بات کہاں سے کہاں چلی گئی

اسلام آباد میں بچھی سیاسی بساط کو ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا۔ یہ دھرنا ہمارے سیاسی منظر کا مستقل حصہ بن گیا ہے،ختم ہوگیا تو نجانے کتنے عرصے تک اس کی کمی محسوس ہو۔اسلام آباد کی فضا میں گرما گرمی بھی خوب ہے۔ خان صاحب اور قادری صاحب کی دھواں دھارتقریریں، کچھ فاصلے پر پارلیمنٹ ہائوس میں جاری مشترکہ اجلاس میں شعلہ بیان تقریریں۔جہاں دھرنے کا کوئی قابل فہم متعین ایجنڈا موجود نہیں ، اسی طرح پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی بھی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی، سوائے اس کے کہ جن معزز ارکان کی کبھی ٹی وی پر تصویر تک نہیں آتی ، اب انہیں قوم سے ''براہ راست خطاب‘‘ فرمانے اور اپنے مرضی کے تاک تاک کے ''نشانے‘‘ لگانے کا موقعہ مل رہا ہے ۔ جوائنٹ سیشن پہلے کسی غیرمعمولی موقعہ پر بلوایا جاتا تھا۔ صدر کا خطاب یا کوئی آئینی ترمیم ۔ پہلا موقعہ ہے کہ نان سٹاپ مشترکہ اجلاس جاری ہے۔دھرنے سے معاشی نقصانات کا تو خاصا تذکرہ کیا جاتا ہے ، کوئی محنتی رپورٹر مشترکہ اجلاس پر اٹھنے والے خرچ کی تفصیل ڈھونڈ لائے تو دلچسپ خبر سامنے آئے گی۔
اس دھرنے نے قوم کو بری طرح سے تقسیم کیا۔ خاصے عرصے کے بعد اس طرح کی واضح تقسیم نظر آئی۔ایک بڑا حلقہ دھرنے کی مخالفت میں یکسو ہوا تو دوسرا اس کی حمایت میں۔ عمران خان اپنے حامیوں اور مخالفوں دونوں کے حوالے سے ایسی ہی شدت کا شکار ہیں۔ مخالف ایسے جو اسے یہودیوں کا ایجنٹ کہنے سے باز نہیں آتے، حامی بھی ایسے کہ خان کے منہ سے کوئی کمزور جملہ نکل جائے تو اس کے دفاع کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دیں۔ اسلام آباد کے لئے لانگ مارچ اور وہاں دھرنے کا فیصلہ ایسا تھا، جس کے حق میں منطقی دلائل نسبتاً کم تھے، خاصے شکوک بھی موجود تھے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے مارچ نے ان شکوک کو ہوا دی ۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف 
کے اس مارچ اور دھرنے کو بڑے پیمانے پر مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ جو لوگ عمران خان کے لئے نرم گوشہ رکھتے تھے، جنہوں نے پچھلے انتخابات میں تحریک انصاف کو ووٹ دیا، وہ بھی شش وپنج کا شکار نظر آئے۔ انہیں یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ چند ہزار یا اس سے زیادہ لوگوں کو لے جا کر چڑھائی کرنا اور وزیراعظم سے استعفیٰ مانگنا کہاں سے درست ہوسکتا ہے؟ اس طرح تو ملک میں کوئی بھی حکومت نہیں چل پائے گی، اسلام آباد ہر چھ آٹھ مہینے بعد محصور ہوجائے گا۔ وہی حال ہوگا جو آخری مغل بادشاہوں کا دلی میں رہا۔عمران خان کی لمبی لمبی تقریروں نے بھی بہت سوں کو مایوس کیا۔ خان صاحب زیادہ اچھے مقرر نہیں ہیں۔ منجھا ہوا مقرر بھی تقریر لمبی کرے تواس کا رس ختم ہوجاتا ہے، باتیں دہرانے اور کمزور فقرے بولنے لگتا ہے۔ عمران خان اپنی روٹین کی تقریر میں بھی زیادہ فوکسڈ نہیں رہ پاتے، دھرنے کی طویل تقریروں میں ان کا یہ'' فن‘‘ پوری طرح ایکسپوز ہوا۔ اس کمزوری کو انہوں نے اپنے تند وتیز جملوں، مخالفوں پر سخت ذاتی حملوں اور پولیس افسران کا نام لے لے کر دھمکانے جیسے حربوں سے دور کرنے کی کوشش کی، اس سے خرابی مزید بڑھی۔تحریک انصاف کا سمجھدار اور اعتدال پسند ووٹر اس پرمتعجب ہوا۔ دراصل مئی 2013ء کے انتخابات میں کچھ فیصد ایسے لوگ تھے جو تحریک انصاف یا کسی پارٹی کا حصہ نہیں تھے، عمران خان کو تبدیلی کا پیام بر سمجھ کر انہوں نے اسے سپورٹ کیا ،مگر ان کا شمار سوئنگ ووٹرز میں ہوتا ہے۔ وہ ووٹرز جوہر بار آخری لمحوں میں کسی جماعت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں، مگر انہیں اس جماعت کا کارکن یا مستقل ووٹ بینک نہیں سمجھا جا سکتا۔ میرا 
اندازہ ہے کہ تحریک انصاف کی حمایت کرنے والے ان لوگوں میں ڈینٹ ضرور پڑا ہے۔ میں نے ایسے کئی لوگوں کو دیکھا ، جن کو عمران کے طرز عمل پر مایوسی بلکہ مایوسی سے زیادہ افسوس تھا۔ تحریک انصاف اس گرداب سے نکل جائے اور دوبارہ سے حساب کتاب کرے تو شاید اسے اس حقیقت کا اندازہ ہو پائے۔ 
عمران خان کے دھرنے سے ایک خوفناک حقیقت یہ سامنے آئی ہے کہ ہمارا موجودہ سسٹم اس قسم کی کسی جارحیت کو کائونٹر نہیں کر سکتا۔ میرے بعض دوستوں ،جن میں ڈاکٹرعاصم اللہ بخش جیسے سنجیدہ تجزیہ کاربھی شامل ہیں، کو یہ پریشانی ہے کہ عمران خان کی اس موو نے دنیا کو یہ بتا دیا ہے کہ پاکستان کس قدر Ungovernable ملک ہے، اسے کس آسانی کے ساتھ بحران کا شکار کیا جا سکتا ہے۔یہ بات واقعی تشویش ناک ہے، اس پر غور ہونا چاہیے۔میرے خیال میں اس کے پیچھے سانحہ ماڈل ٹائون بھی موجود ہے۔ اسلام آباد میں یہ سب کچھ نہ ہو پاتا، اسے ہینڈل کرنے کی تمام تر حکمت عملی مختلف ہونی تھی، اگر ماڈل ٹائون میں لہو نہ بہہ چکاہوتا۔ اس تباہ کن غلطی نے مسلم لیگ ن کی حکومت کو اس قدر دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کیا کہ وہ آج عملاً محصور ہوچکی ہے۔ ورنہ عام حالات میں اتنی تھوڑی تعداد میں لوگوں کے لئے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ حکومت کو دباکر اتنے دنوں تک اسلام آباد میں ڈیرے ڈال سکتے۔
سول ملٹری ریلیشن شپ کے حوالے سے بھی دوبارہ سے بحث شروع ہوئی ہے۔ میری رائے ہے کہ تعصبات سے ہٹ کر اس پر بات ہونی چاہیے۔ فوج یا اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے ہمارے ہاں بہت سے تعصبات، کنفیوژن اور مغالطے موجود ہیں۔ سنجیدہ اور ٹھوس بحث تبھی ہوسکتی ہے، جب پہلے سے قائم شدہ رائے سے اٹھ کر آزادانہ دماغ کے ساتھ بات کی جائے۔ فوج کے حوالے سے ایک بات واضح ہے کہ وہ حکومت کا ادارہ نہیں بلکہ ریاست کا ایک ادارہ ہے۔ ہمارے ہاں حکومتیں بڑی بے رحمی سے ریاستی اداروں کو اپنے ذاتی اغراض ومقاصد اور اپنے سیاسی مخالفوں کو کچلنے کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ پولیس،آئی بی، نیب، ایف بی آر جیسے محکموں اور دیگر صوبائی ووفاقی اداروں کو ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ فوج کو اس طرح استعمال نہیں کیا جا سکتا ۔ اس لئے جب ان کے ترجمان یہ کہتے ہیں کہ ہم غیرجانبدار ہیں تو اس کا مطلب صاف ہے کہ سیاسی کشمکش میں ہمیں نہ گھسیٹا جائے ، ہم اس سے الگ ہیں۔ اس قسم کے بیانات کو حکومت کے خلاف بیان تصور کرنا دانشمندی نہیں، درست تناظر میں بات دیکھنا چاہیے۔
اگلے روز ایک محترم دوست نے لکھا کہ ان دھرنوں کی کھل کر مخالفت ہونی چاہیے، جو لوگ انہیں غیر آئینی سمجھتے ہیں، وہ اگرمگر کے بغیر یہ بات کہیں کہ اس وقت اصل بحث آئینی اور غیر آئینی اقدامات کی ہے، جس میں غیر آئینی طریقہ کار اپنانے والوں کی کھلی مخالفت کی جائے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے ،مگر بحث صرف آئینی اور غیر آئینی کی نہیں رہی۔ بات بہت آگے نکل گئی ۔ مجھے نہیں معلوم کہ دھرنے کے پیچھے کیا مقاصد تھے، کسی کا سکرپٹ تھا یا نہیں اور امپائر کی انگلی سے کیا مراد ہے؟ اس بحث میں اب پڑنے کا کوئی فائدہ نہیں، کیونکہ یہ تو معلوم ہوچکا کہ دھرنے والوں کو کسی نادیدہ قوت کی حمایت حاصل نہیں تھی۔ایسا کوئی شک تھا بھی تو اب دور ہوجانا چاہیے۔ اس دھرنے نے ایک نئے سوال کو جنم دیا، نئی بحث شروع ہوئی کہ ''سٹیٹس کو‘‘ کو کس طرح توڑا جائے۔ میرے جیسے لوگ انقلاب کے بجائے ریفارمز کے حامی ہیں، ہم بتدریج انقلاب کو سپورٹ کرتے ہیں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ سٹیٹس کو کی حامی سیاسی قوتیں بتدریج اصلاحات بھی نہیں چاہتیں۔ انہیں اس میں اپنی موت نظر آتی ہے۔ الیکشن ریفارمز ہی کو دیکھ لیجئے، مسلم لیگ ن سے ایم کیو ایم اور روایتی امیدواروں کے سہارے سندھ کا تخت سنبھالنے والی پیپلزپارٹی سے لے کر برائے نام ووٹوں سے الیکشن جیتنے والے بلوچ قوم پرستوں تک، کسی کو بائیومیٹرک سسٹم والے الیکشن وارے نہیں کھاتے۔ وہ کیوں ایسی ریفارمز لے آئیں گے، جن سے ان کا دوبارہ جیتنا یا اکثریت لینا مشکل ہوجائے؟عمران خان کا ارادہ یہ تھا یا نہیں ،مگر انہوں نے جس طرح گورننس پر سوال اٹھایا، اسے وسیع پیمانے پر پزیرائی ملی ہے۔ عمران خان نے اپنی جذباتی تقریروں کے ذریعے جہاں کچھ لوگ گنوائے ہیں، وہاں روایتی حکمران قوتوں کو چیلنج کر کے بعض حلقوں میں اپنی پزیرائی بھی بڑھا لی ہے۔ پنجاب میں پیپلزپارٹی کابچا کھچا ووٹر خاص طور پر عمران سے متاثر ہوا ہے۔ شفاف انتخابات اور روایتی طرز حکومت کو چیلنج کر کے عمران خان نے نئے سوالات اٹھائے ہیں۔اب بحث آئینی اور غیر آئینی اقدامات تک نہیں رہی، یہ اصولی بحثیں بھی چلتی رہنی چاہئیں، مگر اصل محاذ کہیں اور شفٹ ہوگیا ہے۔اہل دانش اور تجزیہ کاروں کو اس طرف توجہ دینا چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں