ایک اور موقع

تحریک انصاف اور اس کے قائد عمران خان نے سیاسی میدان میں خاصی پُرپیچ زندگی گزاری ہے۔ ان کی موجودہ سیاسی پوزیشن کے پیچھے سولہ سترہ برسوں کی جدوجہد موجود ہے۔ اس لئے روایتی معنوں میں اسے خوش قسمت یا سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہونے والی پارٹی نہیں کہا جا سکتا۔سونے کے چمچ والی بات پر چونکنے کی کوئی ضرورت نہیں، پاکستان میں ایسی مثالیں موجود ہیں۔ ایسی جماعتیں قائم ہوتی رہیں، جن کے بارے میں پہلے سے معلوم تھا کہ اقتداراس کا مقدر ہے۔ ایسا ہی ''کرشمہ‘‘جنرل پرویز مشرف کے دور میں ق لیگ کی صورت میں سامنے آیا تھا۔الیکشن سے پہلے جماعت بنی، مرکز اور پنجاب سمیت تین صوبوں میں نہ صرف حکومت قائم ہوئی بلکہ پانچ برس سال تک بغیر کسی خطرے کے دندناتی رہی۔تحریک انصاف کے ساتھ ایسا نہیں ہوا، بدترین سیاسی شکستیں اس کے ماضی کا حصہ ہیں۔ ایسے ناکام ایڈونچر جن کے بعد پارٹی کا بانی لیڈر مقروض ہوگیا۔تیس اکتوبر2011 ء کی خوشگوار شام لاہور میں مگر جو معجزہ تخلیق ہوا، اس کے بعد سے تحریک انصاف کی قسمت کا ستارا ایسا چمکا کہ کبھی سیاہ بادلوں نے اسے نظروں سے اوجھل بھی کر دیا تو یہ کیفیت زیادہ دیر نہیں رہی۔ تقدیر دوبارہ اسے سب کے سامنے لے آئی، پہلے کی طرح چمکتی، دمکتی صورت کے ساتھ۔ تحریک انصاف کے قائد نے پچھلے دو تین برسوں میں جتنی بڑی غلطیاں کیں، ان کے نتائج اس طرح بھگتنے نہیں پڑے۔
مئی 2013ء کے عام انتخابات سے قبل عمران خان پارٹی انتخابات میں غیر ضروری طورپر الجھے رہے، ٹکٹ تاخیر سے دئیے گئے اور امیدوارلینے میں متعدد غلط فیصلے ہوئے۔ کئی ایسے امیدوار جو نشست جیت سکتے تھے، ان کے بجائے کمزور اور غیر معروف لوگ لئے گئے، جن کا سیاسی تجربہ ندارد اور جڑیں عوام میں نہیں تھیں۔ کئی حلقوں کے بارے میں میری ذاتی معلومات ہیں یا قابل اعتماد دوستوں نے بتایا کہ بہت سے پولنگ سٹیشنوں پر تحریک انصاف کا پولنگ ایجنٹ ہی نہیں تھا۔ایسی تباہ کن غفلت کے بعد تو کونسلر کا انتخاب جیتنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ ایسے بلنڈرز اورپارٹی کی انتخابی حکمت عملی میں نقائص کے باوجود خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف میدان مارنے میں کامیاب رہی۔اے این پی اور پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت کی کارکردگی وہاں ایسی بری رہی کہ ووٹر نے تبدیلی کا نعرہ لگانے والی قوت کو ترجیح دی۔ پی ٹی آئی کو ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ صوبے کی دوسری سیاسی قوتیں محدود حلقہ اثر رکھتی تھیں۔ مسلم لیگ ن عملاًہزارہ تک محدود تھی، جبکہ جے یوآئی کا زیادہ اثرصوبے کے جنوبی اضلاع کے علاوہ دو چار حلقوں ہی میں تھا۔ پنجاب میں صورتحال مختلف تھی۔ یہاں پر ووٹرز کی نفرت کا زیادہ نشانہ پیپلزپارٹی بنی، بجلی، گیس کی لوڈشیڈنگ اور کرپشن کے بھیانک الزامات کا تمام تر بوجھ پیپلزپارٹی کو لے ڈوبا۔مسلم لیگ ن اپنے وسیع انتخابی تجربے ، میڈیا مینجمنٹ اور طاقتور الیکٹ ایبلز کی وجہ سے بہتر پوزیشن میں تھی۔ عمران خان اورپی ٹی آئی کے پرجوش حامی یہ بات تسلیم نہیں کریں گے، مگر میری ذاتی رائے میں پنجاب کاانتخابی معرکہ مسلم لیگ ن اپنی بہتر حکمت عملی کی بنا پر جیتی۔ دھاندلی کچھ نشستوں پرممکن ہوسکتی ہے، مگر پنجاب میں ستر پچھتر نشستوں پر مسلم لیگی امیدواروں کی جیت نظر آ رہی تھی۔ تحریک انصاف کے پاس جہاں مضبوط اور تجربہ کار امیدوار تھے، وہاں اس کی کارکردگی نسبتاً بہتر رہی۔ لاہور میں البتہ عمران خان بمقابلہ ایاز صادق اور حامد خان بمقابلہ سعد رفیق والے حلقوں میں تحریک انصاف بظاہر جیت رہی تھی، نتائج البتہ برعکس آئے، جس پر شکوک بھی پیدا ہوئے۔پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں اکثریتی نشستیں جیتنے کی تو تحریک انصاف کو بھی امید نہیں تھی۔ ان کے کسی بھی اہم رہنما نے قومی اسمبلی کے ساتھ صوبائی اسمبلی کا انتخاب نہیں لڑا۔جاوید ہاشمی، شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین وغیرہ سب قومی اسمبلی کے طرف گئے۔اگرپنجاب اسمبلی میں اکثریت مل جاتی تو وزیراعلیٰ کے لئے امیدوارکون بنتا؟
عام انتخابات کے نتائج کا ذکر اس لئے کرنا پڑا کہ میں خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی کامیابی کو اس کی خوش نصیبی گردانتا ہوں۔جو غلطیاں انہوں نے کیں، اس حساب سے ہر جگہ ہارنا چاہیے تھا۔ خیبر پختون خوا کے ووٹروں نے ان کا بھرم رکھ لیا۔ ویسے بھی ناتجربہ کارٹیم کے ساتھ اگرتحریک انصاف کووفاقی حکومت بنانے کا موقع مل بھی جاتا تو بڑے مسائل پیدا ہوجاتے۔عمران خان کے قومی اسمبلی میں حلف لینے سے پہلے دو چار دنوں تک تحریک انصاف کی میڈیا ٹیم نے کالم نویسوں اور صحافیوں کی خان صاحب سے ملاقاتیں کرائیں۔ زمان پارک میں ان کے گھر دو دو تین تین کالم نویس مدعو کئے گئے۔ میرے ساتھ دنیا لاہور کے ایگزیکٹو ایڈیٹر سلمان غنی اور ڈاکٹر مجاہد منصوری تھے۔عمران خان
نے ہمارے سامنے خود اعتراف کیا کہ ابھی ہمیں تجربہ نہیں ہے، یہ اچھا ہوا کہ ایک صوبے میں حکومت ملی ، ہم حکومتی معاملات چلانا سیکھ بھی لیں گے اور اس صوبے کو ماڈل بنا کر دوسروں کے لئے مثال قائم کریں گے۔ انہوں نے تعلیم، صحت ، پولیس اوردوسرے محکموں کی اصلاح کے حوالے سے اپنے چند منصوبوں کا ذکر بھی کیا۔میں نے ان سے پوچھا کہ آپ بار بارپی ٹی آئی کی شکست کی وجہ دھاندلی کوقرار دے رہے ہیں، کیا آپ کی اپنی غلطیاں اور الیکشن ڈے کی بری پرفارمنس اس کی وجہ نہیں۔ عمران خان نے اپنی غلطیوں کو تو تسلیم کیا، مگر وہ مصر رہے کہ دھاندلی بڑے پیمانے پر ہوئی ہے۔ جس نکتے پر مگر وہ اس دن زیادہ فوکسڈ نظر آئے، وہ خیبر پختون خوا میں انقلاب برپا کرنا تھا۔
اس بات کو ڈیڑھ پونے دو سال گزر چکے ہیں۔کے پی کے سے آنے والی بعض خبریں دل خوش کن ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ صوبے کی پولیس کو اپنی تاریخ کا سب سے بااختیار آئی جی ملا ہے۔ ٹرانسفر ، پوسٹنگ میں کرپشن صفر ہوچکی ہے۔ تھانے الاٹ ہوتے ہیں نہ ہی کوئی طاقتور پولیس افسر اپنے سیاسی تعلقات استعمال کر کے من پسند جگہ پر تعینات ہوسکتا ہے۔ تھانہ کلچر کو بدلنے میں مگر ابھی وقت لگے گا۔ اسی طرح یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ صوبے کے پٹواری سب سے زیادہ دل گرفتہ ہیں،ان کی من مانی کرپشن کا راستہ روک دیا گیا، بیورو کریسی میں بہتری آئی۔ یہ سب مگر کافی نہیں۔ تعلیم ، صحت کے حوالے سے بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ تبدیلی کی رفتار سست اور راہ میں بڑی رکاوٹیں حائل ہیں۔ پشاور جو صوبے کا چہرہ ہے، وہاں جانے والوں کوپہلے سے
فرق محسوس نہیں ہوتا۔اس پرغیر معمولی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔صو بے کے جنوبی اضلاع جہاں کے ووٹروں نے ضمنی انتخاب میں مولانا فضل الرحمن کے خاندان کو بدترین شکست سے دوچار کیا اور تحریک انصاف کو سرفراز کیا، وہاں کے حالات بدلنا بھی چیلنج سے کم نہیں۔ یہ کام جناب پرویز خٹک کے بس کا نہیں، ان کی محدودات ہیں۔ ویسے بھی ووٹروں نے عمران خان اور ان کے ایجنڈے کو ووٹ دیا تھا، شخصیات اس الیکشن میں ثانوی تھیں۔عمران خان نے دھرنے کا جو جوا کھیلا تھا، وہ ناکام ہو گیا۔ ان کا یہ ایڈونچران کی سیاست کا مکمل خاتمہ کر سکتا تھا۔ قدرت نے ان کی مدد کی اور بند راستے سے باہر لے آئی۔پشاور میں دہشت گردوں کے حملے سے انہیں اپنا دھرنا ختم کرنے کا باعزت موقع ملا، بلکہ اس اعلان کو ہر کسی نے سراہا۔ اب جوڈیشل کمیشن بننے سے پارلیمنٹ میں واپسی ممکن ہوئی۔ دھرنے کے دوران جو غیر محتاط زبان استعمال کی گئی، وہ پی ٹی آئی کے لئے کسی حد تک شرمندگی کا باعث ہوسکتی تھی،مسلم لیگ ن کی تنگ نظری اور محدود سوچ نے اس کی تلافی کر دی۔ خواجہ آصف اس روز جس طرح بولے، اس کا تمام تر فائدہ عمران خان کو پہنچا۔ دو تین منٹوں کی اس غیر ذمہ دارانہ تقریر نے کرکٹ کی اصطلاح میںبیک فٹ پر گئی تحریک انصاف کو دوبارہ فرنٹ فٹ پر کھڑا کر دیا۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ کہنا یہ تھا کہ تقدیر نے انہیں ایک اور موقع فراہم کر دیا ہے۔ کراچی کے ضمنی انتخاب کا نتیجہ جو بھی نکلے، تحریک انصاف کو وہاں جگہ مل چکی ہے، یہ ان کے اوپر ہے کہ دائرہ اثر کس قدر پھیلا سکتے ہیں۔اسی طرح خیبر پختون خوا کی حکومت پر اب پورا فوکس کرنا ہوگا۔ اس صوبے میں کامیابی تحریک انصاف کے روشن مستقبل سے مشروط ہے۔ یہاں ناکام ہوئے تو اب کی بار خواب بیچنے ممکن نہیں ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں