بھیگی بھیگی رت

سال ختم ہونے کو ہے، بھیگا بھیگا سا دسمبردھند آلود ہوچکا ، سردی کی شدت بھی بڑھ گئی ہے۔ لاہور میں دسمبر کے آخری دس دنوں سے لے کر جنوری کے اواخر تک شدید سردی کی ایک لہر آتی ہے، جس میں جلد تڑخا دینے والی خشکی اور رگوں میں خون جما دینے والی ٹھنڈ ک موجودہوتی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہر گزرے سال کے ساتھ گھریلو صارفین کے لئے گیس کی قلت بڑھتی جا رہی ہے۔لگتا ہے اگلے دو تین برسوں میں ہیٹر اور گیزر تو خوابوں خیالوں کا حصہ ہی بن جائیں گے۔
اگلے دن ایک دوست سے بات ہورہی تھی کہ سردی کی شدت بڑھ گئی ہے یا ہماری قوت مدافعت کم ہوچکی کہ اب ٹھنڈ تکلیف دہ بن جاتی ہے۔ پھر خیال آیا کہ ایک توگیس نہ ہونے کے باعث ہیٹر ناکارہ ہوگئے ، دوسرا پہلے کمروں کے اندر کوئلوں کی انگیٹھی کا رواج عام تھا،دہکتے انگاروں پر ہاتھ سینک لیا کرتے ، کمرہ بھی گرم ہوجاتا، رات کو سوتے وقت یاد سے یہ کوئلے باہر صحن میں رکھ دئیے جاتے کہ کسی نقصان کا باعث نہ بنیں۔ ایک فیکٹر ہماری غذائی عادات میں تبدیلی کا بھی ہے۔مجھے یاد ہے کہ ہمارے بچپن میں بلکہ بہت بعد تک ہمارے گھر میں سردی کے حوالے سے کئی چیزیں بنا کرتیں، تل کے لڈو،میوہ جات کی پنجیری، ابلے انڈے،دیسی گھی والا چنے کی دال یا گاجر کا حلوہ عام تھا۔ مائیں اہتمام سے بچوں اور بڑوں کو کھلاتی، یہ مقوی اشیا قوت مدافعت بڑھاتی اور سردی کا توڑ کرتیں۔ شہد کی افادیت کے بارے میں پڑھا تو بہت کچھ، اپنے تجربے سے یہ سیکھا بھی کہ اگر شہد کا ایک چمچ روزانہ استعمال کر لیا جائے تو چیسٹ انفیکشن سے بچا جا سکتا ہے۔ بچوں کو خاص کر کسی نہ کسی شکل میں شہد روزانہ دینا چاہیے۔ ایک دوست حکیم نے ادرک کی چائے کا مشورہ دیا، اسے نہایت کارگر پایا۔ ویسے تو ادرک کا رس شہد کے ساتھ ملا کر چٹانے سے بچوں کا خراب گلا ٹھیک ہوجاتا ہے، اینٹی بائیوٹک کی ضرورت نہیں پڑتی۔ دودھ ابالتے وقت دار چینی کا ایک چھوٹا ٹکڑا ڈال دیا جائے تو یہ سردی سے بچانے کے ساتھ ساتھ اعصابی قوت بھی بڑھاتا ہے۔ 
لاہور میں قیام کے دوران میں نہاری اور ہریسے جیسی مقوی اور انتہائی لذیذ غذائوں سے روشناس ہوا۔ نہاری کے بارے میں پہلا تعارف اردو کے مشہور ادیب شاہدا حمد دہلوی کے ایک مضمون سے ہوا۔ ہمارے شہر میں پائے ہی کو نہاری کہہ دیا جاتا، شاہد دہلوی سے پتہ چلا کہ یہ کیا چیز ہے، لاہور آکر جب کھائی تو اس کے ذائقے کا اسیر ہوگیا۔ دیکھئے شاہد احمد دہلوی نے کس اشتہا انگیز انداز میں نہاری کا تعارف کرایا۔''دلی میں نہاری ایک خاص قسم کا سالن ہوتا تھا جو بڑے اہتمام سے تیار کیا جاتا تھا اور بازار میں فروخت ہوتا تھا۔ اس کے پکانے کا ایک خاص طریقہ ہے اور اس کے پکانے والے خاص ہوتے ہیں۔ نہاری کو آج سے نہیں 57 ء کے پہلے سے دلی کے مسلمانوں میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یوں تو گھر میں بھی اور باہر بھی سینکڑوں قسم کے قورمے پکتے ہیں مگر نہاری ایک مخصوص قسم کا قورمہ ہے جس کا پکانا سوائے نہاری والوں کے اور کسی کو نہیں آتا ۔اس کے پْخت و پز کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اسے ساری رات پکایا جاتا ہے، اور پکنے کی حالت میں ہمہ وقت اس کا تاؤ مساوی رکھا جاتا ہے۔ اس کام کے لیے بڑی مشق و مہارت کی ضرورت ہے۔ تیسرے پہر سے اس کی تیاری شروع ہوتی ہے۔ دکان کی دہلیز کے پاس زمین میں ایک گڑھا کھود کر ایک گہرا چولہا یا بھٹی بنائی جاتی ہے اور اس میں ایک بڑی سی دیگ اتار کر اس طرح جمادی جاتی ہے کہ صرف اس کا گلا باہر نکلا رہ جاتا ہے۔ چولھے کی کھڑکی باہر کے رْخ کْھلتی ہے۔ اس میں سے ایندھن ڈالا جاتا ہے جو دیگ کے نیچے پہنچ جاتا ہے۔ آگ جلانے کے بعد جیسے قورمے کا مسالا بھونا جاتا ہے۔ گھی میں پیاز داغ کرنے کے بعد دھنیا، مرچیں، لہسن، ادرک اور نمک ڈال کر نہاری کا مسالا بھونا جاتا ہے‘ جب مسالے میں جالی پڑ جاتی ہے تو گوشت کے پارچے، خصوصاً ادلے ڈال کر انہیں بھونا جاتا ہے اس کے بعد اندازے سے پانی ڈال کر دیگ کا منھ بند کردیا جاتا ہے۔
'' پکانے والے کو جب آدھ گلے گوشت کا اندازہ ہوجاتا ہے تو دیگ کا منھ کھول کر اس میں پچیس تیس بھیجے اور اتنی ہی نلیاں یعنی گودے دار ہڈیاں ڈال دی جاتی ہیں۔ شوربے کو لبدھڑا بنانے کے لیے آلن ڈالا جاتا ہے۔ پانی میں آٹا گھول کر آلن بنایا جاتا ہے۔ اب دیگ کے منھ پر آٹا لگا کر کونڈے سے بندکردیا جاتا ہے۔ یہ دیگ ساری رات پکتی رہتی ہے اور اس کا تاؤ دھیما رکھا جاتا ہے۔ بارہ چودہ گھنٹے پکنے کے بعد جب علی الصبح دیگ پر سے کونڈا ہٹایا جاتا ہے تو دور دور تک اس کی اشتہا انگیز خوشبو پھیل جاتی ہے۔ سب سے پہلے دیگ میں سے بھیجے اور نلیاں نکال کر الگ لگن میں رکھ لی جاتی ہیں۔ پھر گاہکوں کا بھگتان شروع ہوتا ہے۔ یہ کھانا کیونکہ دن کے شروع ہوتے ہی کھا لیا جاتا ہے‘ اس لیے اس کا نام نہار کی رعایت سے نہاری پڑ گیا۔‘‘
دلی والے نہاری کو منہ نہار ہی کھایا کرتے تھے،کہتے ہیں دکانوں پر نماز فجر سے پہلے ہی برتن پہنچ جاتے تھے، سورج نکلنے سے پہلے پہلے نہاری والے اپنامال نکال کر دکان بند کر کے گھر چلے جاتے۔ لاہوریوں نے اپنے مزاج کے مطابق نہاری کو ظہرانے اور عشائیہ کا کھانا بنا دیا۔ خاص کر رات کو تو رش دیدنی ہوتا ہے۔ نہاری روایتی طور پر بیف کی بنتی ہے،لاہور میں چکن کی نہاری بھی عام ملتی ہے۔ کہتے ہیں کہ کسی نے مولانا مودودی سے اس کا ذکر کیا تو وہ مسکرا کر بولے، لاہوریو کسی چیز کو بخش بھی دو، مرغ کی بھی نہاری بنا دی۔دلی والے دن چڑھے نہاری کھانے کو باسی قورمہ کھانے کے مترادف سمجھتے۔ شاہد دہلوی ان آداب کے بہت قائل تھے۔ ایک بار انہوں نے مشہور ادیب شوکت تھانوی کو اپنے گھر نہاری کا ناشتہ کرنے کی دعو ت دی اور تاکید کی کہ فجر کے بعد لازمی پہنچنا ہے۔ شوکت تھانوی ادیب آدمی، رات گئے سوئے، صبح سات آٹھ بجے اٹھے، نہادھو کر نو، ساڑھے نو تک شاہد دہلوی کے گھر پہنچے ۔ ادھر شاہد صاحب نے علی الصبح اپنے دستور کے مطابق نہاری تیار کروا، مغز گھی میں بھنوا کر تیار کرا رکھے، مہمانوں کاکچھ پتہ نہیں۔ کچھ دیر بے چینی سے ٹہلتے رہے، پھر گھنٹے کے بعد بیگم کو کہا کہ نہاری تو اب ہوگئی باسی قورمہ، تھانوی صاحب آئیں تو بیٹھک میں صرف چائے بھجوائیے گا۔ ادھر شوکت تھانوی نہاری کے انتظار میں بیٹھے تھے، اندر سے صرف چائے آئی،وہ سمجھے کہ شائد اس کے بعد ناشتہ آئے گا۔ کوئی آثار نظر نہ آئے تو کچھ دیر کے بعد کسمساتے ہوئے اشارتہ ً پوچھا۔ شاہد دہلوی بھرے بیٹھے تھے، تنک کر بولے ،'' میاں آپ کو نہاری کے لئے ہی بلایا تھا، آپ نہیں پہنچے، انتظار کرتے رہے، پھر جب نہاری باسی قورمہ بن گئی تو اسے باورچی خانے کے سنک میں انڈیل دیا۔ چائے البتہ حاضر ہے،گلوری بھی پیش کی جا سکتی ہے۔‘‘ تصور کیا جا سکتا ہے کہ شوکت تھانوی پر کیا گزری ہوگی؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں