امید کے جزیرے

یہ ویک اینڈ لاہور سے باہر گزرا۔ بیس سے بائیس فروری تک لاہور میں لٹریری فیسٹول تھا۔ اس انگریزی زدہ ادبی میلے کے حوالے سے بعض تحفظات کے باوجود اسے مس کرنے کو جی نہیں چاہتا کہ پاک وہند کے کئی اہم سکالر اس میں شریک ہوتے ہیں۔ پچھلے دو برسوں سے لٹریری فیسٹول کے منتظمین نے پہلے اردو کے حوالے سے سیشن رکھنے شروع کئے ،پھر علاقائی زبانوں کو بھی نمائندگی دی۔ اس بار ایک سیشن سرائیکی زبان کے حوالے سے بھی تھا۔سرائیکی زبان کے منفرد شاعررفعت عباس، عاشق بزدار اور رانا محبوب کے ساتھ ڈاکٹر نخبہ لنگاہ کی گفتگو تھی۔رفعت عباس سرائیکی زبان کے دو تین ممتاز ترین شاعروں میں سے ایک ہیں۔ان کا ایک شعر بہت مشہور ہوا ؎
کیویں میکوں یاد نہ رہسی اوندے گھر دا رستہ
ڈو تے سارے جنگل آندن، ترے تے سارے دریا
ترجمہ: کیسے مجھے یاد نہیں رہے گااس کے گھر کا راستہ، (درمیان میں) دو ہی تو جنگل آتے ہیں اور صرف تین دریا (عبور کرنے پڑتے ہیں)۔
عاشق بزداربھی اپنی مخصوص شعری رنگ سے پہچانے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر نخبہ لنگاہ کی شناخت تین چارحوالوں سے ہے، وہ دانشور، استاد اور پاکستان سرائیکی پارٹی کی سربراہ ہیں ،جبکہ ان کا ایک اور جاندار حوالہ سرائیکی قوم پرست تحریک کے بانی بیرسٹر تاج محمد لنگاہ (مرحوم) کی صاحبزادی اور سیاسی وارث ہونا بھی ہے۔ اس سیشن کے علاوہ بھی اس فیسٹول میں خاصا کچھ تھا، بھارتی مورخ رومیلا تھاپر کے افتتاحی لیکچر میں بھی دلچسپی تھی، مگر انہی دنوں میں عبدالولی خان یونیورسٹی مردان (AWKUM)میں میڈیا کے حوالے سے نیشنل ڈیبیٹ میں شریک ہونے کی ہامی بھر چکا تھا۔ عبدالولی خان یونیورسٹی کے ماس کمیونی کیشن ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ شیراز پراچہ نے جب پروگرام کی تفصیل بتائی تو پہلے معذرت کرنے کا سوچا، پھر یہ خیال آیا کہ مردان جیسے قدرے لوپروفائل شہر میں،جس کی یونیورسٹی کا کبھی نام بھی نہیں سنا، وہاں جانے اور طلبہ واساتذہ کے ساتھ مکالمے کا موقعہ ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
یوں یہ ویک اینڈ مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں گزرا۔ میرے جیسے ''شرفا‘‘ جن کے ہاں سورج گیارہ بجے کے بعد طلوع ہوتا ہے، ان کے لئے صبح سات بجے اٹھ کر ڈیڑھ گھنٹے کے سفر کے بعد مردان پہنچنا اور وہاں سیشن در سیشن گھنٹوں گفتگو سننا اور گاہے اس میں شمولیت اختیار کرنا تزکیہ نفس کی کسی باقاعدہ کٹھن مشق سے کم نہیں تھا۔اس شیڈول میںایک کڑا دن ایسا بھی گزرا جب رات ایک بجے سونے کے صرف دو گھنٹوں بعد اٹھ کر پاکستان بمقابلہ ویسٹ انڈیز میچ بھی دیکھنا پڑا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ نیند سے بوجھل آنکھوں کے ساتھ ایک رنز پر چار وکٹیں گرنے کا ہولناک منظر بھی دیکھنا پڑا۔ خیر یہ سب کچھ جھیلنا پڑا ،مگرسچائی تو یہ ہے کہ مردان کی اس یونیورسٹی میںاچھوتے اور شاندار تجربے سے بھی گزرا ۔شیراز پراچہ پرانے صحافی ہیں، برسوں پہلے وہ پاکستان سے باہر چلے گئے، بی بی سی سے وابستہ رہے، سنٹرل ایشین ریاستوں میں رہے، ایک ایرانی ٹی وی کی بانی ٹیم میں رہے،آج کل عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کے ماس کمیونی کیشن ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ ہیں۔ شیراز پراچہ نے اپنے وائس چانسلر ڈاکٹر احسان علی کی سپورٹ سے نہایت شاندار دو روزہ نیشنل ڈیبیٹ منعقد کی۔ لاہور، کراچی اور اسلام آباد سے میڈیا کے بہت سے جگمگاتے ستاروں کے ساتھ کئی یونیورسٹیوں کے شعبہ ابلاغیات کے سربراہان اور وائس چانسلر صاحبان کو مردان میں اکٹھا کر دیا۔ اصل کما ل اس نیشنل ڈیبیٹ کے تصور اور اسے کمال مہارت کے ساتھ عملی جامہ پہنانے میں مضمر تھا۔ منتظمین نے ٹی وی ٹاک شوز کی طرز پر نہایت دلکش سیٹ ڈیزائن کیا ۔ اینکر کے دائیں او ربائیں چار چار نشستیں تھیں۔ پینل کے ساتھ دلچسپ گفتگو کے ساتھ ساتھ حاضرین میں موجود مختلف شعبہ ہائے زندگی کے معروف لوگوں کے تبصرے اور آرا شامل کرنا اور پھر مقامی صحافیوں اور طلبہ کے تندو تیز سوالات نے ہر سیشن کوازحد دلچسپ ، لائیواورانرجی سے بھردیا تھا۔ایسی بھرپورگفتگو اور بحث برسوں بعد کہیں پر سننے کو ملی۔ٹیمپو اتنا تیز کہ دو دو گھنٹوں کے سیشن میں سے چند لمحوں کے لئے اٹھنا مشکل ہوگیا تھا۔
نیشنل ڈیبیٹ کے مختلف سیشنز کے موضوعات بڑے دلچسپ تھے۔ پہلے سیشن کا عنوان تھا، کیا جرنلزم کے لئے ڈگری ضروری ہے؟ ایک طرف یونیورسٹیوں کے شعبہ ابلاغیات یعنی صحافت کے سربراہان تھے اور دوسری طرف صحافی حضرات۔ایک طرف اساتذہ کا اصرار کہ صحافت کی تربیت کے بغیر معیاری صحافت کیسے ممکن ہے؟دوسری طرف سینئر صحافی جوایم اے صحافت کی ڈگری رکھنے والے نوآموز صحافیوں کی نالائقی اور ناتجربہ کاری سے نالاں تھے۔ دوسرا سیشن میڈیا کی اخلاقیات پر تھا، اس حوالے سے کئی سوالات اٹھائے گئے کہ میڈیا
آخر کسی اخلاقی ضابطے کا پابند کیوں نہیں؟ طلبہ نے جی بھر کر بھڑاس نکالی ، ورکنگ جرنلسٹ بھی ان کے ہم نوا تھے۔ مزے کی بات ہے کہ نام میڈیا کا لیا جاتا تھا، مگر ہدف ہر ایک کا صرف الیکٹرانک میڈیا ہی تھا۔ ٹی وی ٹاک شوز کے بعض نمایاں اینکر بھی موجود تھے، مگر ڈٹ کر وہ بھی دفاع نہ کر پائے، ریٹنگ کے عفریت سے شاکی وہ بھی بہت تھے۔ پہلے دن کا آخری سیشن جنگ زدہ علاقوں میں رپورٹنگ کے حوالے سے تھا۔ اس سیشن میں بحث بہت پھیل گئی، گڈ طالبان بیڈ طالبان اور روس کے گرم پانیوں تک داخلے کی تھیوریاں بھی زیر بحث رہیں، ویسے تو آخرالذکر بات دوسرے دن کے کالم نگاروں والے سیشن میں بھی رحیم اللہ یوسف زئی جیسے سینئر صحافی نے بھی اٹھائی۔ان تھیوریز پر گفتگو طویل ہوسکتی تھی، وقت اتنا تھا نہیں۔ اللہ نے چاہا تو روس کے خلاف افغان مزاحمت اور گڈ طالبان بیڈ طالبان والی تھیوریوں پر الگ الگ کالم لکھوں گا کہ اس حوالے سے بعض فکری مغالطے اور انتہائی آرا موجود ہیں۔ دوسرے دن سوشل میڈیا پر دھواں دھار بحث ہوئی۔ بیشتر صحافی ، جن میں ہمارے سینئرز بھی شامل تھے، اس پر متفق پائے گئے کہ بے لگام سوشل میڈیا کو کسی ضابطہ اخلاق میں لانے کی ضرورت ہے۔ میری رائے البتہ یہی تھی کہ سوشل میڈیا بے لگام نہیں، اس کا ردعمل کھردرا ضرور ہے اور روایتی ضابطوں اور پابندیوں سے آزاد ہونا ہی اس کی قوت ہے۔ کارکن صحافیوں کی مشکلات اور میڈیا مالکان کے حوالے سے ایک سیشن ہوا،کالم نگاروں اور عوامی رائے عامہ پر ان کے اثرات کے حوالے سے آخری مگر نہایت بھرپور سیشن ہوا۔ برادرم خورشید ندیم نے گزشتہ روز کے کالم میں اس کی کچھ تفصیل بیان بھی
کی۔مردان یونیورسٹی کے طلبہ نے اپنے انہماک ، دلچسپی اور بیدار مغز سوالات سے متاثر کیا۔ صبح سے شام تک سنجیدہ موضوعات پر مسلسل تقریریں سننا آسان کام نہیں، مگریہ طلبہ چند منٹوں کے لئے بھی بور‘ یا غیر حاضر دماغ نظر نہیں آئے۔ ایک دلچسپ بات یہ معلوم ہوئی کہ اس یونیورسٹی کے بانی کے پی کے‘ کے سابق وزیراعلیٰ امیر خان ہوتی تھے۔ ہم نے تومیڈیا میں اے این پی کے حوالے سے ہمیشہ منفی خبریں ہی سنی اور پڑھیں، مگر معلوم ہوا کہ اس دور میں اس صوبے کے اندر نو یونیورسٹیاں بھی قائم ہوئیں۔ کے پی کے میں اس وقت سرکاری سطح پر انیس کے قریب یونیورسٹیاں ہیں، پنجاب جو خیبر پختون خوا سے کئی گنا بڑا ہے، وہاں سرکاری سطح پر چھبیس یونیورسٹیاں ہیں۔وائس چانسلر صاحب سے اچھی خبر یہ پتہ چلی کہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت بھی تعلیم کے حوالے سے اتنی ہی سنجیدہ ہے۔ اس نے یہ نہیں سوچا کہ مردان میں اے این پی رہنما کے نام سے منسوب یونیورسٹی ہے، فنڈز دل کھول کر دئیے جا رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ ہمارے پٹھان بھائی تعلیم کے معاملے میں جلد ہی پنجاب کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔
میڈیا کے حوالے سے جو بحثیں عبدالولی خان یونیورسٹی میں ہوئیں، وہ دراصل ایک نئے فکری سلسلے کی بنیاد بننی چاہئیں۔ یہ نہایت اہم موضوعات ہیں، میڈیا کے جو ساتھی وہاں شامل ہوئے، جتنا جتنا جسے وقت مل سکا، اس نے وہاں اپنا حصہ ڈالا، مگر انہیں اپنے کالموں اور ٹی وی پروگراموں کے ذریعے اس مکالمے کو آگے بڑھانا چاہیے۔یہ فکری سفر رکنا نہیں چاہیے۔ آخرمیں صرف اتنا کہ ہمارے ہاں فکری میدان بدبودار دلدلوں سے اٹا پڑا ہے،مردان یونیورسٹی کا یہ کیمپس مگر مہکتا ہوا امید کا جزیرہ محسوس ہوا۔ ملک بھر کی یونیورسٹیوں کو یہی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ مہکتے ہوئے امید کے جزیرے ہی ہماری واحدا مید ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں