معاملہ اکیسویں آئینی ترمیم کا

فوجی عدالتوں کے حوالے سے پارلیمنٹ نے قانون سازی کر لی، عملاً یہ نافذ ہوچکا، اس کے مضمرات پر مگر ابھی بحث جاری ہے۔ پچھلے چوبیس گھنٹوں سے ہمارے ہاں میڈیا، سیاسی ڈیروں، چائے خانوں اور فیس بک وغیرہ پر اس حوالے سے دھواں دھار بحث جاری ہے۔ فوجی عدالتوں کے حوالے سے دو واضح نقطہ نظررکھنے والے حلقے موجود ہیں۔
حکمران جماعت مسلم لیگ ن نے اس کی بھرپور حمایت کی اور پارلیمنٹ سے اس کی منظوری کے لئے عملی کوشش کی، اے این پی ، مسلم لیگ فنکشنل، ق لیگ وغیرہ نے اس کی حمایت کی ۔بلوچ اور پشتون قوم پرست جماعتیں روایتی طور پر فوجی عدالتوں کی مخالف رہی ہیں، مگر انہوںنے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے فوجی عدالتوں کے قیام کی(حاصل بزنجو کے الفاظ میں زہر کا گھونٹ پیتے ہوئے) حمایت کی۔ پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کو اس پر اعتراضات تھے، انہیں خطرہ تھاکہ کہیں مستقبل میں یہی فوجی عدالتیں سیاستدانوں کے خلاف استعمال نہ ہوں، آئینی ترمیم میں وضاحت کر دی گئی کہ کسی رجسٹرڈ سیاسی جماعت کے خلاف ان فوجی عدالتوں میں کارروائی نہیں ہوگی، تب وہ بھی حمایت کے لئے تیار ہوگئیں۔ تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی آئینی ترمیم کی منظوری کے موقعہ پر اسمبلی سے غیر حاضر رہے، مگر اس کی وجہ انہوںنے آئینی ترمیم نہیں بلکہ الیکشن اور جوڈیشل کمیشن کے حوالے سے حکومت سے جاری تنازع بتایا، جس کی وجہ سے وہ اسمبلیوں سے پہلے ہی استعفے دے چکے ہیں۔ فوجی عدالتوں کی پارلیمنٹ میں موجود مذہبی سیاسی جماعتوں‘ جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ اور جماعت اسلامی نے مخالفت کی؛ تاہم ان دونوں جماعتوںنے آئینی ترمیم کی مخالفت میں بھی ووٹ نہیں ڈالا اور اس کے بجائے بائیکاٹ کرنے کی راہ اپنائی۔
فوجی عدالتوں کی مخالفت دو تین حلقوں کی جانب سے ہور ہی ہے۔ وکلا برادری، عدلیہ کے ریٹائر ججوں کی اکثریت بشمول سابق چیف جسٹس افتخار چودھری، بعض ہیومن رائٹس ایکٹوسٹس، فوج اور اسٹیبلشمنٹ کے لئے نسبتاً ناپسندیدہ جذبات رکھنے والے سول سوسائٹی ایکٹوسٹس اور سیاسی ورکر، سب سے بڑھ کربعض مذہبی سیاسی جماعتیں اور دینی مدارس پر مشتمل ایک بڑا دینی حلقہ۔یہ سب اپنی اپنی وجوہ کی بنا پر مخالفت کر رہے ہیں۔ کسی کو اندیشہ ہے کہ فوجی عدالتیں ہمارے سول جوڈیشری سسٹم کی توہین اور اسے ناکارہ ثابت کرنے کے مترادف ہے، کسی کو اپیل کا حق نہ ہونے پر اصولی اعتراض ہے کہ اس سے فیئر ٹرائل ممکن نہیں ہوپائے گا، کسی کے خیال میں اس سے سویلین بالادستی کو نقصان پہنچے گااور عملی طور پر فوج کی حکمرانی کی راہ ہموار ہوگی۔مخالفت کرنے والوں میں پیش پیش جے یوآئی فضل الرحمن گروپ اور ان کے حامی مسلک کے علما، مدارس اور ان کی تنظیمیں ہیں۔ انہیں خطرہ ہے کہ اس آئینی ترمیم سے مذہبی حلقوں ، خاص کر انہیں نشانہ بنایا جائے گا۔ آئینی ترمیم میں موجود فقرہ ''مذہب اور فرقے کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں‘‘ پر انہیں شدیداعتراض ہے۔مولانا فضل الرحمن نے اس حلقے کی ترجمانی ان الفاظ میں کی ہے ،'' دہشت گرد مذہبی یا غیر مذہبی نہیں ہوتا، اس لئے یہ الفاظ حذف ہونے چاہئیں، دوسرا
سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق ملنا چاہیے، تیسرا دو سال کے بعد ان فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع نہ دینے کی گارنٹی دی جائے۔ ‘‘ فیس بک پر مولانا فضل الرحمن اور جماعت کے حامی بڑے زور شور سے دو باتیں دہرا رہے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ اکیسویں ترمیم سے پاکستان کو سیکولر بنانے کی راہ ہموار ہوگی، دوسر ا اس سے مذہبی حلقوں، مذہبی جماعتوں اور مدارس کے خلاف کریک ڈائون کی راہ ہموار ہوگی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ علمائے اہل سنت(سنی بریلوی) کی مذہبی سیاسی جماعتوں، ہزاروں مدارس پر مشتمل ان کی تنظیموں ، اہل تشیع کی سیاسی تنظیم، ان کے مدارس، سلفی مکتبہ فکر کی سیاسی جماعتوں ، ان کے مدارس وغیرہ اس ترمیم کی مخالفت میں مولانا فضل الرحمن کی طرح پیش پیش نہیں، اگرچہ یہ خطرہ انہیں بھی ہے کہ اگر مدارس کے حوالے سے قوانین سخت ہوتے گئے، فنڈنگ پر پابندیاں لگتی گئیں اور فرقہ ورانہ لٹریچر اور تقریروں پر پابندیاں لگنے لگیں تو وہ بھی شکنجے میں آ جائیں گی۔ جماعت اسلامی کے دو مسائل ہیں۔ ایک تو وہ اپنے آپ کو روایتی دینی فکر سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتی ہے، یہ اور بات کہ اس روایتی رائیٹ ونگ نے کبھی جماعت کو قبول کیا نہ کرے گا، ایم ایم اے میں کئی سال گزارنے کے باوجود خود جے یوآئی کے کارکنوں اور علما ء میں سید مودودی اور جماعت کے لئے موجود معاندانہ جذبات میں کوئی کمی نہیں آئی۔ تاہم جماعت اسلامی اپنی طرف سے ''یکجہتی‘‘ کے مظاہروں میں لگی رہتی ہے، دوسرا جماعت اسلامی کا اعتراض یہ ہے کہ مذہب اور فرقے کے نام پر دہشت گردی کے الفاظ استعمال کرنے سے تمام فوکس اس طرف ہوجائے گا اور کراچی میں جاری دہشت گردی کے ذمے داروں کے خلاف ملٹری کورٹس میں مقدمے نہیں چلائے جائینگے، ایسا ناانصافی اور سلیکٹڈ جسٹس کے مترادف ہے۔ اس اعتراض کو ویسے بلاجواز نہیں کہا جا سکتا، صولت مرزا کی پھانسی موخر ہو جانے سے ان تحفظات کو تقویت ملی ہے۔
فوجی عدالتوں کے حامیوں کے دو تین دلائل ہیں۔ مسلم لیگ ن کے لیڈر اسے ناپسندیدہ آپشن بتا رہے ہیں، مگر ان کے خیال میں ملک کے ہنگامی حالات اس کے متقاضی ہیں اور اس کے بغیر دہشت گردوں کو کیفرکردار تک نہیں پہنچایا جاسکے گا۔ فوجی عدالتوں کے حوالے سے دو تین تکنیکی نوعیت کے پوائنٹس بھی موجود ہیں۔ ان عدالتوں کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ وقت بچے گا اور دہشت گردوں کے خلاف مختصر عرصے میں فیصلہ کن کارروائی ہوسکے گی، اپیل کا حق نہ ہونے کے باعث فیصلے پر فوری عملدرآمد بھی ہوجائے گا، ہمارے ہاں وکلاء برادری جس طرح قانونی نکات اٹھا کر کیس کو لمباکرتی اور لٹکاتی ہے، وہ نہیں ہوسکے گا۔ آرمی کورٹ کے ججز کرنل کی سطح کے افسر ہوں گے، جن کی شناخت پوشیدہ رکھی جائے گی، فوج کے مخصوص ڈسپلن کے تحت ایسا ممکن بھی ہو سکے گا،ورنہ سول عدالتوں میں اگر ججز کے نام پوشیدہ رکھنے کی کوشش بھی کی جائے تو اہلمد اور ریڈرزجیسے عدالتی عملے سے چند سو روپوں کے عوض ہر قسم کی معلومات لی جا سکتی ہیں۔ فوجی عدالتوں میں تحفظ ہونے کے ناتے ججز بے خوف ہو کر فیصلے دے سکیں گے ورنہ ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں، جہاں انسداد دہشت گردی عدالت کے ججوں نے بعض ہائی پروفائل کیسز سننے سے انکار کر دیا ۔تیسرا اور سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ اس سے آرمی پر مسنگ پرسنز کے حوالے سے دباؤ کم ہو گا اور وہ ان دہشت گردوں کو نسبتاً زیادہ قانونی فریم ورک کے تحت ہینڈل کر سکے گی۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ دہشت گرد ایک منفرد قسم کا مجرم ہے، اس کا بالعموم کوئی کرمنل ریکارڈ نہیں ہوتا، اس کے جرم کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ چشم دید گواہ یا روایتی قوانین شہادت کا رول نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے اس لیے سپیشل ضوابط کا اجراء مجبوری بن جاتا ہے۔ ہمارا مروجہ کرمنل جسٹسں سسٹم تو اس قدرکمزور ہے کہ تسلیم شدہ ہسٹری شیٹر مجرم، بدنام دہشت گرد بھی عدم پیروی، عدم ثبوت یا بعض کیسز میں جج صاحبان کو دھمکیوں کے پیش نظرباعزت بری ہو جاتے ہیں اور ''انصاف کی فراہمی ‘‘کی واحد صورت پولیس مقابلہ ہی رہ جاتا ہے۔
اکیسویں ترمیم کے حوالے سے مخالفت یا حمایت میں کس قدر وزن ہے، فوجی عدالتوں کے کیا ضمنی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور کیا ا س سے دہشت گردی کا جڑوں سے خاتمہ ہوسکے گا... یہ نہایت اہم سوالات ہیں، ان پر بات ہوتی رہے گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں