اس قوم کو بخش دیں

ہمارے میڈیا اور اہل دانش کے حلقے میں مختلف اقسام کی لہریں اور ٹرینڈز گردش کرتے رہتے ہیں۔ کبھی کوئی ٹرینڈ مقبول ہوجاتا ہے تو کئی بار اس سے مختلف لہر اثر پذیرہو رہی ہوتی ہے۔ کچھ عرصے سے پاکستانی قوم پر لعنت ملامت والا ٹرینڈ مقبول ہے۔ملک میں کہیں کوئی ناخوشگوار واقعہ ہوجائے، ہمارے بعض لکھنے والے اور تجزیہ کار اس کی ذمہ داری پوری قوم پر ڈال دیتے ہیں کہ ہم پاکستانی ہیں ہی ایسے، ذلت ہمارا مقدر بن چکی ہے... وغیرہ وغیرہ۔ کچھ عرصہ پہلے تک تویہ بھی ہوا کہ اگر کسی نے قومی غیرت کی بات کی اور مشورہ دیا کہ قومی پالیسیاں آبرومندانہ انداز میں بنائی جائیں تو اس پر ایک بڑا حلقہ ٹوٹ پڑا۔ ہمارے ایک بہت سینئر صحافی تھے، اللہ ان کی مغفرت کرے، وہ ہمیشہ قومی غیرت کی اصطلاح کا ٹھٹھا اڑاتے اور اس پر پھبتیاں کستے۔ایسی لوگوں کی تضحیک کرنے کے لئے'' غیرت بریگیڈ‘‘ کی اصطلاح وضع کی گئی ۔ ہم حیران ہو کر سوچتے کہ اگر غیرت بریگیڈ میں شمولیت شرمندگی کا باعث ہے تو اس کا الٹ بے غیرت بریگیڈ ہی بنتا ہے، کیا یہ طنز کے تیر چلانے والے اپنے لئے یہ طعنہ سننا پسند کریں گے؟
ابھی پچھلے دنوں ملالہ یوسف زئی کو نوبیل انعام ملا تودوبارہ بحث چل نکلی۔ ملالہ سے ہمیںکیا دشمنی ہوسکتی ہے ؟وہ پاکستان ہی کی بچی ہے،اللہ اس سے ملک وقو م کی خیر کے لئے کام لے تو ہر ایک کواچھا لگے گا۔ حیرت اس لئے ہوئی کہ اگر کوئی عالمی ادارہ اردو غزل کی گائیگی کے حوالے سے ایوارڈ کا اعلان کرے اور مہدی حسن، غلامی علی ،جگجیت سنگھ وغیرہ کے بجائے عدیل برکی کو یہ ایوارڈ دے دے تو سوالات پیدا ہوں گے۔ عدیل برکی کی توہین مطلوب نہیں، وہ اچھے کلاکار ہوں گے، مگر ظاہر ہے لیجنڈ گلوکاروں کی سطح کے گائیگ نہیں۔اب ایسی مفروضہ صورتحال میں کوئی یہ سوال اٹھائے کہ مہان گلوکاروں کے بجائے نسبتاً نئے اور دوسری صف کے فن کار کو کیوں نوازا گیا تو وہ سوال بے جا نہیں ہوگا اور نہ ہی اس پر تعصب کا الزام لگایا جا سکتا ہے۔ یہ بات بڑی سادہ اور صاف ہے، مگر اس کا بھی بتنگڑ بنا دیا گیا۔ ایک معروف لکھنے والے نے دلچسپ تھیوری وضع کی کہ ہم پاکستانی دراصل اپنے میں سے کسی کو زیادہ ٹیلنٹیڈ دیکھ ہی نہیں سکتے، جس میں زیادہ ٹیلنٹ ہے، دنیا نے اسے نواز دیا تو ہم خواہ مخواہ اس کی مخالفت شروع کر دیتے ہیں۔ موصوف نے ملالہ یوسف زئی کے ساتھ ڈاکٹر عبدالسلام کی مثال دی کہ چونکہ انہیں نوبیل انعام مل گیا ، اس لئے ان کی مخالفت ہوئی۔ سچ تو یہ ہے کہ اس سے زیادہ گمراہ کن تجزیہ اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ ہر ایک جانتا ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام کو نوبیل انعام اس وقت ملا، جب وہ پاکستان سے کوچ کرکے اٹلی میں مقیم ہوچکے تھے۔ وہاں سائنسی ریسرچ کرتے رہے، جس پر انہیں وہ انعام دیا گیا۔ عملاً وہ پاکستان سے لاتعلق ہوچکے تھے۔ ان کو گلوریفائی نہ کرنے کی وجوہات بھی ہر ایک جانتا ہے، اس میں یہ وجہ کہیںشامل نہیں کہ چونکہ انہیں نوبیل انعام ملا ، اس لئے ان کی مخالفت کی گئی۔ میں نے پچھلے کالم میں کئی مثالیں دیں کہ کسی کھلاڑی یا ایتھلیٹ نے کوئی بین الاقوامی انعام جیتا تو اسے قوم نے سر آنکھوں پر بٹھایا۔ حالت یہ ہے کہ محسن حامد کے تیسرے درجے کا ایک ناول مین بکر پرائزکے پانچ ناولوں کی شارٹ لسٹ میں آ گیا تو محسن حامد یہاں مشہور ہوگیا، حالانکہ وہ انگلینڈ میں مقیم تھے۔ محمد حنیف کا کمزور اور متنازع ناول ایکسپلوڈنگ مینگوز مین بکر پرائز کی پہلی شارٹ لسٹ میں آیا تو پاکستان میں ناول ہٹ ہوگیا، ہاتھوں ہاتھ لیا گیا، حالانکہ اس میں کچھ بھی نہیں۔ باکسر عامر خان صرف پاکستانی نژاد ہیں، رہائش ان کی برطانیہ میں ہے، اس کے باوجود ہر پاکستانی انہیں اون کرتا اور محبت کرتا ہے۔ یہ بات کہنا دراصل پاکستانی قوم کی توہین ہے کہ ہم کسی کو عزت اور شہرت حاصل کرتے نہیں دیکھ سکتے۔ یہ البتہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں ستر کے عشرے کی طرح ایک با ر اہل علم ودانش دو حصوں میں بٹ چکے ہیں۔ اس بار رائٹ اور لیفٹ کے بجائے رائٹ اور لبرل آمنے سامنے ہیں۔ اگر رائٹسٹ حلقے سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کو اسلامی دنیا میں سرفرازی ملے تو لبرل اس پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ اسی طرح اگر لبرل سٹانس (موقف ) رکھنے والے کو مغربی دنیا میں پزیرائی اور تکریم ملے تو رائٹ والے اس کامیابی کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ 
گزشتہ روز مولانا عبدالستار ایدھی کے ساتھ بڑا افسوسناک سانحہ ہوا۔ انہیں کراچی میں لوٹ لیا گیا۔ ڈاکو انہیں یرغمال بنا کر دفتر سے کروڑوں مالیت کی ملکی وغیر ملکی کرنسی اور بھاری مقدار میں سونا لے گئے۔ یہ خبر ہر دردمند پاکستانی کے سینے میں خنجر کی طرح لگی۔ ایدھی صاحب ملک کے چند غیر متنازع ہیروز میں سے ایک ہیں۔ ان پر لوگوں نے ایسا اعتماد کیا کہ بعد میں کبھی شک کو ذہن میں آنے ہی نہیں دیا۔چند سال پہلے ایدھی صاحب کی دوسری بیوی کروڑوں روپے نقد اور بے شمار زیورات لے کر فرار ہوگئی۔ ایدھی صاحب نے خود ایک انٹرویو میں یہ بتایا اور کہا کہ دوسری شادی کرنا میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ خاتون جو لوٹ کر لے گئی، وہ لوگوں کے عطیات تھے، مگر کسی ایک بھی فرد نے ایدھی صاحب پر الزام نہیں لگایا کہ آپ نے عطیات یا زیورات محفوظ جگہ پر نہیں رکھے تھے۔ ایدھی صاحب کو اللہ زندگی دے، وہ اس ملک کے لئے جو کچھ کر چکے ہیں، کسی اور نے کیا ہے نہ شاید کر سکے۔ مجھے فیس بک پر اس حوالے سے چلنے والے زہریلے کمنٹس دیکھ کر دکھ ہوا۔ لوگ پھر وہی بات کہہ رہے ہیںکہ ایسی قوم پر لعنت ہو جس نے اپنے مسیحا کو لوٹ لیا وغیرہ وغیرہ۔ بھائی چند بدبخت لوگوں کی سزا اٹھارہ بیس کروڑ عوام کو کیوں دیتے ہو؟ انہی ایدھی صاحب نے چند سال پہلے ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا کہ ایک بار انہیں راہ جاتے ڈاکوئوں نے لوٹ لیا، پھر ایک نے پہچان لیا تو معذرت کے ساتھ سب لوٹا ہوا مال واپس کر دیا اور آپس میں کہا کہ یار جب ہم پولیس مقابلے میں مارے جائیں تو ہماری لاشیں اسی بابے ہی نے غسل کر کے دفنانی ہیں، اسے کچھ نہ کہو۔ عرض صرف اتنی کرناتھی کہ ایسے تکلیف دہ واقعات ہوجاتے ہیں،مگر ان کی آڑ میں پوری پاکستانی قوم کوذلیل نہ کیا جائے۔خدارا ،اسے اب بخش دیں۔
پس تحریر: کل ایک اور ہولناک واقعہ ہوا، بلوچستان کے صنعتی علاقہ حب میں آٹھ مزدوروں کو اغوا کر کے قتل کر کے ان کی لاشیں پھینک دی گئیں۔ قصور صرف یہ تھا کہ ان کی رگوں میں پنجابی (سرائیکی)خون دوڑتا تھا، شناختی کارڈ دیکھ کر انہیں نشانہ بنایا گیا۔دیکھنا یہ ہے کہ جو لوگ بلوچ شدت پسندوں کی مسخ لاشوں کا ماتم کرتے ہیں، یہ بے گناہ لاشیں بھی انہیں نظر آتی ہیں یا ان کے نزدیک یہ کیڑے مکوڑے ہیں؟ جو بلوچ قوم پرست مسنگ پرسنز اور ٹارگٹ کلنگ کا نوحہ پڑھتے ہیں، ان میں اتنی جرأت ہے کہ ان ہلاکتوں پر ایک تعزیتی جملہ بھی کہہ سکیں؟ وہ ماما قدیر جو مسنگ پرسنز کے لئے ہزاروں میل سفر کرتا ہے ،کیاماما قدیر اور اسے ہیرو بنانے اور ماننے والوں کو ان مسخ شدہ لاشوں کا خیال بھی آئے گا؟یہ آٹھ لاشیں بھی اپنے پیچھے معصوم بلکتے بچے ، دھاڑیں مارتی بیوائیں اور دل گرفتہ اقربا رکھتی ہیں۔ کوئی ہے جو ادھر بھی نظر کرے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں