تہذیبوں کا تصادم ؟

فرانسیسی میگزین میں توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے بعد تہذیبوں کا تصادم (Clash Of Civilization) والی بحث ایک بار پھر شروع ہوچکی ہے۔ اٹھارہ انیس برس پہلے اس سوال نے سراٹھایا تھا، مشرق اور مغرب میں اس پر کچھ بحث ہوئی اور پھر رفتہ رفتہ دوسرے ایشوز تلے دب گئی۔
کلیش آف سولائزیشن والی تھیوری بنیادی طور پر مشہور امریکی سکالر فوکو یاما کے مقالے اینڈ آف ہسٹری کے جواب میں لکھی گئی۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے کچھ عرصہ بعد جاپانی نثراد فوکو یاما نے، جو ہارورڈ یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں، ان کے ایک مقالے تاریخ کا اختتام(End of History) نے عالمی میڈیا میں تہلکہ مچا دیا۔ فوکویاما کا کہنا تھا کہ کمیونزم کی شکست کے بعد اب مغربی تہذیب اور فکر کا غلبہ یقینی ہوگیا، اب کوئی اور تہذیب یا فکر اس کے مقابلے میں نہیں بلکہ سب اسی مغربی تہذیب ، مغرب اور مغربی قدروں کی پیروی کریں گی۔ 
اس مقالے کے دو ڈھائی برس بعد ایک اہم امریکی جریدے فارن افیئرز میں فوکویاما کے ایک اُستاد اور ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر سمیوئیل پی ہنٹنگٹن کا مقالہ ''تہذیبوں کا تصادم‘‘ شائع ہوا، بعد میں اس پر ان کی کتاب تہذیبوں کا تصادم... اور ورلڈ آرڈر کی تجدید نو (Clash of Civilization and Remaking of World Order) شائع ہوئی۔ پروفیسر ہنٹنگٹن نے فوکویاما کی تھیوری کو رد کرتے ہوئے کہا '' اگرچہ یہ درست ہے کہ اب دُنیا میں نظریات کا تصادم نہیں ہوگا مگر یہ نتیجہ اخذ کرنا بھی غلط ہوگا کہ مغرب کی جمہوریت اور سیاسی نظام ہی سب کے لیے قابل قبول ہوگا۔‘‘ ہنٹنگٹن کے بقول اب دُنیا میں تصادم اور کشمکش کا بنیادی سبب ثقافتی(کلچرل) اختلاف ہوگا ۔
پروفیسر ہنٹنگٹن دُنیا کو چھ سات مختلف تہذیبوں میں تقسیم کرتا ہے۔ 
(1)ویسٹرن یا مغربی تہذیب (اس میں یورپ، شمالی امریکہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شامل ہیں) ،لاطینی امریکہ اور روس کی ریاستیں بھی اس میں شامل ہو سکتی ہیں بصورت دیگر وہ لاطینی امریکی اور آرتھوڈوکس یا سلاوک مشرقی یورپ کی شکل میں اپنی علیحدہ علیحدہ تہذیبیں بنائیں گی۔
(2)مسلم تہذیب (اس میں مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ، سینٹرل ایشیا ، پاکستان ،بنگلہ دیش اور بھارت کا مسلم حصہ شامل ہے)
(3)ہندو تہذیب (بھارت، نیپال اور دُنیا بھر میں آباد ہندو)
(4)چینی (Sinic) تہذیب (چین، کوریا، ویت نام، سنگا پور، تائیوان اور دُنیا بھر میں آباد چینی)
(5)ذیلی صحرائی افریقی ممالک۔
(6)بدھ تہذیب (بھوٹان، منگولیا، سائبریا، تھائی لینڈ، کمبوڈیا، لائوس، تبت، میانمار اور نیپال و شمالی بھارت کے بدھسٹ)
(7)جاپانی تہذیب۔
پروفیسر ہنٹنگٹن کے مطابق ان تہذیبوں میں صدیوں سے مختلف قسم کے باہمی اختلافات موجود ہیں اوریہ ایک دوسرے پر بالادستی پانے کے لیے بھی کوشاں رہتی ہیں۔ اسی لیے مستقبل میں جنگیں ان تہذیبوں کے تصادم کی بناء پر ہوں گی۔ آگے جا کر امریکی پروفیسر اپنے نظریہ کی مزیدوضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آرتھو ڈوکس، ہندو اور جاپانی تہذیبیں ''سوئنگ سویلائزیشن‘‘ ہیں جو وقت اور موقع کو دیکھتے ہوئے کسی بھی سمت میں جا سکتی ہیں (یعنی مغربی تہذیب کا پلہ بھاری دیکھ کر وہ اس کے ساتھ ہی لگی رہیں گی، مخالف نہیں ہوں گی) جبکہ مغربی سویلائزیشن کے لیے اصل خطرہ مسلم تہذیب اور چینی تہذیب ہے۔ مستقبل میں یہ دونوں یکجا ہو کر مغربی تہذیب کے خلاف کھڑی ہو جائیں گی۔‘‘
پروفیسر ہنٹنگٹن اپنی کتاب میں مختلف اعداد و شمار پیش کر کے لکھتے ہیں کہ بیسویں صدی کے آغاز میں ایک دو مسلمان ملک ہی آزاد تھے مگر اب پچاس سے زیادہ مسلمان ملک آزاد ہو چکے ہیں۔ ان کی آبادی بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اگرچہ ان میں مختلف نسلی (عرب، کرد، ایرانی، بنگالی، پاکستانی وغیرہ) اور لسانی اختلافات موجود ہیں مگر اپنی مسلم تہذیب اور عقیدے کے اعتبار سے وہ سب یک جان اور متحد ہی ہیں۔چین کی غیر معمولی تیزی سے پھیلتی اور فروغ پاتی معیشت بھی مغرب کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ ہنٹنگٹن نے مغرب کو اس ''خطرے‘‘ سے نمٹنے کے لیے چھ مشورے بھی دیئے جو یہ ہیں: ''مغرب اپنی تہذیب کے اندر تعاون اور اتحاد میں اضافہ کرے، خاص کر یورپ اور شمالی امریکہ یعنی امریکہ اور کینیڈا کے درمیان فاصلے ختم ہونے چاہئیں۔اسلامی تہذیب اور کنفیوشین (چینی) تہذیبوں کی عسکری قوت کو بڑھنے سے روکا جائے۔مغربی اقدار اور مفادات کی جانب نرم گوشہ رکھنے والی تہذیبوں کو ساتھ ملایا جائے۔ اسلامی تہذیب اور چینی تہذیب کے درمیان اختلافات پیدا کیے یا بڑھائے جائیں۔ مغربی مفادات کو آگے بڑھانے اور انہیں قانونی اور اخلاقی جواز فراہم کرنے والے عالمی اداروں کو مزید مضبوط اور مستحکم کیا جائے‘‘۔
یہ تو تھا تہذیبوں کے تصادم والی تھیوری کا پس منظر... ہمارے سامنے سوال اب یہ ہے کہ اسلام اور اسلام کے مرکزیعنی اللہ کے آخری رسول ﷺ کی ذات مبارکہ پر مختلف وقفوں سے ہونے والے گھٹیا حملے تہذیبوں کے تصادم کا حصہ ہیں؟ اس سے جڑا سوال وہی ہے کہ مسلمانوں کو کیا ردعمل پیش کرنا چاہیے۔ 
دوتین باتیں سمجھنا ضروری ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ تہذیبوں کے تصادم والی تھیوری ہمارے کسی مفکر یا کسی غیرجانبدار سوچ والے سکالر کی نہیں۔ یہ سوچ بنیادی طور پر مغرب کے دائیں بازو یعنی سخت گیر حلقے سے پھوٹی ہے اور اسے آگے بڑھانے والے بھی مغرب کے بعض اہم کارپوریٹ عناصر ہیں۔ جب ہم تہذیبوں کے تصادم کی بات کو آگے بڑھاتے ہیںتو دراصل ہم اسی مغربی لابی کے ہاتھوں کھلونا بنتے اور ان کے ایجنڈے کی تکمیل کا باعث بنتے ہیں۔ اینڈ آف ہسٹری والی تھیوری بھی کمیونزم کی شکست پر جشن منانے کے لئے ہی بنائی گئی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ مغرب کی کارپوریٹ ورلڈ کو یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ ان کے مفادات کے لئے کسی دشمن کا وجود ضروری ہے، تب کلیش آف سوئلائزیشن والی تھیوری بنائی گئی تاکہ مغربی عوام کو یہ بتایا جا سکے کہ چونکہ ابھی مسلم اور چینی تہذیبیں موجود ہیں، وہ ہمارے لئے خطرہ بن سکتی ہیں، اس لئے سینکڑوں، ہزاروں ارب ڈالر کے اخراجات کا جواز ابھی موجود ہے۔ یاد رہے کہ ٹکرائو اور تصادم کارپوریٹ ورلڈ کے بڑے حصے کے لئے نعمت کی حیثیت رکھتا ہے۔ ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کے ہتھیار فروخت ہوتے ہیں، میڈیا بھی اسی ٹکرائو کے باعث سنسنی پیدا کرتا اور کماتا ہے۔
دوسرا اہم نقطہ یہ سمجھ لیجئے کہ مغربی کارپوریٹ ورلڈ ہو، وہاں کی حکومتیں یا پارلیمان... ان سب کی ایک کمزوری ہے، رائے عامہ ۔ بہت سے پاکھنڈ اسی عوام کو بے وقوف بنانے، اس کی سوچ بدلنے اور ایک خاص مائنڈ سیٹ بنانے کے لئے کئے جاتے ہیں۔ امریکہ کے وائیٹ اینگلوسیکسین پروٹسٹنٹ ہوں، یورپی کارپوریٹ ورلڈ یا فاکس نیوز جیسے ٹی وی چینل، سب کا فوکس وہاں کے عوام ہی ہیں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ اسی مغربی دنیا میں نوم چومسکی، جارج گیلوے جیسے لوگ بھی ہیں، جو اس کارپوریٹ ورلڈ کو چیلنج کرتے اور عام آدمی تک اصل بات پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے پاس دو آپشنز ہیں۔ ہم مغربی کارپوریٹ ورلڈ کے بے رحم ایجنڈے کا شکار ہوجائیں،شدید اشتعال میں آکر وہ سب کچھ کر گزریں ،جو وہ چاہتے ہیں اور ٹکرائو کے ایسے لایعنی سفر پر چل نکلیں ،جس کا کوئی انت نہیں، کوئی حاصل نہیں۔ دوسرا یہ کہ ہم مثبت سوچ کے ساتھ بڑے تدبر، دانش مندی اور مومنانہ فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان جالوں سے بچ نکلیں ۔ میں قطعاً یہ نہیں کہہ رہا کہ خاموش ہو کر بیٹھ جائیں۔ اس کے بجائے ہمیں پرامن ،مگر منظم احتجاج کے ذریعے اپنی بات ہر جگہ پہنچانی چاہیے۔ مغرب کی رائے عامہ کو اپنا ٹارگٹ بناناچاہیے۔ انہیں بتائیں کہ آزادی اظہار کے یہ معنی نہیں ،جو اس چیتھڑے میگزین چارلی ہیبڈو نے اپنائے ہیں۔ ہمیں اس حرکت سے شدید کرب اور اذیت پہنچی ۔ ہمارے احتجاج کو سمجھا جائے۔ ہم آزادی اظہار کو کچلنا نہیں چاہتے، مگر کسی شخصیت کی توہین، کسی گروہ یا قوم کو ذہنی ٹارچر کرنے کے مخالف ہیں۔ ہم آپ کے جذبات ، احساسات کا احترام کرتے ہیں، یہی کام آپ کو کرنا چاہیے۔ اس احتجاج کے مختلف طریقے ہوسکتے ہیں، پچھلی نشست میں چند تجاویز دی تھیں، ماہرین اور اہل علم کئی نئے آئیڈیاز تخلیق کر سکتے ہیں۔ احتجاج ضرور کیا جائے ، مگر موثر اور دیرپا انداز میں ۔ ایسا احتجاج نہ ہو کہ ایک روز آگ بھڑک اٹھے اور اگلے روزچنگاریاں بھی نہ ملیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں