سمجھ میں نہ آنے والی دنیا

یہ بیس بائیس سال پہلے کی بات ہے، کراچی میں کتابوں کی دکانیں کھنگالتے ہوئے دست شناسی پر ایک کتاب نظر آئی۔ یہ پاک وہند کے نامور دست شناس میر بشیر کی کتاب ''رموز دست شناسی‘‘ تھی۔ کتاب خرید لی اور پھر اسے کئی بار اتنی دلچسپی سے پڑھا کہ اس کے بیشتر نکات یاد ہوگئے۔ بعد میں دست شناسی پر پاکستان میں جتنا مواد میسر تھا، پڑھا، انٹرنیٹ ان دنوں آ چکا تھا، اس پر ریسرچ بھی کی ، چینی پامسٹری پر ایک ای بک ملی ،جس نے دست شناسی کے کئی نئے زاویوں سے روشناس کرایا۔بہت لوگوں کے ہاتھ دیکھے ، ان میں سے کچھ ایسے مداح بنے کہ آج تک متاثر چلے آتے ہیں۔ رفتہ رفتہ یہ شوق خود ہی مرجھا گیا۔ اس کے سطحی ہونے کا اندازہ ہوگیا۔ پروفیشنل دست شناسوں کا اصرار توخیر یہی ہوگاکہ یہ علم دنیا جہاں کی ہر شے پر محیط ہے ، میری طالب علمانہ رائے میں اس کی محدودات (Limitations)ہیں۔ صرف دست شناسی ہی نہیں بلکہ علم نجوم یا آسٹرالوجی، علم رمل ، علم الاعداد وغیرہ سب کے سب ایک خاص سطح تک ہی کارآمد ہیں۔ کچھ چیزیں ان میں البتہ حیران کن ہیں،انسانی شخصیت کی بعض ایسی باتیں بتائی جا سکتی ہیں ،جو آدمی کو حیرت زدہ کر دیں۔ بچپن میں لگی کوئی چوٹ، لڑکپن میں گزرنے والا کوئی سانحہ، جوانی کا ایسا سیکرٹ جو کم لوگوں کے علم میں ہو، انسانی شخصیت کا ایسا تجزیہ ، خوبیوں ، خامیوں کا جائزہ ... یہ ایسی باتیں ہیں جن کے بارے میں ان علوم کے ماہرین کسی حد تک بتا سکتے ہیں۔ درحقیقت یہی ان کے '' ہتھیار‘‘ ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ جب کسی کلائنٹ کو دست شناس یا ماہر علم نجوم اس کے ماضی کے بعض چھپے ہوئے گوشوں کے بارے میں بتا دے تو اس کی حیرت فطری ہوتی ہے۔ اسی طرح صرف ہاتھ یا ہاتھ کا پرنٹ دیکھ کر یا پھر تاریخ پیدائش اور وقت پیدائش دیکھ کر ملے بغیر انسانی شخصیت کا مکمل جائزہ پیش کیا جائے تو یہ بات سائنسی اور منطقی اعتبار سے سمجھ نہ آنے والی ہے۔ ان باتوں سے دست شناس ، آسٹرالوجسٹ یا اس قسم کے دیگر علوم کے ماہرین اپنے کلائنٹس کو متاثر کرتے اور پھر ان کے مستقبل کا نقشہ بیان کر کے منہ مانگے پیسے وصول کرتے ہیں۔یہ اور بات کہ مستقبل کے بارے میں ان کی بتائی گئی بہت سی باتیں درست ثابت نہیں ہوتیں۔درحقیقت وہ ایک اعتبارسے قیاس آرائیاں ہوتی ہیں۔بعض لوگ مستقبل کے حوالے سے ایسی گول مول پیش گوئیاں کرتے ہیں جن پر کوئی بھی بات فٹ ہوجائے۔ مثلاً یہ کہا جائے کہ چالیس سال کے بعد حالات بہتر ہوجائیں گے... فطری طور پر آدمی مشکلات اٹھا کر اس عمر میں کسی حد تک مستحکم ہوہی جاتا ہے۔اس طرح پندرہ بیس سال بعد کی پیش گوئیاں بڑے مزے سے کی جاسکتی ہیں کہ اس وقت نجانے کلائنٹ کہاں ہوگا اور نجومی کہاں؟ بعض باتیںدرست بھی نکل آتی ہیں، انسانی فطرت ہے کہ کسی دست شناس یا نجومی کی چار باتیں غلط نکلیں، مگر ایک دو درست نکل آئیں تو لوگ سچ ثابت ہوجانے والی پیش گوئیوں کو اہمیت دیتے اور پھر سے اسی ماہر کی طرف لپکتے ہیں۔ اخبارات میں آئے روز مختلف نجومیوں کی پیش گوئیاں شائع ہوتی رہتی ہیں، کوئی صاحب اگر تھوڑی زحمت کرکے سال کے شروع میں چھپنے والی پیش گوئیوں کی خبر کاٹ کر رکھ لے اور پھر سال کے اختتام پر انہیں دیکھے تو ان میں سے بیشتر غلط ثابت ہوچکی ہوں گی۔ پروفیشنل نجومی مگر ان اکا دکا پیش گوئیوں کو سنبھال کر رکھتے اور پھر برسوں تک پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کرتے ہیں، جو(کسی بھی وجہ سے)درست ثابت ہوئی ہوں۔ ایک زمانے میں صاحب طرز لکھاری منو بھائی ایک ماہر نجوم کی پیش گوئیاں اپنے کالم میںنقل کیا کرتے اور پھر بعد میںدرست ثابت ہونے پر حوالہ بھی دیتے کہ فلاں بات اتنے مہینے پہلے کہی گئی تھی۔ معروف صحافی اور دانشور خالد احمد نے ایک بار ایسی تمام پیش گوئیوں کا ریکارڈ رکھنا شروع کیا اور پھر سال مکمل ہوجانے پر اپنے انگریزی کالم میں بتایا کہ ان پیش گوئیوں میں سے کتنی غلط ثابت ہوئیں ۔ ان کی وہ اوسط ستر اسی فیصد سے زیادہ بنتی تھی۔
یہاں پر یہ بات لکھنا ضروری ہے کہ میں ان علوم کے خلاف کچھ کہہ رہا ہوں نہ ان کی حمایت میں ، ... اپنے مشاہدے اور تجربے میں جو آیا صرف اسے ہی بیان کر رہا ہوں۔ دراصل ان علوم کے حوالے سے دو انتہائی رویے پائے جاتے ہیں، بعض لوگ ان سے بہت متاثر ہوجاتے اور پھر اپنی زندگی میں انہیںمرکزی اہمیت دے ڈالتے ہیں، دوسری طرف ایک بڑا حلقہ ان کو سرے سے رد کرتا ہے۔
مخالفت کرنے والوں میں بعض تو مذہبی بنیادوں پر اس سے متنفر ہیں اور کچھ لوگ سرے سے مابعدالطبعیات کوتسلیم ہی نہیں کرتے، ان کے نزدیک نامعلوم کی دنیاسرے سے موجود ہی نہیں،ہر چیز مادہ ہے اور مادے کی حرکت سائنسی توجیہہ کی متقاضی ہے۔ سائنس کو ظاہر ہے ہم سب اہمیت دیتے ہیں، مگر میرے نزدیک کچھ باتیں ، کچھ چیزیں ایسی ہیں جنہیں ناپنے، جانچنے کے پیمانے مختلف ہیں۔ میں ذاتی طور پر مابعدالطبعیات (Metaphysics) کا قائل ہوں۔ دراصل اس نامعلوم یا انجان دنیا کی بہت سی باتیں ہیں جو سمجھ نہیں آتیں، انہیںفلسفیانہ دلائل سے ثابت بھی نہیں کیا جا سکتا، مگر آپ کے اوپر وہ بیتی یا گزری ہوں تو انہیں ماننا ہی پڑتا ہے۔ دراصل ایسی چیزوں کوناپنے کا پیمانہ مشاہدہ اور محسوسات ہیں۔
اپنے پچھلے کالم میںانجان دنیا کے تصور پر تفصیل سے بات کی تھی۔ اس کی مختلف سطحیں ہیں۔انہیں سمجھنا اس لئے ضروری ہے کہ لوگ انہیں آپس میں خلط ملط کر دیتے ہیں۔ نجومی،دست شناس وغیرہ اور غیرمعمولی وجدان رکھنے والے لوگوں کے ساتھ ساتھ اللہ کے نیک بندوں میں فرق کرنا ضروری ہے۔ان سب کے درمیان بہت فرق ہے۔دست شناس، نجومی، علم رمل یا اعداد کے ماہرین وغیرہ کا تمام علم ایک خاص قسم کے مشاہدے اور حساب کتاب پر مبنی ہے۔ دست شناس ہاتھ کی ساخت، لکیروں، ابھاروںاور ان پر بنے نشانات جیسے ستارے، مربع، کراس ، مستطیل وغیرہ پر بھروسہ کرتا اور اپنے حساب سے پوری زندگی کا نقشہ بناتا اور اس کی روشنی میں
پیش گوئی کرتا ہے۔ نجومیوں کے نزدیک بارہ بروج ہیں، ہر ایک کا ایک حاکم سیارہ ہے، ہر انسان کا وقت پیدائش اہم ہے کہ اس سے علم ہوگا کہ اس کا برج (اسد، سرطان، قوس وغیرہ)کون سا ہے، اس وقت حاکم سیارہ (سورج، چاند، مشتری، مریخ وغیرہ)کون ہے اور اس نے کیا اثرات مرتب کئے ہیں، اپنے حساب کتاب سے یہ زندگی کا نقشہ بناتے اور آنے والے اہم واقعات کی پیش گوئی کرتے ہیں۔ ان علوم کو میں مسترد نہیں کرتا، تاہم میرے ذاتی خیال میں ا ن کی محدودات ہیں۔ کسی حد تک یہ حیران کر سکتے ہیں ، لیکن بڑے سے بڑا ماہر بھی غیب کے معاملے میں کہیں نہ کہیں پر بے بس نظر آئے گا۔ قدرت کی بے پناہ قوت کے سامنے اسے سرنڈر کرنا ہی پڑے گا۔ انہیں ماننا ہی پڑتا ہے کہ غیب کا علم اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے اور وہی ہر شے پر قادر ہے۔ اسلام ایسے علوم کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور ان پر یقین کرنے والوں کے لئے وعید سناتا ہے۔ اس کی واضح وجہ یہی ہے کہ رب تعالیٰ انسان کو عمل اور صرف اپنے طرف ہی رجوع کرنے کی تربیت دیتا ہے ۔ اللہ کے آخری رسول ﷺ کی سیرت طیبہ سے ہمیں عمل اور صرف عمل کی تربیت ملتی اور صرف اور صرف خالق کائنات کی طرف رجوع کرنے ، اس پر بھروسہ کرنے اور اس کی مرضی میں رضامند ہونے کی ہدایت نظر آتی ہے۔ ویسے بھی جو لوگ ان علوم سے متاثر ہوتے اور اپنا ہر قدم ایسے ماہرین سے پوچھ کر اٹھاتے ہیں، ان کی زندگی عجیب شش وپنج سے دوچار رہتی ہے، ایسے ڈھلمل اور کمزور یقین لوگ کبھی بڑے فیصلے کر پاتے ہیں نہ ہی انہیں زندگی میں طمانیت اور سکون مل پاتا ہے۔ غیر معمولی وجدان رکھنے والے لوگوں اور صاحب عرفان اللہ والوں کے حوالے سے اگلی نشست میں بات ہوگی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں