گرینڈ ڈیزائن

پچھلے دو تین ہفتوں میں بھارت نے کنٹرول لائن پر جس طرح بلا اشتعال فائرنگ کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے، اس نے میرے جیسے کم علم اخبارنویس سمیت بہت سوں کو حیران کر رکھا ہے۔نہایت سادہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر بھارتی حکمران کشیدگی کیوں پیدا کرنا چاہتے ہیں اور اس خطے میں ٹمپریچر بڑھانے سے انہیں کیا فائدہ پہنچے گا؟یہ اس اعتبار سے اہم ہے کہ جنگی جنون اور کشیدہ صورتحال کا پرامن سرمایہ کاری اور معاشی ترقی کے ساتھ براہ راست ٹکرائو ہے۔ جس ملک میں ایک بھی گولہ گرے، غیرملکی سرمایہ کار اسی روز وہاں سے اپنا سرمایہ سمیٹنے کا سوچتا ہے۔ ترقی اورغیر یقینی صورتحال کبھی اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ اس تناظر میں بہت لوگ حیران ہیں کہ بھارت کی نئی حکومت جو معیشت کی ترقی کی رفتار تیز کرنے، نئی ملازمتوں کی فراہمی اور غیرملکی سرمایہ کاری یقینی بنانے کا ایجنڈا لے کر آئی تھی، آخر اسے کیا ہوگیا ہے؟ آخر مودی صاحب اپنے سب کئے کرائے کو غارت کرنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں؟
اس سوال کے دو تین جواب دئیے جا رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے ریاستی انتخابات کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے کہ مودی صاحب جنگی جنون طاری کر کے ، شدید ہندو قوم پرستانہ جذبات کو بھڑکا کر مقبوضہ کشمیر میں اپنے اتحادیوں کی حکومت بنانا چاہتے ہیں۔ جموں اکثریتی ہندو علاقہ ہے، وہاں سے بی جے پی کو چند نشستیں مل سکتی ہیں، کچھ اس کے اتحادی لے جائیں، وادی مسلم اکثریتی علاقہ ہے ، مگر عمر عبداللہ کی حکمران جماعت اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ دوبارہ جیت سکے۔مفروضہ یہ ہے کہ مل ملا کر بی جے پی اپنے اتحادیوں سمیت مقبوضہ کشمیر میں صوبائی یا ریاستی حکومت بنا سکتی ہے۔ ایسا تاریخ میں پہلی بار ہوگا۔ ایسا اگر ہو گیا تو پھر امکانات ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کو حاصل خصوصی سٹیٹس ختم ہوجائے، بی جے پی اپنے منشور میں اس کا اعلان کر چکی ہے۔ 
ہمارے تجزیہ کاروں کا ایک حلقہ نریندر مودی کی شخصیت کو بھی اس سب کا ذمہ دار ٹھیراتا ہے۔ ان کے خیال میں مودی صاحب ایک طرح سے میگلومینیا(megalomania) کا شکار ہیں۔ اس کا ترجمہ خود ہی ڈھونڈ لیجئے، کچھ کام قارئین کو بھی کرنے چاہئیں۔جنوبی ایشیا کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے ان تجزیہ کاروں کے مطابق ،''مودی صاحب کو لگتا ہے کہ انہیں قدرت نے کسی غیرمعمولی کام کے لئے پیدا کیا ہے، اسی وجہ سے پسماندہ ذات سے تعلق رکھنے والے ایک چائے والے کو بھارت جیسے ذات برادری کے لئے بدنام ملک کا نیتا (لیڈر)چنا۔ اس ہیوی مینڈیٹ کے تحت بننے والے وزیراعظم کے طور پر مودی صاحب آہنی ہاتھوں سے خطے کے حساس ایشوز کو ڈیل کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ماضی کی کانگریس حکومت کمزور ردعمل دکھاتی رہی، اس لئے مودی صاحب نے جارحانہ انداز اپنایا ہے۔ ‘‘ 
یہ اور اس طرح کی باتیں مختلف تجزیہ کار ٹی وی اور اخبارات میں اپنے مضامین میں بیان کر رہے ہیں۔ان سب میں کچھ نہ کچھ وزن ہے، آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے باوجود میں ذہنی طور پر مطمئن نہیں ہو پایا۔انٹرنیشنل ایشوز پر گاہے نظر ضرور ڈال لیتا ہوں ، مگر یہ میرا پسندیدہ شعبہ نہیں کہ ادھر معاملات سے اپ ڈیٹ رہنے کے لئے روزانہ دو تین گھنٹے چیزیں دیکھنی پڑتی ہیں۔اپنی کم علمی کے باوجود مجھے یہ لگ رہا تھا کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ پھر تجزیہ نگار اور دانشور ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے حسب معمول ایک چونکا دینے والا جملہ کہہ کر ذہن کی پرتیں کھول دیں۔ کہنے لگے، ''اگر اس وقت نریندرمودی کی جگہ پر امن کا بھاشن دینے والے مہاتما گاندھی بھی ہوتے ، من موہن سنگھ جیسا کمزور وزیراعظم ہوتا یا کوئی اور... بھارتی حکمت عملی یہی ہونی تھی۔ ‘‘ڈاکٹر عاصم سنجیدہ تجزیہ کار ہیں، میں نے لاہور شہر میں ان جیسی فہم وبصیرت رکھنے والے کم ہی دیکھے، قدیم وجدید پر ان کی گہری نظر ہے ، گہرا مطالعہ نتائج اخذ کرنے میں ان کی مدد کرتا ہے۔ ان سے تفصیلی گفتگو کے بعد اس ایشو پر سوچتا رہا، پچھلے دو تین دنوں سے اس معاملے کی مختلف پرتوں کو دیکھنے کے بعد لگا، یہ سب اتنا سادہ نہیں اور درحقیقت ایک گرینڈ ڈیزائن کا حصہ ہے۔ جس کا مقصد پاکستانی ریاست پر اس قدر دبائو بڑھانا ہے کہ حکومت اور ریاستی ادارے اس خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے کوئی پالیسی نہ بنا پائیں ۔ 
ہمارے تجزیہ کاروں ، اہل دانش اور اہم اداروں کو یہ ایشو بڑے تناظر میںدیکھنے کی ضرورت ہے۔ تین دارالحکومت (واشنگٹن، دہلی اور کابل)پاکستان کے خلاف پوری قوت کے ساتھ سرگرم ہیں۔ ہمارے ہاں یہ تاثر ہے کہ شائد کابل میں ڈاکٹر اشرف غنی کی موجودگی سے معاملات بہتر ہوگئے ہیں۔ وہ یہ نظر انداز کر رہے ہیں کہ قومی سکیورٹی پالیسیاں ملٹری اسٹیبلشمنٹ ہی آگے بڑھاتی ہے اور افغان اسٹیبلشمنٹ ، خاص کر ملٹری اور انٹیلی جنس میں بھارتی اثر ورسوخ بہت زیادہ ہوچکا ۔ ڈاکٹر اشرف غنی کو افغانستان کے لئے امریکہ اور مغرب کی امداد چاہیے اور ان کے پاس اس گرینڈ ڈیزائن میں تعاون کے سوا آپشن ہی نہیں۔بھارتی اسٹیبلشمنٹ ویسے بھی پاکستان کے نیوکلیئر ڈیٹرنٹ کی تھیوری میں شگاف ڈالنا چاہتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ نیوکلیئر آپشن تک معاملات جانے سے پہلے ان کے پاس کھیلنے کے لئے خاصی گنجائش موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کنٹرول لائن پر فائرنگ، گولہ باری کر کے ہائی الرٹ صورتحال پیداکرنے، پاکستانی فوج کے خاصے بڑے حصے کو مشرقی سرحد پر انگیج کرنا اور پھر اس سب کے باوجود عالمی ہمدردی بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور عملاً ایسا ہی کر رہے ہیں۔ہماری اقوام متحدہ میں کوئی شنوائی نہیں ہوئی اور ہمیں بھارت سے بات چیت کرنے کا مشورہ دیا گیا۔ دلی کی اس پالیسی کے پیچھے واشنگٹن کے سایے واضح نظر آ رہے ہیں۔
امریکی پاکستان پر دو تین وجوہات کی بنا پر دبائو ڈال رہے ہیں۔ ایک تو امریکہ افغانستان میں اپنی مرضی کا منظرنامہ تشکیل دینا چاہتا ہے ، اس کے لئے اسے پاکستان کی مدد درکار ہے۔مشرق میں بھارت اور مغرب میں افغانستان کی جانب سے دبائو ڈال کر ٹو فرنٹ صورتحال پیدا کی گئی ہے جو پاکستانی دفاعی ماہرین کے لئے بھیانک خواب سے کم نہیں۔ دوسرا ایشو جو بہت زیادہ اہم ہے ، وہ چین ہے۔ امریکہ چین کے پر کترنا چاہتا ہے،سائوتھ چائنا سمندر میں چین کے لئے راستے بند کر دئیے گئے، امریکہ کے اشارے پر فلپائن، جاپان اور دیگر ممالک نے چین کے لئے خاصی مشکلات پیدا کر رکھی ہیں۔ گوادر چین کے لئے اس خطے میں کھیلنے کا واحد کارڈ بچا ہے، پاکستان پر دبائو دراصل چین کو شکنجے میں جکڑنا ہے۔ بھارت امریکہ کا پلیئر ہے جبکہ پاکستان کو چین کا کھلاڑی سمجھا جاتا ہے، اس لئے بھارتی دبائو پاکستان ہی پربڑھے گا۔تیسرا فیکٹریہ ہے کہ امریکہ اس خطے میں بھارت کو غالب قوت دیکھنا چاہتا ہے، بھارتی ایجنڈے کو کائونٹر کرنے کی کسی قدر صلاحیت پاکستان میں ہے، اس لئے اس کی وہ صلاحیت ختم یا کمزو ر کرنا مقصود ہے۔ اس لئے بھارتی جارحیت کو بڑے تناظر میں دیکھنااور اس کے پیچھے موجود گرینڈ ڈیزائن کو دیکھنا ہوگا ۔ اس گرینڈ ڈیزائن کو کائونٹر کرنے کے لئے ہمیں چار دارالحکومت کو اپنے ساتھ ملانا ہوگا۔ بیجنگ، ماسکو، تہران اور کابل۔ یہ سب کیسے ہو سکتا ہے، اس پر کسی اور نشست میں بات ہوگی، سٹریٹجک ڈیپتھ جس کا ہمارے ہاں مذاق اڑایا جاتا ہے، اس پر بھی انشا اللہ کھل کر بات کروں گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں