منطقی انجام

آخر وہی ہوا جس کا اندازہ لگایا جا رہا تھا۔ سیاسی دھرنے چند ہفتوں کے لئے دھوم مچائی اوراپنے مداحین کی خواہشات اور توقعات غیر معمولی حد تک بڑھا کر اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے تو اپنا بوریا بستر سمیٹ لیا۔ جس قدر بلند وبانگ اور غیر حقیقی نعرے لگاتے وہ اسلام آباد میں وارد ہوئے، جتنی سخت اور شعلہ بار زبان استعمال کرتے رہے، جس قدر ہنگامہ انہوں نے بپاکیا، اسی قدر مایوسی پھیلاتے ہوئے، اپنے مداحوں کی امیدیں مٹی میں ملاتے اسلام آباد سے رخصت ہوئے۔ بچے بالے شادیوں میں ایسے بم پٹاخے چلاتے رہتے ہیں، جو تیزی سے سلگتے ہیں، جب لوگ دھماکے کے خوف سے کانوں میں انگلیاںدے دیں، تب وہ بم ٹھس کر کے دھماکہ کئے بنابجھ جاتے ہیں۔ ''شیخ الاسلام ‘‘کے مداحین سے معذرت، مگران کے لیڈر نے ایسا ہی کیا۔ شہر شہر دھرنا دینے والے لارے پر تو ان کے حامی بھی اب یقین نہیں کریں گے۔ رہا سیاسی جدوجہد کا فیصلہ ، تو پہلے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ سوچ کی تبدیلی کیسے آئی ؟ 
ارشاد احمد حقانی میرے ممدوح اخبارنویس اورکالم نگار تھے۔ زمانہ طالب علمی میں انہیں پڑھ کر کالم نگار بننے کا سوچا کرتا۔ حقانی صاحب جیسا تجزیہ نگار اردو صحافت کو دوبارہ نہیں ملا۔ وہ کمال کا لکھتے تھے۔ ایک خامی البتہ کھٹکتی تھی کہ اپنے کالموں کے حوالے بہت دیا کرتے، اکثر یاد کراتے کہ فلاں موقع پر میں نے یہ لکھا تھا۔ اس کے بعد اپنا وہ پورا کالم ہی نقل کر ڈالتے۔ اس وقت ہم سوچتے تھے کہ کبھی کالم لکھنے کا موقع ملا تو یہ غلطی نہیں دہرائیں گے۔ آج البتہ جی چاہ رہا ہے کہ دھرنے سے دو دن پہلے بارہ اگست کو لکھے گئے اپنے کالم کا ایک ٹکڑا نقل کردوں۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے بارے میں پوری یکسوئی کے ساتھ جو رائے قائم کی ، وہ تحریرکی۔ آج بھی اس پر قائم ہوں۔ خوشی ہوئی کہ قادری صاحب نے ہمیں'' شرمندہ‘‘ نہیں کیا اور وہی کیا جس کی ان سے توقع کی جا رہی تھی۔ 
میں نے بارہ اگست والے اپنے کالم میں لکھا تھا : '' ڈاکٹر طاہرالقادری کا رویہ اس پورے معاملے میں خاصا پراسرا ر اور ناقابل فہم رہا ہے۔ قادری صاحب پر اپنے ماضی کا بوجھ اس قدر زیادہ ہے کہ کوئی معقول شخص ان کی حمایت کرنے یا میڈیا میں ان کامقدمہ لڑنے کو تیار نہیں۔ سوائے مسلم لیگ ن کے شدید مخالفین کے، قادری صاحب کے ساتھ کوئی نہیں ۔ میڈیا اگرچہ انہیں وقت خاصا دے رہا ہے مگر وہاں بھی قادری صاحب کے لئے نرم گوشہ نہیں پایا جاتا۔ ذاتی طور پر میں کسی کو اس کے ماضی کے حوالے سے جج کرنے کے حق میں نہیں، تاہم طاہر القادری صاحب کے حوالے سے خاصا کنفیوژن ہے۔ اس کی دو بڑی وجوہ ہیں۔ ایک تو ان کے موقف میں بڑے خوفناک قسم کے تضادات ہیں۔ وہ کینیڈین نیشنل ہیں اور یہ واضح ہوچکا ہے کہ وہ اپنی کینیڈا والی ''کشتی‘‘ سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ اس باران کی ڈکشن خوفناک اور تیور کڑے ہیں۔ لاشوں، شہادتوں، انقلاب، جانیں دے دینے، ہاتھ توڑ دینے ... اور جانے کیا کیا شعلہ بار فقرے وہ برسا رہے ہیں۔ قادری صاحب کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ کسی سسٹم کو نہیں مان رہے، ان کے ساتھ بات کرنے کے لئے موزوں فریم ورک ہی موجود نہیں۔ طاہرالقادری صاحب کا موقف مولانا صوفی محمد والا ہی ہے۔ زیادہ خطرناک کہ صوفی محمد تو سادہ لوح آدمی تھے، ڈاکٹر قادری صاحب ان کے برعکس بے حد ہوشیار ہیں اور قوی امکانات ہیں کہ ان کے ہینڈلرکوئی اور ہیں ۔ ان کی ڈوری کہیں اور سے ہلتی ہے ، اس لئے طاہرالقادری صاحب کی حمایت قطعی طور پر نہیں کی جا سکتی۔ طاہر القادری کو ساتھ ملاکر عمران نے بڑا رسک لیا ہے۔ دو متضاد لشکر اکٹھے مل کر کبھی نہیں لڑ سکتے، اگر لڑائی جیت بھی لیں تو مال غنیمت پر باہمی تصادم ہونا یقینی ہے۔ قادری صاحب کا ایجنڈا مبہم اور پراسرار ہے، وہ پورے مارچ کو ہائی جیک کر سکتے ہیں۔ عمران خان کو خبردار رہنا ہوگا ‘‘۔
مجھے نہیں معلوم کہ قادری صاحب کے بغیر بتائے دھرنا اچانک ختم کرنے کے فیصلے کا عمرا ن خان کو کس قدر دکھ ہوا، پی ٹی آئی کے کارکن البتہ دلبرداشتہ نظر آ رہے ہیں۔ خان صاحب کو بھی اپنی سیاسی غلطیوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ قادری صاحب شروع ہی سے ''مشکوک کھلاڑی‘ ‘ تھے۔ یوں لگتاکہ جیسے وہ باہر بیٹھے اپنے ہینڈلرز کو براہ راست رپورٹ کر رہے ہوں۔ عمران خان کی ذات البتہ اس قسم کی شکوک وشبہات سے بالاتر ہے۔ وہ کسی بھی قسم کے غیر ملکی ایجنڈے کوہرگز سپورٹ نہیں کر سکتے۔ ایسی سوچ رکھنے اور یہ الزام لگانے والوں کی دریدہ دہنی پر افسوس ہوتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن ، عمران کے بارے میں جس قسم کی زبان استعمال 
کرتے ہیں، وہ افسوسناک اور مولانا کی فرسٹریشن کی غماز ہے۔ تحریک انصاف نے مولانا کے صاحبزادے اور بھائی کو لکی مروت اورڈیرہ کی نشستوں پر جس شکست سے دوچار کیا، لگتا ہے اس نے مولانا فضل الرحمن کی انا بری طرح مجروح کی ہے۔ عمران خا ن کا اسلام آباد کی طرف مارچ اور دھرنا کی پالیسی البتہ قطعی طور پر غلط تھی۔ ایسا کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اللہ نے پاکستان کو محفوظ رکھا۔ اگر عمران کا مارچ اور دھرنا کامیاب ہوجاتا تو صرف نواز شریف حکومت ہی ختم نہ ہوتی بلکہ ریاست بری طرح ہل کر رہ جاتی۔ بلوچستان اور سندھ سے فوری طور پر مرکز مخالف آوازیں بلند ہونا شروع ہوجاتیں۔ ایسا ہنگامہ کھڑا ہوتا کہ معاملات کنٹرول سے باہر ہوجاتے۔ یہ سیاسی سسٹم جیسا بھی برا بھلا ہے، اس نے بہت کچھ سنبھال رکھا ہے، خاص کر بلوچستان میں اس کی افادیت غیر معمولی ہے۔
دھرنوں سے دواہم کام البتہ ہوئے ہیں۔ ایک توکئی اہم امور پر عرصے بعد بہت تفصیلی مباحث ہوئے۔ بغیر توڑ پھوڑاور تشدد کے لوگوں نے وہ سب کچھ سنا، میڈیا کی وساطت سے گھر گھر وہ سب سنا اور سمجھا گیا۔ ہمارے ہاں احتجاجی مظاہرے پر تشدد ہوتے ہیں، ہجوم باہر آ کر واپڈا کے دفاتر جلا دیتا ہے، نجی املاک ، پٹرول پمپ، گاڑیاں جلا دی جاتی ہیں۔ پہلی بار ایسا ہوا کہ پرامن احتجاجی مظاہرے ہوئے، بات سنی اور سنائی گئی۔ پاکستان میں یہ نئی روایت پڑی ہے۔ ان دھرنوں نے لوگوں کے سیاسی شعور کو بیدار کیا ہے۔ روایتی سیاست، گلے سٹرے سیاسی رسم ورواج، ڈرامہ بازیوں کے خلاف نفرت پیدا ہوئی، اب لوگ نئی سوچ اور نئی حکمت عملی چاہتے ہیں۔ ایک غلط کام یہ بھی ہوا کہ ان دھرنوں اور وہاں کی جانے والی تقریروں نے آئیڈیل ازم کو فروغ دیا ہے۔ اس قدر آئیڈیل باتیں صرف تقریروں میں ہوسکتی ہیں، عملی طور پر یہ سب کچھ کرنا آسان نہیں ۔ اگر ایسا ہوتا تو کے پی کے مثالی صوبہ بن چکا ہوتا۔ تحریک انصاف نے وہاں کئی اچھے کام کئے، مگرابھی وہ پاکستان کے دوسرے علاقوں کی طرح مسائل سے اٹا ، مشکلات سے معمور صوبہ ہی ہے۔ یہ آئیڈیل ازم عوام کے جذبات مشتعل کر کے انہیں انارکی اور افراتفری کی طرف مائل کرتا ہے۔ لیڈر وں کا ایک کام خواب دکھانا اور پھر اس کی عملی تعبیر کے لئے لوگوں کو متحرک کرنا ہوتا ہے مگرانارکی کی طرف جانے سے روکنا بھی ان کی ذمہ داری ہے۔ کپتان کو یہ سب کچھ کرنا ہوگا۔ 
عمران کی سوچ اور حکمت عملی غلط تھی، انہیں اب پیچھے ہٹنا چاہیے۔ چرچل نے دوسری جنگ عظیم کے دوران ایک محاذ پر پسپائی کے حوالے سے کہا تھا ، یہ شاندار پسپائی تھی(It Was A Glorious Retreat) سیاست میں آگے بڑھنے کے ساتھ کبھی پیچھے بھی ہٹنا پڑتا ہے۔ جو مہم شروع کی گئی ، اس کا فطری انجام یہی بنتا تھا۔ لیڈرکی پالیسیاں اس کی انا کے گرد نہیں گھومتیں۔ طویل المدت اہداف زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ عمران خان کاعوامی رابطہ مہم کا فیصلہ درست ہے، عوام کی قوت سمیٹتے ہوئے اپنی پارٹی کی تنظیم نوکی جائے، بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں کی جائیں۔ الیکشن ریفارمز اور دوسری اصلاحات کے لئے دبائو ڈالا جائے، سب سے بڑھ کر خیبر پختون خوا کو مثالی صوبہ بنایا جائے۔ اس وقت عمران خان، تحریک انصاف اور پاکستانی ریاست کے مفاد میں یہی بہتر ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں