حل نکالنا ہوگا

سیاسی ٹمپریچر تیز ہو رہا ہے، گمبھیرتا بڑھ رہی ہے،سوال مگر یہ ہے کہ کیا ہمارے سیاستدان اپنے مسائل خود حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا اس بار پھرانہیں کسی ثالث کا انتظار ہے۔ رجائیت پسندی کا تقاضا یہی ہے کہ ہمیں اچھی امید رکھنی چاہیے۔ سیاستدان ماضی میں بڑی سنگین غلطیاں کر چکے ہیں، ایسے بلنڈرجن کے نتائج انہیں برسوں، عشروں بھگتنے پڑے۔ کچھ کے حصے میں برسوں کی قید آئی تو بعض کو ملک سے باہر رہنا پڑا۔ ایسے تلخ تجربات کے بعدبڑی میچور اور مدبرانہ سیاست کی توقع کرنی چاہیے ۔افسوس کہ زمینی حقائق اس سے مختلف کہانی سنا رہے ہیں۔ حکمران جماعت مسلم لیگ ن ابھی تک نوے کی دہائی کی سیاست کر رہی ہے۔ وہی ٹیم ، اسی انداز میں سیاسی مخالفین کی تضحیک، تذلیل اور انہیں جبری ناک آئوٹ کرنے کی کوششیں، میڈیا کو ہینڈل کرنے کی پرانی حکمت عملی، سسٹم میں جوہری تبدیلی لانے کے بجائے میگا پراجیکٹ کھڑے کرنے کی سوچ... کچھ بھی تونہیں بدلا۔ نوے کے عشرے کے اخبارات اٹھا لیجئے، اس بات کی تصدیق ہوجائے گی۔فرق صرف مدمقابل کا ہے، اس وقت محترمہ بے نظیر بھٹو ہدف تھیں، آج عمران خان کی تصویر نے جگہ لے لی۔ میڈیا میں ن لیگ کے ترجمان لکھنے والے تب بی بی پر اسی طرح برہم اور ناراض ہوتے تھے، جیسا غصہ،تلخی اور کڑواہٹ آج ان کے لہجے اور قلم سے عمران خان کے لئے برس رہی ہے۔ ایک فرق ویسے ردعمل کا بھی ہے۔ پیپلزپارٹی کے پاس پنجاب میں ووٹ بینک تو تھا، مگر اس وقت پنجاب کے بڑے شہروں میں پڑھی لکھی مڈل اور لوئر مڈل کلاس مسلم لیگ ن کے ساتھ تھی، اس بار اس کا بڑا حصہ تحریک انصاف کے ساتھ جا ملا ہے ۔پیپلزپارٹی کا ووٹر لوئر مڈل اور لوئر کلاس سے تعلق رکھتا تھا۔ تحریک انصاف کا رویہ اور ردعمل زیادہ جارحانہ ، تند اور قدرے بے لچک ہے۔ ان کے کارکنوں کامورال بہت ہائی اور ان کے انداز میں بلا کی تندی ہے۔ ان کے سیاسی بیانیے اور سوشل میڈیا پر انصافین کے ردعمل میں یہی تندی ،ترشی جھلکتی ہے، جو گاہے درشتی کی حد کو چھولیتی ہے۔
حکمران جماعت اور ان کے اتحادی دوتین بنیادی حقیقتوں کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اپنی میڈیا مینجمنٹ اور اعلانیہ وغیر اعلانیہ سیاسی اتحادیوں کو ساتھ ملا کر وہ تحریک انصاف پر قابو پا لیں گے۔ یہ اندازہ درست نہیں۔ معاملات اس حد تک جا چکے ہیں کہ اب روایتی انداز کی ڈیلنگ اور مینجمنٹ کافی نہیں۔ نئے حقائق کو سمجھنا، ماننا اور ان کے مطابق اپنی حکمت عملی میںتبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ 
سب سے پہلے تو مسلم لیگ ن کو یہ سمجھنا ہوگا کہ سیاست بہت تیزی سے آگے کی جانب بڑھ رہی ہے، اس کاٹیمپو سلو کرنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوسکتیں۔ تحریک انصاف اور ان کے قائد چوتھے گئیر میں گاڑی چلا رہے ہیں، وہ عجلت میں ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ پچھلے سال مئی کے الیکشن میں ان کے ساتھ جو ہاتھ ہوا، اس کی تلافی ہونی چاہیے۔ حکمران جماعت، جے یو آئی، اے این پی اور پیپلزپارٹی جیسے ان کے اعلانیہ اور غیر اعلانیہ اتحادی بار بار انصافین کارکنوں کو یہ تلقین کرتے ہیں کہ وہ 2018ء کے الیکشن تک کا انتظار کریں اور جمہوری روایات یہی کہتی ہیں ... وغیرہ وغیرہ۔ یہ بے وقت کا بھاشن ہے کیونکہ تحریک انصاف اس الیکشن اور مسلم لیگ ن کے مینڈیٹ ہی کو تسلیم نہیں کرتی۔ وہ پارلیمنٹ میں بیٹھی روایتی جماعتوں کو سٹیٹس کو کا علمبردار اور اس( گلے سڑے بدبو دار) نظام کا محافظ سمجھتی ہے، اس لئے ان کے سیاسی'' اخلاقیات‘‘ پر لیکچرز انصافین کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتے۔
میں ذاتی طور پر تحریک انصاف کی اس عجلت کو درست نہیں سمجھتا۔ ان کے انداز میں غیر معمولی جارحیت اورہر قیمت پر آگے بڑھنے کی جو خواہش نظر آ رہی ہے، وہ خطرناک بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ اس کے تین منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں،سیاسی مخالفوں سے ٹکرائو، تیسری قوت کی مداخلت کی راہ ہموار ہونااور بالفرض ان کی جدوجہد کے نتیجے میں حکومت بدل بھی جائے ، تب بھی مستقبل کے لئے ایک منفی روایت ضرور قائم ہوجائے گی، حکومتیں گرانے کا نوے کی دہائی والا کھیل دوبارہ سے شروع ہوسکتا ہے۔ یہ مگر میری یا کسی اورکی سوچ ہوسکتی ہے، تحریک انصاف اور اس کے نتیجے میںعوام کی خاصی بڑی تعداد اس سے مختلف سوچتی ہے۔ مسلم لیگ ن انہیں زیادہ بھاشن اس لئے بھی نہیں دے سکتی کہ ان کا اپنا ماضی ایسی ہی حکمت عملیوں اور ہتھکنڈوں سے معمور ہے۔ نوے کے عشرے میں میاں صاحب خود ایسا کرتے رہے، اس وقت پیپلزپارٹی والے انہیں انتظار کرنے اور پارلیمنٹ کی ٹرم مکمل ہونے کی نصیحتیں کرتے تھے۔ جس طرح میاں صاحبان اور مسلم لیگی ورکروں نے اس وقت پیپلزپارٹی کی نصیحت کو جوتی کی نوک پر رکھا، کم وبیش وہی سلوک انصافین مسلم لیگ کے مشورے سے کر رہے ہیں۔ 
مسلم لیگ ن کا کہنا ہے کہ الیکشن 2013ء کا معاملہ اب کلوز ہوچکا ہے، اب اسے بھول کر آگے کی طرف چلنا چاہیے، اگلے انتخابات 2018ء میں ہوں گے ۔ن لیگ الیکشن اصلاحات کرانے کے لئے بھی تیار ہوسکتی ہے، پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی تو انہوں نے بنا رکھی ہے، جو ا س قدر برق رفتار ہے کہ چار مہینوں میں دو اجلاس بھی کر بیٹھی ہے،'' امید ‘‘کرنی چاہیے کہ اگلے تین چار برسوں میں یہ کمیٹی'' کچھ نہ کچھ‘‘ کر گزرے گی۔ ن لیگ کی یہ خواہش کہ2013ء کے الیکشن کو بھول کر آگے بڑھاجائے، اب پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔ تحریک انصاف کی حکمت عملی، ان کے طرز بیان سے اختلاف سہی، مگر یہ بات ماننا ہوگی کہ عمران خان نے الیکشن دھاندلی کو بھرپور قومی ایشو بنا دیا ہے۔پچھلے بیس پچیس برسوں میں پہلی بار الیکشن کے حوالے سے ملک میں اتنی بھرپور بحث شروع ہوئی ہے۔ الیکشن ریفارمز تو اب یقینی ہو چکیں۔ آئندہ عام انتخابات بائیومیٹرک سسٹم کے تحت ہی کرائے جائیں گے، اس سے کم پر کوئی تیار بھی نہیں ہوگا۔پچھلے سال کے الیکشن دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات بھی اب کرانی پڑیں گی۔ کسی کو اچھا لگے یا برا، کچھ حلقے تو ضرور کھلیں گے۔ یہ 
ٹھیک ہے کہ آئین میں الیکشن دھاندلی کے الزامات کی تحقیق کے لئے جوڈیشل کمیشن کی گنجائش نہیں، مگر آئین ساکت وجامد چیز نہیں۔ اس میں ترامیم ہوتی رہی ہیں، ایک اور ترمیم بھی لائی جا سکتی ہے، اگرقانونی گنجائش موجود ہے تو آرڈی ننس سے کام چل جائے گا۔ ن لیگ کی بدقسمتی کہ جتنے حلقے کھل رہے ہیں، وہاں سے عجیب وغریب خبریں آ رہی ہیں۔ خواجہ سعد رفیق کے حلقے کے چار پانچ پولنگ سٹیشن کے نتائج دوبارہ چیک ہوئے ہیں، صاف نظر آ رہا ہے کہ دال میں تھوڑا نہیں بلکہ خاصا کچھ کالا ہے۔ بیس پچیس فیصد کے قریب ووٹوں کی تصدیق نہیں ہوئی، ایک ایک ووٹر نے چھ چھ آٹھ آٹھ ووٹ ڈالے۔ جعلی شناختی کارڈ بھی برتے گئے۔ ہمارے سسٹم پر حیرت ہے ،جہاں انگوٹھے پر ان مٹ سیاہی کا نشان مخصوص ووٹرز کو بار بار ووٹ ڈالنے سے نہیں روک سکا۔یہ سب کچھ آسانی سے ہضم ہونے والا نہیں۔ خواجہ سعد رفیق کا یہ کہناکافی نہیں کہ ان پولنگ سٹیشن سے تو تحریک انصاف جیتی ہے۔ الیکشن میں ایک پولنگ سٹیشن پر کوئی ہار بھی جائے، اس کے ووٹ تو بہرحال موجود رہتے ہیں اور ٹوٹل میں شامل ہوتے ہیں۔ ایک امیدوار دس بیس پولنگ سٹیشن پر ہار بھی جائے ،لیکن اگر وہاں دھاندلی کی گئی ہو تو اس کے ہارنے کا مارجن کم ہوجائے گا،جس کا فائدہ مجموعی نتیجے میں پہنچے گا۔ پچھلے چند ماہ میںایسی ہی صورتحال کم وبیش ہر جگہ نظر آئی۔ یہ سب ایک طاقتور، بااختیار جوڈیشل کمیشن کے تقاضا کرتا ہے۔ ن لیگ کو بھی اپنا وزن اسی طرف ڈالنا چاہیے۔ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ میں منظم دھاندلی کے الزامات ثابت نہ ہوسکے تو حکومت کو اخلاقی برتری حاصل ہوجائے گی۔ موجودہ حالات میں تو حکومت ہر روز پہلے سے زیادہ کمزورپڑ رہی ہے۔ حل تو نکالنا پڑے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں