آئس بکٹ اور رائس بکٹ چیلنجز

آج کل سوشل میڈیا پر ایک چیریٹی مہم آئس بکٹ چیلنج (Ice Bucket Challenge)بڑے زور شور سے چلائی جا رہی ہے۔ پچھلے دو ماہ کے دوران امریکہ اور یورپ میں ہزاروں لوگوں نے اس میں حصہ لیا۔ اس میں برفیلے پانی کی ایک بالٹی اپنے سر پر ڈالی جاتی ہے یا کسی اور کو اپنے سر پر یہ بالٹی انڈیلنے کے لئے کہا جاتا ہے۔ہر شخص ایک یا دو لوگوں کو اس چیلنج کے لئے نامزد بھی کرتا ہے۔ اصول کے مطابق جس کو چیلنج دیا گیا ،و ہ اگلے چوبیس گھنٹے کے دوران ایک ویڈیو بنوا کر فیس بک ، ٹوئٹر یا دوسری سوشل میڈیا سائٹس پر پوسٹ کرے گا، جس میں پہلے تو وہ چیلنج قبول کرنے کا اعلان کرے اور پھر اپنے سرپر آئس واٹر کی بالٹی ڈالے یا ڈلوائے، اس کے بعد اس شخص کانام بتائے جسے وہ اس چیلنج کے لئے نامزد کر رہا ہے۔ایک پیچیدہ لاعلاج بیماری کے لئے ریسرچ کی خاطر فنڈز جمع کرنے کے لئے یہ سب کیا جا رہا ہے۔ ہر شخص جو آئس بکٹ چیلنج قبول کرے گا، وہ کچھ ڈالر عطیے میں بھی دے گا، بعض شہروں میں بالٹی سر پر ڈالنے والا دس ڈالر عطیہ دے گا اور انکار کی صورت میں اسے سو ڈالر دینا ہوں گے۔ یاد رہے کہ یہ سب رضاکارانہ طور پر ، اپنی خوشی سے کیا جا رہا ہے۔ امریکہ میں یہ مہم اس وقت زیادہ تیزی سے پھیلی جب اس میں ایک معروف مارننگ شو کے دورا ن لائیو آئس بکٹ چیلنج کا مظاہرہ کیا گیا۔ پھر گالف اور بیس بال کے کئی مشہور کھلاڑیوں نے بھی اس چیلنج میں عملی طور پر حصہ لیا۔ یوں یہ مہم زور پکڑتی گئی۔نیویارک ٹائمز کے مطابق یکم جون سے تیرہ اگست کے دوران بارہ لاکھ افراد نے اپنی ویڈیوز شیئر کیں، جبکہ ٹوئٹر پر دو ملین کے قریب لوگوںنے ایسا کیا۔ سابق امریکی جارج بش کو یہ چیلنج دیا گیا، انہوںنے اسے قبول کر کے پورا کیا اور سابق صدر بل کلنٹن کو اس چیلنج کے لئے نامزد کیا۔ امریکی صدر باراک اوباما کو بھی اس چیلنج کے لئے نامزد کیا گیا، مگر انہوںنے اسے پورا کرنے کے بجائے سو ڈالر بطور عطیہ دینے کو ترجیح دی۔ ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ جس بیماری Amyotrophic Lateral Sclerosis (ALS)کے لئے یہ مہم چلائی جار ہی ہے، اس کی عوامی حلقوں میں بہت زیادہ تشہیر ہوئی ہے۔ انسائیکلو وکی پیڈیا کے مطابق اس بیماری کے آرٹیکل کو روزانہ آٹھ دس ہزار لوگ پڑھتے ہیں، یہ تعداد لاکھوں میں پہنچ چکی ہے۔خاکسار نے بھی وہ آرٹیکل پڑھنے اور سمجھنے کی اپنی سی کوشش کی ہے، مشکل اصطلاحات کے باعث کچھ زیادہ توپلے نہیں پڑا،اتنا اندازہ ہوگیا کہ اس بیماری میں مسلز ضائع یا ناکارہ Muscle Wastingہوجاتی ہے، جس کے باعث بہت زیادہ کمزوری ہوجاتی ہے۔ اس کے باعث بولنے، نگلنے اور سانس لینے تک میں دشواری محسوس ہوتی ہے۔
آئس بکٹ چیلنج پر امریکہ میں بعض حلقوں کی جانب سے تنقید بھی ہور ہی ہے، حفظان صحت کے حوالے سے بھی نکتہ چینی ہوئی کہ برفیلے پانی سے بیمار ہونے کا خدشہ موجود رہتا ہے۔ بعض لوگوں کی اس چیریٹی مہم کی غیر سنجیدگی پر اعتراض ہے کہ بہت سے لوگ کسی کی مدد کرنے کی نیت سے زیادہ مزا اور مستی لینے کے لئے اس چیلنج میں شامل ہور ہے ہیں۔ کیلی فورنیا ریاست میں پانی کا کمیابی ایک مسئلہ ہے، وہاں بعض لوگوں نے اعتراض کیا ہے کہ اس طرح خواہ مخواہ کئی بالٹی پانی ضائع ہور ہا ہے۔ ان تمام اعتراضات کے باوجود یہ بہرحال حقیقت ہے کہ اس تحریک نے سوشل میڈیا ورلڈ کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
آئس بکٹ چیلنج کی طرح کا ایک چیلنج بھارت میں رائس بکٹ چیلنج کی صورت میں شروع کیا گیا۔ حیدرآباد سے اس کا آغاز ہوا۔ اس میں نادار افراد کے لئے چاول کی بھری بالٹی یا دیگچی عطیہ کرنے کی مہم چلائی جار ہی ہے۔ وہاں کی ایک خاتون صحافی منجوکلاندھی نے اس کا آغاز کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت جیسے ملک میں جہاں صاف پانی میسر نہیں، وہاں آئس بکٹ جیسی مہم عیاشی اور اسراف کے مترادف ہے۔ اس کے برعکس بھارت میں کروڑوں لوگوں کو ایک وقت کا کھانا بھی نہیں ملتا، اس لئے اگر انہیںپکے یا کچے چاول مل جائیں تو ایک ، دو وقت ان کا گھرانہ پیٹ بھر کر کھا لے گا۔ منجو 
کے بقول رائس بکٹ کی اصطلاح انہوںنے آئس بکٹ سے ہم وزن رکھنے کے لئے بنائی، ورنہ اس کا کوئی بھی نام ہوسکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ آپ کسی کو بھی چاولوں کا ایک چھوٹا تھیلا دے سکتے ہیں،اپنے ملازم ،ڈرائیور، کسی ریڑھی والے کو، گلی میں گھومتے کسی بچے کو ... کوئی بھی نادار فرد جس کے پاس کھانے کو کچھ نہ ہو۔ اصول بہت سادہ ہے ، کسی کو چاول کی بالٹی دیں، تصویر کھنچوائیں، ا سے پوسٹ کریں اور چار مزید لوگوں کو ایسا کرنے کا چیلنج دیں۔ اس مہم کوابھی آئس بکٹ چیلنج جیسی مقبولیت تو نہیںملی، مگر اس نے مومینٹم پکڑنا شروع کر دیا ہے، اس کے فیس بک صفحے کو ہزاروں افراد نے لائیک کیا، بہت سے لوگوںنے ایسا کرنا شروع کر دیا۔ گزشتہ روز بھارت میں جرمن سفیر نے بھی رائس بکٹ مہم میں حصہ لیا۔ انہوںنے ایک دیہات کے کئی سو گھرانو ں میں پانچ پانچ کلو کچے چاولوں کے تھیلے تقسیم کئے۔ یہ چاول ایک پلاسٹک کی بالٹی میں ڈال کر بانٹے گئے۔توقع ہے کہ بہت جلد بالی وڈ فنکار اور کھلاڑی بھی اس طرف متوجہ ہوں گے، ان کی شمولیت سے اس مہم میں زیادہ تیزی آئے گی۔ 
ان کی دیکھا دیکھی سوشل میڈیا پر ایک اور دلچسپ مہم بک بکٹ چیلنج بھی شروع کیا گیا ہے۔ جسے اس چیلنج کے لئے نامزد کیا جائے ، وہ اگلے چوبیس گھنٹوں کے دوران ایسی دس کتابوں کے نام بتائے گا، جنہوںنے اس کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ ایک فیس بک فرینڈ نے مجھے بھی اس بک بکٹ چیلنج کے لئے نامزد کیا۔ میں اس بک بکٹ چیلنج کے بارے میںعلیحدہ سے کالم لکھنا چاہتا ہوں ، مگر آئس بکٹ اور رائس بکٹ چیلنج کی تفصیل پڑھتے ہوئے شدت سے یہ احساس ہوا کہ ہمارے ہاں بھی اسی طرح کی کوئی مہم چلنی چاہیے۔ ہمارے ہاںغربت بہت زیادہ ہے، رائس بکٹ چیلنج کی جتنی ضرورت بھارت میں ہے،ہمارے ہاں اس سے کم نہیں، مگر آج کل سیلاب کی صورت میں جو بڑی آفت نازل ہوئی ہے، وہ ترجیحی توجہ چاہتی ہے۔ اخوت اور بعض دوسری تنظیمیں عطیات لینے کے حوالے سے مختلف اعلانات کررہی ہیں، سیلاب زدہ علاقوں میں کھانا یا راشن فراہم کرنے کے لئے دیگ پکوانے کے مختلف پیکیج ہیں، جو بھی چاہے وہ اپنا عطیہ دے کر یہ ثواب کما سکتا ہے ۔ اس کے باوجود چھوٹے لیول پر عطیات اکٹھے کرنے کی کوئی مہم چلنی چاہیے، جس طرح کسی خاص نمبر پر میسیج کرنے سے دس بیس روپے کٹ جائیں۔ اسی طرز پر سیلاب زدہ علاقوں میں راشن اور دیگر سامان فراہم کرنے کے لئے اخوت، الخدمت اور فلاح انسانیت جیسی تنظیمیں اپنے طور پر یا مل کر کوئی قدم اٹھائیں۔ حکومت بھی ایسا کر سکتی ہے ،مگر حکومتی اہلکاروں پر عوام اعتماد نہیں کرتے، اگر پنجاب، دوسری کوئی صوبائی حکومت یا وفاقی حکومت ایسا کرے تو پھر یہ سامان تقسیم کرنے کی ذمہ داری ان نیک نام تنظیموں کو دینی چاہئیں، جن پر لوگ اعتماد کرتے اور جنہیں آنکھیں بند کر کے عطیات دیتے ہیں۔ جو بھی ایسا کرے ،مگر کچھ ہونا ضرور چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں