ یہ اور بات کہ بہت سے قارئین کہانیاں سنانے والوں سے اس قدر تنگ آ چکے کہ وہ ہر قصے کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب البتہ ثقہ راوی ہیں، ان کی بات پر یقین کر لینا چاہیے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب کا اصل میدان توسماجی خدمت ہے۔وہ اور ان کی تنظیم اخوت اعتبار اور اعتماد کا استعارہ بن چکی ہے۔ ڈاکٹر امجدنے دس گیارہ سال پہلے اخوت کے نام سے بلاسود چھوٹے قرضے دینے کا ایسا پودا لگایا جو آج تناور درخت بن چکا ہے۔ اخوت کا کام ماشاء اللہ چند ہی برسوں میں اس قدر پھیل چکا ہے کہ یقین نہیں آتا۔ پانچ لاکھ سے زیادہ گھرانوں کوچھوٹے قرضے یعنی مائیکر وکریڈٹ فنانس کے ذریعے اپنے پیروں پر کھڑا کیاجا چکا ہے۔ اخوت ہیلتھ پراجیکٹ کے تحت کئی ڈسپنسریاں چل رہی ہیں، سب سے بڑھ کر اخوت یونیورسٹی کا پراجیکٹ، جو اپنی نوعیت کا منفرد منصوبہ ہے۔ مجھے آج بھی چند سال پہلے کی وہ شام یاد ہے ،جب ڈاکٹر امجداخوت کے ایک اور بانی ڈائریکٹر پروفیسر ہمایوں احسان کے ساتھ کونسل آف نیشنل افئیرزکی ہفتہ وار میٹنگ میں آئے۔ ڈاکٹر امجد نے اخوت کے پراجیکٹ کی مکمل تفصیل بیان کی۔ اس وقت تک بمشکل لاکھ دو لاکھ ہی قرضہ دیا گیا تھا۔مجھے یاد ہے کہ جب ڈاکٹر امجد نے اپنی مسحور کن تقریر ختم کی تو سب شرکا ء کی آنکھیں جہاںمسرت سے چمک رہی تھیں، وہاں ان میں بے یقینی بھی ہویدا تھی۔ اس وقت کم ہی لوگوں کو یقین ہوگا کہ اخوت اس قدر بڑی کامیابیاں حاصل کر پائے گی۔ تاہم ڈاکٹر امجد،ان کے ساتھیوںپروفیسر ہمایوں احسان، ڈاکٹرا ظہار ہاشمی، ڈاکٹر کامران شمس، رانجھا صاحب اور دیگر ان نے ایسا کر دکھایا۔ڈاکٹر امجد ثاقب سماجی کاموں کے ساتھ ساتھ لکھنے سے بھی شغف رکھتے ہیں اور دو تین بڑی عمدہ کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کا سفرنامہ نیپال''گوتم کے دیس میں‘‘کئی برس پہلے پڑھا۔'' اخوت کا سفر‘‘ پچھلے سال شائع ہوئی۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کی ایک تحریر گزشتہ روز فیس بک پر کسی دوست نے شئیر کی تھی۔ 
ڈاکٹر صاحب نے ایک دوست کا واقعہ تحریر کیا جو دس گیارہ برس پہلے کولمبیا یونیورسٹی کے ایک تربیتی کورس میں شامل ہوا تھا۔ کورس کے بعد بیس بائیس طلبہ کے اس گروپ کو امریکہ کے مختلف ٹاپ کے کاروباری اداروں کا وزٹ بھی کرایا گیا۔ ان میں نیویارک کے مشہور راک فیلر سنٹر میں واقع دنیا کی بہت اہم ملٹی نیشنل کمپنی جنرل الیکٹرک کمپنی کا دفتر بھی تھا۔ جنرل الیکٹرک بہت بڑی کمپنی ہے، اس کی پراڈکٹس میں بے شمار چیزیں شامل ہیں، اس کے اثاثہ جات ایک سو ارب ڈالر سے زیادہ ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا سالانہ بجٹ کئی ممالک کے سالانہ بجٹ سے زیادہ ہوتا ہے۔ جنرل الیکٹرک سو ممالک میں کاروبارکرتی ہے، پاکستان ان میں شامل نہیں۔ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو نے اپنی کمپنی کے حوالے سے بریفنگ دی۔ سوال جواب کے سیشن میں ڈاکٹر امجد کے پاکستانی دوست نے سوال کیا کہ ہم پاکستان کو کس طرح جنرل الیکٹرک کے لئے پرکشش اور قابل توجہ بنا سکتے ہیں؟ جنرل الیکٹر ک کے چیف ایگزیکٹو نے گوروں کے مخصوص انداز میں صاف کہہ دیا کہ ''ہماری کمپنی کے پاکستان میں کاروبار نہ کرنے کی تین وجوہ ہیں۔پاکستان میں ہمارے معیار کا ہیومن ریسورس نہیں ہے۔ ایسے محنتی ذہین اور بلا صلاحیت لوگ جو کاروبارکو عروج پر لے جائیں،یہاں موجود نہیں۔دوسری خامی امن وامان اور سیاسی استحکام کی عدم موجودگی ہے۔ امن اور سیاسی استحکام کے بغیر کاروبار نہیں ہوسکتا۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے شئیر ہولڈر کو جواب دہ ہیں، ہمارے پاس آپ کی لیڈرشپ کو رشوت (کمیشن)دینے کے لئے پیسے نہیں۔ ‘‘
اعلیٰ کوالٹی کا ہیومن ریسورس نہ ہونا،بدامنی اور غیر یقینی سیاسی صورتحال اور کرپٹ لیڈرشپ واقعی ایسی تین خامیاں ہیں ،جن کی وجہ سے بڑے پیمانے پر غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ اسی وجہ سے ہمیں چین اور ترکی کی کمپنیوں پر اکتفا کرنا پڑتا ہے اور انہیں بھی غیرمعمولی سہولتیں دینی پڑتی ہیں۔اگلے روزہمارے ساتھی کالم نگار منیر بلوچ نے انکشاف کیا ہے کہ چولستان میں جاری قائداعظم سولر پراجیکٹ ،جس کا پنجاب حکومت کروڑوں کے اشتہار چھاپ کر کریڈٹ لیتی رہتی ہے، میں ٹیرف خوفناک حد تک زیادہ ہے، بنگلہ دیش میں اس سے خاصے کم ٹیرف پر شمسی بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔ 
دھرنے کا سلسلہ تو ابھی جاری ہے، مذاکرات بھی کسی نہ کسی سطح پر چل رہے ہیں ،مگر کارکنوں کو اکٹھا رکھنے کے لئے دونوں لیڈروں کی شعلہ بیانی بھی جاری ہے، کوئی سفید کفن دکھا کر اپنے عزم کا اظہا ر کر تا ہے ،مگر الٹی میٹم پھر دو دن کا دے دیتا ہے تو کوئی چٹکلے بازی کا سہارا لے رہا ہے ۔ ادھر سابق ایڈیشنل سیکرٹری الیکشن کمیشن افضل خان کی دھماکہ خیز انٹری نے ہر ایک کو ہلا کر رکھ دیا ۔ انہوں نے اگرچہ ٹھوس ثبوت توپیش نہیں کیا، مگرمجموعی تاثر ایسا قائم کر دیا کہ پچھلے سال مئی کے الیکشن پر اعتبار بالکل ہی ختم ہو رہا ہے ۔ دھرنے میں شامل کارکنوںاور ان کے مایوس ہوتے لیڈروں کے حوصلوں کواس سے نئی توانائی ملے گی۔ مسلم لیگ ن نے جس قدر اپنے مینڈیٹ کو بچانے کی کوشش کی، اسی قدر وہ لرز رہا ہے۔ن لیگ نے مختلف شہروں میں ریلیوں کی صورت میں سیاسی ایکٹوٹی شروع کی ہے،بعض لوگوں کے خیال میں یہ مشورہ جناب زرداری کا ہے، واللہ اعلم۔ ویسے سیاسی ایجی ٹیشن کے جواب میں سیاسی قوت کا مظاہرہ کبھی کامیاب نہیں رہتا۔ پی این اے کی تحریک میں پیپلزپارٹی نے بھی ایسا کرنے کی کوشش کی تھی، اس سے معاملات خراب ہی ہوئے تھے۔ اب بھی کسی شہر میں ن لیگی کارکنوں اور تحریک انصاف کے کارکنوں کا ٹکرائو ہوا اور خدانخواستہ قیمتی جانیں چلی گئیں تو اصل نقصان حکومت ہی کا ہوگا۔
غلط حکمت عملی اور غیر حقیقی حکمت عملی کے باوجود اس دھرنے نے بعض اہم ایشوز کو نمایاں ضرور کیا۔''نیا پاکستان ‘‘تو پتہ نہیں بنے گایا نہیں، لیکن اگر ہمارے اہل دانش اور فعال طبقات دانشمندی کا مظاہرہ کریں تو ایک بدلا ہوا پاکستان تخلیق کر سکتے ہیں۔ا یسا پاکستان جس میں بنیادی مسائل دور کئے جائیں، ظالمانہ اور استحصالی نظام تبدیل ہو، اعلیٰ معیار کا ہیومن ریسورس تیار ہو، داخلی استحکام ہو اور کرپشن سے پاک ماحول موجود ہو۔ ایسا ماحول ،جس کے بعد جنرل الیکٹرک جیسی کمپنیوں کو پاکستان آنے میں تامل نہ ہو، وہ خوشی خوشی ادھر کا رخ کریں۔ سیاسی جماعتوں کے روپ میں سیاسی سلطنتیں قائم کرنے والے لیڈروں سے اس کی توقع تو نہیں، عوامی بیداری، میڈیا، انٹیلی جنشیا اور فعال طبقات کا دبائو مگر اس خواب کی تعبیر ممکن بنا سکتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں