ہمیں مدد کرنا ہوگی

پہلی خلیجی جنگ سے پہلے پاکستان میں ہیجان کی فضا تھی۔ صدام حسین کا کویت پر حملہ ہر لحاظ سے غلط اور ایک خوفناک بلنڈر تھا، اس کے باوجود معلوم نہیں کیسے صدام کے حق میں ایسی جذباتی لہر چلی کہ پورا ملک اس میں بہہ گیا۔ انہی دنوں اتفاق سے مجھے خاندان میں شادی کی دو تقریبات کی وجہ سے کراچی سے لاہور ٹرین کا اور پھر احمدپورشرقیہ سے ڈی آئی خان تک بائی روڈ سفر کرنا پڑا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ راستے میں تقریباً ہر بس، ٹرک کے پیچھے صدام کی مسکراتی تصویر تھی، نیچے لکھا ہوتا، صدام حسین ہم تجھ پر نثار۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ عوام الناس کی بہت بڑی تعداد صدام حسین کے ساتھ تھی۔ اس وقت میاں نواز شریف وزیراعظم تھے۔ میاں صاحب نے اپنے سیاسی اور حکومتی دور کے بہترین فیصلوں میں سے ایک فیصلہ کرتے ہوئے سعودی عرب فوجی دستے بھجوانے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان نے ایک ڈویژن کے لگ بھگ فوج بھجوائی تھی، جو سعودی عرب کے دو تین مقامات پر تعینات رہے ۔تبوک، خمیس المشیط اور شرورہ۔ یہ سب سرحد سے دور مگر دفاعی اعتبار سے نہایت اہم تھے۔ اگر خدانخواستہ اس وقت پاکستانی حکومت عوام کی اکثریت کا فیصلہ تسلیم کر لیتی تو کیا ہوتا؟ صدام حسین وہ جنگ بری طرح ہار گیا تھا۔ صدام اور عراق تنہا ہوگئے۔ فلسطینی لیڈر یاسر عرفات نے صدام کی حمایت کی غلطی کی تھی۔ ان کی تنظیم کو عرب ممالک سے کثیر مدد ملتی تھی، وہ بند ہوگئی۔ پی ایل او کو ایسا شدید دھچکا لگا کہ وہ بعد میں سنبھل نہ پائی۔ یمن نے بھی سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک کا ساتھ نہ دیا۔ یمن اور یمنی عوام کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ لاکھوں یمنی جو ان عرب ممالک میں کام کر رہے تھے، انہیں واپس لوٹنا پڑا اور یمن کی کمزور معیشت بالکل ہی تباہ ہوگئی۔اگر پاکستان بھی ایسی غلطی کرتا تو اپنے عشروں کے قابل اعتماد عرب دوستوں سے ہاتھ دھو بیٹھتا۔ پولیٹیکل سائنس کا یہ سبق ان دنوں سمجھ آیا کہ عوام ہمیشہ درست نہیں ہوتے اور انتخابی مینڈیٹ کی حد تک تو ان کا حق فائق ہے، مگر خارجہ پالیسی اور دیگر حکومتی پالیسیوں کے حوالے سے ضروری نہیں کہ وہ ہمیشہ درست ہوں۔ عام آدمی جذباتی ہوتا ہے، ٹھوس حقائق اور کلاسیفائیڈ انفارمیشن دونوں تک اس کی رسائی نہیں، وہ لانگ ٹرم بنیاد پر تجزیہ نہیں کر پاتا اور اسے جذباتی ہیجان میں مبتلا کرنا آسان ہے۔
پچیس سال بعد دوبارہ وہی سوال ہمارے سامنے ابھر کر آیا ہے ۔ سعودی عرب یمن کے ساتھ سنگین تنازعے میں ملوث ہوچکا ہے۔ یمن کے حوثی باغیوں نے یمنی حکومت کا تختہ الٹ کر نہ صرف دارالحکومت اور اہم شہروں پر قبضہ کر لیا بلکہ انہوں نے یمن کے تین چار عشروں سے چلے آ رہے سوشل کنٹریکٹ کو بدلنے کی ایسی کوشش کی ہے، جس سے سعودی عرب اور بعض دیگر ہمسایہ ممالک کو شدید تحفظات پیدا ہوچکے ہیں۔ ہمارے خیال میںاس بار بھی پاکستان کو سعودی عرب کی سالمیت اور تحفظ کے لئے اپنی فوج ضرور بھیجنی چاہیے۔ اس کے سوا کوئی دوسری قابل عمل آپشن موجود نہیں۔ ایسا کرنے کا ٹھوس جواز اور منطقی دلائل موجود ہیں ۔ سب سے پہلی حقیقت پاکستان اور سعودی عرب کے دیرینہ قریبی دوستانہ تعلقات ہیں۔ کوئی عقل کا اندھا یا ناسپاس شخص ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ سعودی عرب نے ہر مشکل وقت پر پاکستان کی مدد نہیں کی۔ سعودی عرب کا تعلق کسی ایک پاکستانی لیڈر یا حکمران سے نہیں رہا، بلکہ انہوں نے ریاست پاکستان کے ساتھ تعلق قائم کیا اور اسے نبھایا۔لیبیا کے کرنل قذافی یا شام کے حافظ اسدکے برعکس سعودیوں نے پاکستانی ریاست کے مفادات کو مقدم سمجھا، کسی ایک لیڈر سے دوستی نہیں نبھائی۔پاکستان کی اب یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بھی اپنے دوستوں کا ساتھ نبھائے۔ قریبی دوستوں کے ساتھ تعلقات میں غیر جانبداری نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ آپ کو دوستوں کے ساتھ کھڑا ہونا پڑتا ہے یا پھر پیچھے ہٹ کر تعلقات کی وہ نوعیت ختم کرنی پڑتی ہے۔
ویسے بھی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، کویت وغیرہ پر مشتمل عرب بلاک کے ساتھ پاکستان کے سٹریٹجک تعلقات اور مفادات کا تعلق ہے۔ترکی بھی اعلانیہ اسی بلاک کے ساتھ ہوچکا ہے۔ دوسری طرف ایران، عراق، شام یا حزب اللہ وغیرہ پر مشتمل جو دوسرا بلاک تشکیل پا چکا ہے، اس کے ساتھ پاکستان کے اس طرح کے سٹریٹجک تعلقات، مفادات موجود ہیں نہ ہی اس بلاک کے ایجنڈے میں پاکستان کی کوئی جگہ بنتی ہے۔تیسرا اور اہم ترین ایشو ان عرب ممالک میں موجوداوور سیز پاکستانی ہیں۔ تین ملین کے قریب پاکستانی وہاں موجود ہیں اور کئی ارب ڈالر کا زرمبادلہ ہر سال ہمیں بھیج رہے ہیں۔کوئی بھی فیصلہ کرتے ہوئے ہم اپنے ان پاکستانی بھائیوں کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔ خدانخواستہ لاکھوں پاکستانیوں کو واپس آنا پڑا تو کیا ہوگا؟ کمزور حال پاکستانی معیشت کس طرح ان کا بوجھ سنبھالے گی۔ حکومت اور فیصلہ سازوں کو یہ پہلو لازمی سامنے رکھنا چاہیے۔
یہ بات البتہ واضح رہے کہ ہمیں اپنی فوجیں یمن پر حملے کے لئے قطعی طور پر نہیں بھیجنی چاہئیں۔ یمن سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کا ایشو ہے۔ ہمیں صرف سعودی عرب کی سالمیت کا تحفظ کر نا چاہیے۔ حرمین شریفین کی حفاظت ویسے بھی اسلامی دنیا کے ایک اہم طاقتور ملک ہونے کے ناتے پاکستان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ ہمارے ہاں بعض لوگ اسے مسلک کی لڑائی کہہ رہے ہیں۔ ایک بات سمجھ لینی چاہیے کہ سٹریٹجک مفادات میں مسلک صرف ضرورت کے طور پر لایا جاتا ہے، ورنہ فیصلے ان بنیادوں پر نہیں کئے جاتے۔ اخوان سنی ہیں، مگر سنی سعودی عرب، امارات اور کویت نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ حماس سنی ہے، مگر شیعہ ایران جو ہر جگہ صرف شیعہ گروپوں کو سپورٹ کرتا ہے، اپنی ضرورت کے تحت اس نے حماس کو سپورٹ کیا۔ شام نے حافظ الاسد کے دور ہی سے اخوان المسلمون کے خلاف آپریشن کئے ، مگر حماس جو اخوان کی فکر سے متاثرہ اور اس کی حامی تنظیم ہے، اس کی شام نے حمایت کی اور خالد مشعل برسوں دمشق میں مقیم رہے۔ خود ساٹھ کے عشرے میں یمن کے زیدی اماموں کو سعودی عرب سپورٹ کرتا رہا ہے، جبکہ اس وقت مصر کے جمال ناصر ری پبلکن کے حامی تھے، کئی سال تک اس وقت یمن میں خانہ جنگی ہوئی۔ آج سعودی عرب اور مصردونوں شیعہ حوثیوں کے مقابلے میں یکجا ہیں۔ یمن کے تنازع کوصرف شیعہ سنی تقسیم کے پس منظر میں دیکھنا درست نہیں۔ ویسے بھی پاکستان غیر جانبدار رہ کر امن کے لئے کردار ادا نہیں کر سکتا۔ البتہ سعودی عرب فوجی دستے بھیج کروہ اس تنازع پر اثرانداز ہونے اوراسے امن کی طرف لے جانے کی قوت حاصل کر سکتا ہے۔ہمیں یمن کے تنازع کو بڑھنے سے بچانا چاہیے، سعودیوں کی حمایت کرنا مگر ہماری ذمہ داری ہے۔ یہ فیصلہ کرنا ہوگا، کوئی دوسری آپشن موجود نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں