بنیادی نقطہ

ایک بہت مشہور بلکہ پامال قسم کی حکایت ہے، جس میں چار پانچ نابینا افراد رئیس شہر کے اصطبل میں کھڑے ہاتھی کے پاس گئے۔ حسب عادت انہوں نے چھو کرہاتھی کا اندازہ کرنا چاہا۔ کسی نے اس کے پیٹ کو چھوا، کسی نے کان پکڑے، کوئی سونڈ سے لٹک گیا اور کسی کا ہاتھ دم پر جا پڑا۔فطری طور پر ہر ایک کا تاثر ایک دوسرے سے یکسر مختلف تھا، بعد میں جھگڑتے رہے کہ ہاتھی ایسا تھا، نہیں ایسا تھا... اپنی جگہ وہ سب سچے تھے۔ بدقسمتی یہ تھی کہ سچائی ان تک ٹکڑوں میں پہنچی اور اپنے پاس سچائی کا ایک چھوٹا ٹکڑا ہونے کے باوجود وہ حقیقت کو نہیں پا سکتے تھے ، جب تک انہیں جوڑا نہ جائے۔
کم وبیش اسی طرح کی حالت ہمارے فکری حلقوں میں بھی نظر آ رہی ہے۔ مختلف قسم کے مباحث بڑے زورشور سے چل رہے ہیں۔ ماضی کے اہم سٹریٹجک فیصلے ہوں، قومی خارجہ پالیسی ہو، سیاسی قوتوں کا بیانیہ ہو یا پھر دہشت گردی کی آفت سے نمٹنے کا طریقہ کار... ہر ایک پر اپنے اپنے انداز سے بحث جاری ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ صورتحال کا تجزیہ کرنے اور حل تجویز کرتے ہوئے انتہا ئی رویے سے کام لیا جاتا ہے۔ کسی کے خیال میںمروجہ جمہوریت کفر اور اسلام سے متصادم ہے،دوسرا حلقہ اس جمہوری سسٹم کو مقدس گائے کی سی حیثیت دے ڈالتا ہے، جس کی جانی مانی خامیاں دور کرنے کے لئے اصلاحات لانے کی بھی ضرورت نہیں۔ بعض لوگوں کے خیال میں 1980ء کے عشرے میں افغان تحریک مزاحمت کی مدد کرنا جہاد تھا اور وہ ہماری تاریخ کا تابناک دور ہے، جس پر تنقیدی نظر ڈالنا بھی درست نہیں۔ یہ حلقہ اس ضمن میں کی گئی غلطیوں کا تجزیہ کرنے کو بھی تیار نہیں، یہ سوال اٹھانے والے ''جہاد دشمن‘‘ ہیں۔جواباً ایک حلقہ روس کے خلاف لڑائی میں حصہ دار بننے کو فساداور پاکستان کے تمام مسائل کی جڑ قرار دیتا ہے۔ ان کے خیال میں اس ایک غلطی سے ہم اپنے راستے سے ایسے ہٹے کہ آج تک مرکزی شاہراہ پر واپس نہیں آسکے۔ردعمل میں یہ حلقہ اس قدر آگے چلا گیا کہ سامنے کی حقیقتیں ماننے سے انکاری ہوگیا۔ سٹریٹجک ڈیپتھ (Strategic Depth) کا یہ مذاق اڑاتے اورروس کے گرم پانیوں تک پہنچنے کی پالیسی کو خام خیالی تصور کرتے ہیں۔دنیا بھر کے مبصرین جسے ہمیشہ ایک ٹھوس حقیقت مانتے رہے، خود سوویت یونین کے کئی ممتاز دفاعی ماہرین نے جس کی تصدیق کی۔
لبرل سیکولر فکر کے حامل اسی حلقے کے خیال میں بھارت اس خطے میں اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے جو کچھ کر گزرے، وہ اس کا حق ،مگر اپنے قومی مفاد کی خاطربھارتی ایجنڈے کو کائونٹر کرنے کے لئے ہمیں کچھ نہیں کرنا چاہیے۔ ہمارے مقدر میں صرف بھارت سرکار کے آگے ''سرنگوں‘‘ ہونا لکھا ہے۔ہمیں غیر مشروط طور پر بھارت کی تمام شرائط مانتے ہوئے اسے ایم ایف این سٹیٹس اور تجارتی سہولیات دینے کے ساتھ ساتھ اسے اپنا عظیم دوست اور ''مہربان‘‘ مان لینا چاہیے۔ دوسری جانب بعض مذہبی جماعتوں کا اصرار ہے کہ بھارت کو دشمن نمبر ایک سمجھنا چاہیے اور'' ہندو بنیا‘‘ کبھی ہمارا ہمدرد نہیں ہوسکتا، ہمیں اس کے خلاف ہر ہتھیار آزمانا چاہیے۔ سوال یہی اٹھتا ہے کہ آخر کیوں ؟ ہر حوالے سے شدت اور انتہا ہی کیوں ؟ آخر دوسری سمجھدار قوموں کی طرح ہم اپنے دوست دشمن کی تمیز ذہن میں رکھتے ہوئے معاملات آگے کیوں نہیں بڑھا سکتے؟ اپنے قومی مفادات سامنے رکھتے ہوئے سخت سودے باز (Tough Bargainer)کیوں نہیں بن سکتے ؟ دشمن پر نظر رکھیں، مگرآگے بھی بڑھتے رہیں۔ چین کی طرح، جو اپنے سب سے بڑے ممکنہ حریف سے پر نظر رکھتے ہوئے، اربوں ڈالر کی تجارت بھی کررہا ہے کہ اس تجارت کا توازن چین ہی کے حق میں ہے۔
مخالفت برائے مخالفت کا شکار ہوجانے والی ایک اور چیز قرارداد مقاصد ہے۔ پاکستان کی دینی قوتیں اسے اپنی سب سے بڑی کامیابی گردانتی ہیں کہ آئین میں اس کی شمولیت ملک کو ایک خاص سمت اور شناخت دیتی ہے۔ دوسری طرف لبرل سیکولر حلقے پاکستان میں موجود ہر خرابی کا ذمہ دار قرارداد مقاصد کو ٹھہراتے ہیں۔ ہمارے سیکولر دوستوں کا بس چلے تو تھراور چولستان کی قحط سالی اور غیر متوقع بارشوں کے باعث آنے والے سیلابوں کی تباہ کاری بھی قرارداد مقاصد کے کھاتے میں ڈال دی جائے۔ قرار داد مقاصد سے سماج میں شدت پسندی بڑھنے کی بات پر ہنسی آتی ہے کہ اسے منظور ہوئے پینسٹھ سال ہوچکے، اس کے بعدکے بیس پچیس سال ایسے تھے، جو پاکستانی تاریخ کا سب سے زیادہ لبرل دور سمجھا جاتا ہے۔آئین کا حصہ بن جانے والی ان چند سطروں میں یہ کیساجادو تھا کہ تین چار عشروں بعد اچانک ہی اس نے معاشرے پرشدت پسندی کا چھڑکائو شروع کر دیا۔ دراصل یہ سب خلط مبحث کا نتیجہ ہے۔ پاکستانی سماج کو جانے بوجھے بغیر، اس کی جڑوں سے واقفیت حاصل کئے بنا،ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر ایسے ہی تجزیے تراشے جا سکتے ہیں۔
آج کل بیانیہ کی بحث چل نکلی۔ دوسرا بیانیہ ، تیسرا بیانیہ اور نجانے کون کون سا بیانیہ۔ یہ بیانیہ انگریزی اصطلاح Narrative کا ترجمہ ہے، اسے تھیوری یا نظریہ کہا جاسکتا تھا، مگر بیانیہ شاید زیادہ پرکشش اور ان فیشن محسوس ہوا ہوگا۔ اس دوسرے، تیسرے، چوتھے بیانیہ کا نچوڑ ایک دوفقروں میں یہی ہے، ''ریاست کا مذہب نہیں ہوتا اور ریاست کو غیر مذہبی ہونا چاہیے، مذہب کو ریاست پر مسلط کرنے سے ہی سماج میں فساد پیدا ہوا ۔‘‘یہ سیدھا سادا سیکولرازم کا ترجمہ ہی ہے جو ہمیں یہ بتاتا ہے کہ مذہب ہر فرد اور خدا کا باہمی معاملہ ہے ، ریاست کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں،وہ اپنے قوانین انسانی دانش اور تجربات کی بنیاد پر بنائے گی۔ فرق صرف یہ ہے کہ بیانیہ کی اس جدید شکل میں سیکولرازم کو اسلامی اصطلاحات میں بیان فرمایا گیا، یعنی بھٹو صاحب کے اسلامی سوشلز م کی طرح اسے اسلامی سیکولرازم کہہ لیا جائے۔ 
ان بحثوں میں اہل علم ہی کو حصہ لینا چاہیے، جو اپنا اپنا نقطہ نظر بیان کر بھی رہے ہیں۔ ہم تو ایک طالب علمانہ گزارش ہی کرنا چاہیں گے کہ بنیادی نقطہ یہ نہیں کہ ریاست میں مذہب ہونا چاہیے یا نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہر ریاست اپنے معاملات کار چلانے، قوانین بنانے اور سسٹم وضع کرنے لئے کہیں نہ کہیں سے رہنمائی یا انسپائریشن لیتی ہے۔ کوئی نہ کوئی سورس یا منبع ضرور ہوتا ہے، جو اسے بنیادی اصول (Driving Princples) فراہم کرتا ہے۔ دراصل اسلامی سویلائزیشن یا اسلامی تہذیب اور ویسٹرن سویلائزیشن یا مغربی تہذیب الگ الگ ڈھانچے اور فکر کی حامل ہیں۔ اسلامی تہذیب صرف ایک نام نہیں بلکہ طرز زندگی (Way Of Life)ہے۔ یہ ہمیں بتاتی ہے کہ عدل ، انصاف، احسان کی مملکت میں کیا حیثیت ہوگی؟ اقلیتوں کے کیا حقوق ہیں، خواتین کا خیال رکھنا،ان کے ساتھ زیادتی نہ ہونے دینا، سوشل جسٹس یعنی کمزوروں، غریبوں کی مدد کرنا، ان کی بنیادی ضرورتوں کی نگہبانی کرنا‘ حفظ مراتب یعنی بڑوں کا احترام، سینئر سٹیزن کی تکریم، ہمسایوں کے ساتھ اچھا سلوک، معاہدوں کی سختی سے پابندی، ظلم اور زیادتی کے خلاف آواز اٹھانا، اخلاقی اصولوں کی خاطر کھڑے ہو جانا اور معاشرے کا بنیادی جوہر شرم وحیا کیوں ہو گا؟ فواحش سے اجتناب کتنا ضروری ہے ... وغیرہ وغیرہ۔ جب کوئی ریاست اسلامی تہذیب کو اپنا منبع بنائے گی تو اس کا طرز زندگی اور اس کا نظم ونسق دوسروں سے مختلف ہوگا۔کسی سیکولر ریاست میں خواہ سو فیصد مسلمان رہتے ہوں، وہاں کا طرز زندگی اسلامی تہذیب سے یکسر مختلف ہوگا۔ جب ہم کہتے ہیں کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے ، اسے سیکولر نہیں ہونا چاہیے تو بنیادی طور پر ہم اسلامی تہذیب سے رہنمائی لینے کی بات کر رہے ہوتے ہیں۔ قرآن جو اس وقت دنیا میں خدا کا مستند ترین متن ، طے شدہ طور پر اسکا کلام (Agreed Text) ہے، اس سے، اس کی الہامی دانش سے رہنمائی لینے کی بات کرتے ہیں۔ مولوی صاحبان کے جھگڑے، فقہی تعبیروں کا فرق، ہر فرقے کی اپنی تعبیر والی سطحی باتوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ کسی بھی فرقے کا اسلامی تہذیب سے کوئی اختلاف نہیں۔ سب اسے اعلیٰ وارفع اور مستند سمجھتے ہیں۔ بیانیوں کی اس لڑائی میں یہ بنیادی نقطہ نظر انداز نہیں ہونا چاہیے ، ورنہ سب خلط مبحث ہوجائے گا، کوئی نتیجہ نہیں نکل پائے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں