کھیل صرف کھیل نہیں ہوتے!

چند سال پہلے ایک معروف آسٹریلوی کمنٹیٹر کی ایک کتاب پڑھنے کا موقع ملا۔ انہوں نے آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کا تفصیلی جائزہ لے کر بہت سے اہم نکات کی نشاندہی کی۔ ایک مزے کی بات لکھی، ''کھیلوں میں کسی ملک کی ٹیم کی اچھی کارکردگی کا اس ملک کی مجموعی کارکردگی سے بھی گہرا تعلق ہے۔ کھیل قوموں کے مزاج اور ان کے اجتماعی مائنڈ سیٹ کی عکاسی کرتے ہیں۔ جب کوئی ملک مستحکم ہوتا، ترقی کی منازل طے کرتا ہے، ملکی قیادت اپنے ملک کو عالمی برادری میں نمایاں دیکھنا چاہتی ہے تو اس سب کے اثرات ان کے کھیلوں پر بھی پڑتے ہیں‘‘۔ مصنف نے تفصیلی جائزہ لے کر بتایا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ سپورٹس میں چھا گیا۔ امریکہ کے مقابلے میں روس نے بھی سپورٹس پر بھرپور توجہ دی اور اولمپکس مقابلوں میں امریکہ اور روس کی مسابقت سخت ہوتی گئی۔ جرمنی اور جاپان نے جب اپنی معیشت کو مستحکم کر لیا‘ تو ان کی ٹیموں میں بھی یہ جھلک ملی۔ چین اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ چین جب معاشی قوت بنا تو چینی کھلاڑی اور ایتھلیٹ نمایاں ہونے لگے۔ آسٹریلوی کمنٹیٹر نے تو اس جانب اشارہ نہیں کیا، مگر اس تھیسس کو بھارت پر منطبق کیا جائے تو یہاں بھی کم و بیش وہی نتائج سامنے آتے ہیں۔
جب ہم پاکستان کے حوالے سے دیکھتے ہیں تو یہ تھیسس سو فی صد درست ثابت ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں جس طرح دوسرے بڑے بڑے شعبوں میں بے توجہی اور بے پروائی برتی جاتی ہے، وہی حال کھیلوں سے بھی روا رکھا جاتا ہے۔ جن کھیلوں پر توجہ دے کر اولمپکس، ایشین گیمز اور کامن ویلتھ گیمزجیسے اہم ایونٹس میں اچھی کارکردگی دکھائی اور ملک کا نام روشن کیا جا سکتا ہے، وہاں ہماری ان پٹ صفر سے بھی کم ہے۔ ایتھلیٹکس، شوٹنگ، باکسنگ، ویٹ لفٹنگ وغیرہ میں تھوڑی سی محنت سے گولڈ اور دوسرے میڈلز لئے جا سکتے ہیں۔ ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے، مگر ہاکی ٹیم کی مایوس کن کارکردگی نے اس کھیل میں شائقین کی دلچسپی بالکل ختم کر دی ہے۔ دراصل ہم نے گراس روٹ لیول پر اس کھیل کا خود خاتمہ کیا ہے۔ سکول، کالجوں میں ہاکی ٹیمیں ہوتی تھیں، اب نام کو بھی نہیں رہیں۔ اس بے توجہی کے قومی سطح پر نتائج بھگتے جا رہے ہیں۔
کرکٹ مقبولیت کے حوالے سے عملاً ہمارا قومی کھیل بن چکا ہے۔ میں کرکٹ کو اس لئے بھی اہمیت دیتا ہوں کہ اس کھیل میں حاصل ہونے والی کامیابیاں قوم کا مورال بلند کر دیتی ہیں، لوگ خوشی سے نہال ہو جاتے ہیں۔ کرکٹ کے ساتھ ہم نے کیا کیا؟ پاکستان میں بے پناہ ٹیلنٹ ہے۔ کسی چھوٹے شہر میں چلے جائیں، وہاں گلی محلے کی سطح پر انٹرنیشل سطح کا ٹیلنٹ نظر آ جاتا ہے۔ بے سروساماں نوخیز لڑکے کسی کوچنگ اور رہنمائی کے بغیر صرف اپنے خداداد ٹیلنٹ اور محنت کے بل بوتے پر حیران کن کھیل دکھاتے ملتے ہیں۔ یہ ٹیلنٹ البتہ قومی ٹیم تک نہیں پہنچتا، کوئی خوش نصیب پہنچ بھی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے کئی قیمتی سال ضائع ہو چکے ہیں۔ عمران خان کپتان تھے تو وہ من مانی کر لیا کرتے تھے۔ اپنے زور سے انہوں نے وقار یونس کو قومی ٹیم میں کھلا لیا، عاقب جاوید کو ایک بھی فرسٹ کلاس میچ کھیلے بغیر موقع دے دیا، انضمام الحق جیسا ٹیلنٹ ملتان میں رل کر ضائع ہو جاتا، اگر عمران اسے نہ دیکھ لیتے۔ وسیم اکرم خوش قسمت تھے کہ خان محمد نے ٹیلنٹ ہنٹ کیمپ لگایا اور مزنگ لاہور کے اس نوجوان کو تلاش کر لیا۔ اس کے بعد کتنے ہی غیرمعمولی کھلاڑی ضائع ہو گئے۔ سعید اجمل کو اس وقت موقع دیا گیا، جب وہ کرکٹ چھوڑ کر اپنی کپڑوں کی دکان پر بیٹھنے کا فیصلہ کرنے والے تھے۔ ان کے کم از کم پانچ سال ضائع کر دیے گئے۔ ورلڈ کپ میں پاکستان کی واحد امید محمد عرفان کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ مصباح جیسے بلے باز کی جگہ پر میانداد کے بھانجے فیصل اقبال کو کھلایا جاتا رہا۔ مصباح کے چار پانچ سال برباد ہو گئے۔ ابھی دیکھ لیں کہ ذوالفقار بابر کو کیریئر کے آخری دنوں میں کھلایا گیا، حالانکہ وہ ڈومیسٹک کرکٹ میں دس بارہ برسوں سے کھیل رہے تھے۔ یاسر شاہ بے چارہ کئی برسوں سے خوار ہو رہا تھا، اسے کسی نے کھلانا گوارا نہ کیا۔ اگر سعید اجمل پر پابندی نہ لگتی تو یاسر شاہ کو کوئی کھیلتے دیکھ ہی نہ پاتا۔ گڑھی شاہو لاہور کا عمران طاہر یہاں ضائع ہوتا رہا۔ جنوبی افریقی ٹیم کا وہ مرکزی بائولر بن چکا ہے۔ ہمارے ہاں گھوم پھر کر اوسط درجے کے کمزور تکنیک والے کھلاڑیوں کو چانس دے دیا جاتا ہے۔ سال بھر کے بعد پتہ چلتا ہے کہ موصوف تو انٹرنیشل کرکٹ میں چل ہی نہیں سکتے۔ خرم منظور کو دو تین بار موقع دیا گیا۔ میرے جیسے عام آدمی کو نظر آ رہا تھا کہ وہ فرنٹ فٹ پر جلدی آ جاتے ہیں۔ کسی بھی اچھی بائولنگ لائن کے سامنے ناکام ہو جائیں گے۔ ویسا ہی ہوا۔ ان سلیکٹرز کو سزا ملنی چاہیے، جنہوں نے اتنا وقت ضائع کیا، اتنے میچز میں کوئی اچھا نوجوان اوپنر گروم ہو جاتا۔
اس حوالے سے میں تجزیہ کاروں اور اینکرز حضرات کو بھی قصوروار سمجھتا ہوں۔ خاص طور پر سپورٹس چینلز تو مافیا کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ اپنے من پسند کھلاڑیوں کو بغیر کسی دلیل کے پروموٹ کیا جاتا اور ناپسندیدہ کے خلاف کبھی زیادہ عمر اور کبھی کوئی اور اعتراض لگا کر مہم چلائی جاتی ہے۔ آٹھ نو مہینے پہلے کی بات ہے، ایک بار پریس کلب میں بیٹھا کافی رہا تھا، ایک بڑے چینل کے اینکر بھی آ گئے، کوئی اور میز خالی نہیں تھی، میرے ساتھ علیک سلیک تھی، وہ آکر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد ان کے فون کی گھنٹی بجی، اپنے پروڈیوسر سے وہ بات کر رہے تھے۔ کرکٹ بورڈ کے ایک سابق چیئرمین سے انہوں نے کمٹمنٹ لے لی تھی، جو پورے جوش و خروش سے نئے چیئرمین کے خلاف بولنا چاہتا تھا، بلکہ بقول ان کے اس کی دھجیاں اڑانا چاہتا ہے، شرط یہی ہے کہ ایڈٹ نہ کیا جائے۔ فون بند کر کے انہوں نے کھلی کھلی باچھوں سے میری طرف دیکھا اور پوچھا کہ کرکٹ پر پروگرام کر رہا ہوں، کیسا رہے گا؟ میں نے مسکرا کر داد دی اور اپنی سادگی میں دو تین مشورے بھی دے دیے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم میں دو تین بنیادی نوعیت کی کمزوریاں ہیں، اچھا وکٹ کیپر بیٹسمین نہیں، عمر اکمل کو مجبوراً کیپنگ کرنی پڑ رہی ہے، ڈیتھ اوورز میں یارکرز کرانے والا اچھا فاسٹ بائولر نہیں۔ اگر اس کا حل نہ ڈھونڈا گیا تو ہم اپنے اہم میچ ہار جائیں گے۔ اسی طرح اوپننگ کا مسئلہ بھی چل ہی رہا ہے۔ آسٹریلیا میں ورلڈ کپ ہے، وہاں پر ایسی بیٹنگ لائن اپ کا کیا حشر ہو گا ... وغیرہ وغیرہ۔ وہ چپکے سنتے رہے مگر چہرے پر بدمزگی کے آثار تھے، جیسے کہہ رہے ہوں کہ یہ کیسے مشورے ہیں، ان میں کوئی تھرل ہے نہ ہی شور شرابا۔ میں سمجھ گیا، یہ کہہ کر موضوع ہی بدل دیا کہ آپ کا پروگرام ہے، اس کے تقاضے آپ بہتر جانتے ہیں۔
ہمارے مسائل آج بھی وہی ہیں۔ ورلڈ کپ کے لئے اوپنرز کی جوڑی سیٹ نہیں ہو پا رہی۔ یہ نہیں طے پا کر رہے کہ یونس خان کو کھلانا ہے یا نہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس آخری اوورز کرانے والے بائولرز ہی نہیں۔ پورا میچ اچھا کھیل کر، آخری تین چار اوورز میں پچاس ساٹھ رنز دے دیتے ہیں۔ اس طرح تو ورلڈ کپ نہیں جیتا جا سکتا۔ معجزے دکھانے کے لئے بھی عمران خان، میانداد، وسیم اکرم، مشتاق، عاقب، انضمام جیسے کھلاڑی چاہئیں۔ بات پھر وہی ہے کہ کھیل صرف کھیل نہیں ہوتے۔ جہاں پر ہر معاملے میں صرف آج کا دیکھا جا رہا ہو، مستقبل کے حوالے سے پالیسی موجود نہ ہو، وہاں پر ایسے ہی افراتفری اور ڈیڈ لائن کرائسس دیکھنے کو ملتا ہے۔ ماہرین اسے ڈیڈ لائن سنڈروم کہتے ہیں، وہ اس کا حل بھی تجویز کرتے ہیں، مگر یہ الگ موضوع ہے، اس پر پھر سہی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں