میثاق امن اوردائرے کا سفر

چند دن پہلے برادرم خورشید ندیم کا فون آیا۔ لاہور کے ایک ریستوران میں انہوں نے میڈیا کے کچھ دوستوں کے ساتھ نشست رکھی تھی۔ وہاں جا کرمعلوم ہوا کہ خورشید صاحب اپنے چند دوستوں کے ہمراہ ایک'' میثاق امن ‘‘کے داعی بنے ہیں۔ یہ میثاق امن کیا ہے ؟ چند نکات پر علماء کرام، صحافی حضرات، تجزیہ کار، اہل سیاست متفق ہوجائیں... اپنی بات قرینے سے کہنی ہے، ذاتیات پر حملوں، نفرت آمیز اسلوب سے گریز کرتے ہوئے اپنے نقطہ نظر کو بیان کرنا او ر دوسرے کے نقطہ نظر کوتحمل، بردباری اور تدبر سے برداشت کرنا اور اختلاف رائے کو قبول کرنا۔ اس کوشش کا مقصد یہی تھا کہ میڈیا، سیمینارز کے سٹیج اور مسجد کے منبر سے رواداری اور برداشت کا سبق دیا جائے، اس کا عملی نمونہ پیش کیا جائے اور سماج میں تیزی سے بڑھتی تقسیم اور مکالمے میں در آتی کشیدگی کو روکا جائے۔ اس ''میثاق امن ‘‘کے حوالے سے وہ اسلام آباد میں بھی ایک نشست کر چکے تھے، جہاں علمی، صحافتی اور سیاسی میدان کی کئی ممتاز شخصیات نے اس سے اتفاق کیا اور میثاق امن پر دستخط کئے۔ادارہ برائے تعلیم وتحقیق (ORE) کا پلیٹ فارم اس کاز کے لئے بنایا گیا۔
اس نشست میں رکھے تعارفی پمفلٹس سے معلوم ہوا کہ ''ادارہ برائے تعلیم وتحقیق ایک ایسے مسلم معاشرے کی تشکیل کے لئے کوشاں ہے جو رواداری، جمہوریت ، پرامن بقائے باہمی اور آزادی فکر کا مظہر ہو اور جہاں مکالمے اور تبادلۂ خیال کو ایک کلچر کی حیثیت حاصل ہو۔‘‘ اسی نشست میں ایک سائیڈ پر رکھی مطبوعات میں سے کایاکلپ کے نام سے ایک کتابچہ اٹھایا، دفتر پہنچ کر اسے پڑھا تو دلچسپ انکشاف ہوا۔ بعض نمایاں شخصیات نے بڑی بے ساختگی اور جرأت سے اعتراف کیا کہ ان کے انداز اور اسلوب میں جارحیت اور مناظرانہ جھلک تھی، مگرادارہ تعلیم وتحقیق اور ڈائیلاگ فورم سے انٹرایکشن کے نتیجے میں انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اب ان کا رویہ بدل چکا ہے۔ ان میں صدیق الفاروق جیسے معروف سیاسی رہنما ، عالم دین مولانا زاہد محمود قاسمی، صحافی سبوخ سید ،ماہر تعلیم پروفیسر سردار فاروق،ایک معروف علمی خانوادے کے فرزند محمد حسن اور ماہر تعلیم سکندر اعظم نے اپنی اپنی کہانی بیان کی۔
یہ تو خیر اس میثاق امن کا احوال تھا، جس کا سپنا آنکھوں میں سجائے خورشید ندیم اور ان کے فورم نے ہم سب کومدعو کیا۔وہاں پر البتہ جو ہوا، وہ خلاف توقع تھا۔ ابتدائی تعارفی کلمات کے بعد مائیک جناب مجیب الرحمن شامی کو تھما دیا۔ شامی صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں خطابت کے جوہر دکھائے ۔ مسئلہ یہ بنا کہ ایسا کرتے ہوئے انہوںنے بیک وقت کئی اہم اور کسی حد تک متنازع موضوعات کو چھیڑ دیا۔ نیت شائدا ن کی رائٹسٹوں کا محاسبہ کرنے کی تھی، اس میں وہ خاصا آگے نکل گئے اورتاک تاک کر اپنے جملوں کے ایسے میزائل داغے کہ میرے جیسابرائے نام رائٹسٹ بھی کسمسانے پر مجبور ہو گیا۔ برادرم وجاہت مسعود بھی اسی محفل میں موجود تھے،انہوں نے ان لفظوں میں شامی صاحب کو خراج تحسین پیش کیا ،''شامی صاحب کے الفاظ سے میرے دل میں خوشی کی لہر دوڑ رہی تھی، یوں لگ رہا تھا،جیسے خیالات میرے ہیں اور ادا آپ کی زبان سے ہور ہے ہیں۔ ‘‘ وجاہت مسعود صاحب سیکولر حلقے کے نمائندہ لکھاری ہیں اور نہایت خوش اسلوبی اور خوبصورتی سے اپنے کالموں میں لبرل سیکولر سوچ کو آگے بڑھاتے ہیں، یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ جن فقروں سے انہیں خوشی ہوئی، انہوں نے رائیٹ ونگ والوں پر کیا قیامت ڈھائی ہوگی؟خیر میثاق امن تو معلوم نہیں کہاں چلا گیا اور پھر نشست کا بیشتر حصہ رائیٹ لیفٹ بلکہ زیادہ درست لفظوں میں رائٹسٹ سیکولر مکالمے کی نذر ہوگیا۔ ارشاد احمد عارف صاحب نے اسی پس منظر میں گفتگو کرتے ہوئے یہ کہا کہ ہر معاشرے میں کچھ باتیں مسلمات کا درجہ رکھتی ہیں، ہمارے ہاں بھی جو باتیں طے شدہ ہیں ،ا نہیں بار بار کھولنے اور ان پر بحث کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔دوسری جانب سے وجاہت مسعود یا شائد عبدالرئوف صاحب نے کہا کہ کوئی چیز مسلمہ نہیں ہوتی اور ہر چیز پر بات ہوتی رہنی چاہیے ، وغیرہ وغیرہ۔ یہی وہ نکتہ ہے جس پر خورشید صاحب نے اپنے ایک گزشتہ کالم ''طے شدہ اور غیر طے شدہ‘‘کی عمارت استوار کی۔ رئوف طاہر نے اس حوالے سے ایک فقرہ کسا کہ بعض لوگ ہر معاملے میں شک اور پھر تحقیق کرنے کو درست کام سمجھتے ہیں، مگرنوبت یہاں تک نہ پہنچے کہ نرس بچے کی پیدائش کی خبر سنائے اور والد بجائے خوشی منانے کے کہے ، نہیں پہلے ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے کنفرم ہوجائے کہ میری ہی اولاد ہے۔ بحث جاری تھی، دفتری میٹنگ میں شریک ہونے کی وجہ سے مجھے واپس آنا پڑا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ محترم سجاد میرا ور جناب حفیظ اللہ نیازی بھی خوب گھن گرج سے بولے۔دوسری طرف سے فرخ سہیل گوئندی اور افضال ریحان وغیرہ نے اپنا نقطہ نظر بیان کیا اورشامی صاحب کی گفتار کودل کھول کر خراج تحسین پیش کیا۔
یہ لمبی چوڑی بحث ہے، ہزاروں صفحات ان پر سیاہ کئے جا چکے ہیں،اہل علم کو اس پر بات کرنا روا ہے، ہم ایسے طالب علم تو اپنی ذہنی الجھن ہی بیان کر سکتے ہیں۔مسئلہ یہ ہے کہ سماج میں کچھ چیزیں طے شدہ ہوتی ہیں یا ہونی چاہئیں کی بات کو ایک خاص زاویے سے دیکھا جارہا ہے۔ اس سے مقصود یہ قطعی نہیں کہ مخالف رائے یا دوسرا نقطہ نظر برداشت ہی نہیں کیا جا رہا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے اہل دانش نے برسوں بلکہ عشروں لڑنے جھگڑنے اور فکری مناقشوں میں گزار دئیے۔ ہماری جدید تاریخ میں 73ء کا آئین سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس پر ملک کے رائیٹ ، لیفٹ ، روایتی دینی اور قوم پرست تمام حلقے متفق ہوئے۔ بھٹو صاحب جیسا لبرل سیکولر لیڈر، مولانا مفتی محمود، شاہ احمد نورانی جیسے عالم دین، جماعت اسلامی ، مولانا ظفر احمد انصاری اور مسلم لیگیوں سے لے کر ولی خان جیسے لیفٹسٹ قوم پرست اور دیگر رہنمائوں نے اتفاق رائے سے طے کیا کہ ریاست کی شکل کیا ہوگی؟ قرارداد مقاصد کی صورت میں بنیادی دستاویز کو بھی مانا گیا، صوبائی خود مختاری ، پارلیمانی نظام ، فنڈا مینٹل رائٹس ... یہ تمام معاملات طے ہوگئے۔ جن چیزوں جیسے صوبائی خودمختاری دینے پر بعد میں عمل نہ ہوا تو اٹھارویں ترمیم میںوہ کام بھی کر دیا گیا۔ پاکستان کے تمام نمائندہ سیاسی اور فکری حلقوں نے اس ترمیم کو منظور کیا اور ایک طرح سے پھر مہر لگا دی کہ ریاست کی صورت، ساخت ، اقلیتوں کے حقوق ،سربراہ حکومت اور سربراہ مملکت کے مذہب وغیرہ کے معاملات کیا ہوں گے۔اب تو تمام تر توجہ ریاست کی کارکردگی پر دینی چاہیے، جس میں شدید انحطاط آ چکا ہے۔ ریاست اپنے بنیادی فرائض تعلیم، صحت، سستے انصاف کی فراہمی اور لا اینڈ آرڈر کنٹرول کرنے کی ذمہ داریوں سے بخوبی نبردا ٓزما نہیں ہورہی۔ ہمارا سرکاری سکول سسٹم مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے، لوئر مڈل کلاس کے لوگ بھی اپنے بچے سرکاری سکول نہیں بھیج رہے کہ وہاں تعلیم ناقص ہے۔ یہی حال سرکاری ہسپتالوں کا ہے، ملاوٹ، جان بچانے والی ادویات سے لے کر کھانے پینے کی اشیا تک بھیانک طریقے سے سرایت کر چکی ہے۔میرٹ نام کی کسی چڑیا سے لوگ واقف نہیں رہے، شفافیت نام کو نہیں، آئے روز میڈیا میں اربوں کے کرپشن سکینڈل سامنے آ رہے ہیں اور طاقتور ملزم صاف بچ نکلتے ہیں۔ یہ سب انتہائی اہم امور ہیں، ہمارے اہل دانش کو اپنی صلاحیتوں اور توجہ کا مرکز انہیں بنانا چاہیے۔ قرارداد مقاصد پر بات کرنے سے کوئی نہیں روکتا، مگر اس سے اب کیا نکال لینا ہے؟ آئین کی کسی شق یا اس کے دیباچے سے اگر شدت پسندی پیدا ہوگی تو وہ پورے سماج کو نشانہ بنائے گی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کے اثرات مذہبی حلقے کے صرف دس پندرہ فیصد پر نظر آئیں ؟ باقی ماندہ پچاسی نوے فیصدمذہبی لوگ خود اسی شدت پسندی سے خائف اورا س کے خلاف ہوں۔اس کا مطلب تو یہی ہوا کہ مذہبی شدت پسندی کی وجوہات کچھ اور ہیں۔جب کوئی یہ بات کہتا ہے کہ طے شدہ باتوں کوبار بار نہ چھیڑو، اپنی توانائی اس کار بے سود میں ضائع مت کرو،وہ دوسرے لفظوں میں یہی سمجھا رہا ہے کہ دائرے کا سفر کرنے کے بجائے اب آگے بڑھنا چاہیے۔پہیہ تاریخ انسانی کی اہم ترین ایجاد سہی، مگر بار بار پہیہ ایجاد کرنے کیوں نکلا جائے؟ کئی اور چوٹیاں بھی ہیںجنہیں تسخیر کرنا باقی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں