ن لیگی مائنڈ سیٹ

دو تین ہفتے پہلے میٹرو بس کے حوالے سے ایک کالم لکھاتھا، جس میں کراچی سے آئے اپنے ایک رپورٹر دوست کے حوالے سے بتایا کہ اس پر لاہور کی میٹرو بس کا کس قدر اثر ہوا تھا اور اس کے خیال میں صوبائی حکومت نے انقلاب برپا کر دیا ہے، تاہم جب انہیں بتایا گیا کہ الاماشاء اللہ صوبے کے دور افتادہ شہروں کو تو چھوڑئیے ، لاہور جیسے شہر کے ہسپتالوں، سکولوں، بازاروں، تھانوں، پٹوار خانے اور دیگر محکموں میں عام آدمی کے لئے وہی ذلت اور خواری ہے جو ملک بھر کے لوگ برداشت کر رہے ہیں۔ ممکن ہے کراچی کے ستم رسیدہ شہریوں سے لاہورئیے کچھ بہتر ہوں کہ کراچی والوں کو جناب زرداری صاحب کی صورت میں جمہوریت کے ذریعے انتقام لینے والا اور مفاہمت کے ذریعے اپنے سمیت سب کی تقدیر سنوارنے والاجو عظیم نجات دہندہ دستیا ب ہوا، اس کی مثال تو شائد ہی کہیں ملے۔ 
میٹرو کے حوالے سے تنقید سے بعض لوگ غلط مطلب اخذ کرتے ہیں۔ دراصل میٹرو بس یا میٹر و بس سیاست کوہدف تنقید بنانے والے حلقے دو قسم کے ہیں۔ ایک تو ن لیگ کے سیاسی مخالف ہیں،تحریک انصاف یااپوزیشن کی دوسری جماعتیں ، حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرنا جن کا حق ہے۔ ایک حلقہ مگر وہ بھی ہے، جو سیاسی وجوہات کی بنا پر تنقید نہیں کرتا۔ ان کا اعتراض صرف یہ ہے کہ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ ضرور ہونی چاہیے، لازمی ہو، مگر سوشل سٹرکچر کو ترجیح ملنی چاہیے۔ سفر کو آسان بنایا جائے، ٹریفک سگنلز پر گاڑیاں رکنے سے جووقت اور پٹرول وغیرہ کا ضیاع ہے، وہ بھی کم ہونا چاہیے، اس مقصد کے لئے فلائی اوور بننے چاہئیں، لیکن جان بچانے کو ہر حال میں اولیت ملے۔ صحت کی سہولتوں کوہنگامی بنیادوں پر بہتر بنانا چاہیے۔ اسی طرح اگر سرکاری سکول سسٹم ٹھیک کر دیا جائے تو مڈل کلاس کے لاکھوں لوگوں کواس کا براہ راست فائدہ پہنچے گا، جنہیں مجبوراً ہزاروں روپے دے کراپنے بچوں کو نجی سکولوں میں پڑھانا پڑ رہا ہے۔صرف تھانوں کے نظام کو درست کر دیا جائے تو صوبے میں انقلاب برپا ہوجائے گا۔افرادی قوت میں اضافہ، بہتر ٹریننگ، اوقات کار کی مناسب تقسیم کے بعدٹرانسفر ، پوسٹنگ میں سیاسی اثرورسوخ ختم ہو جائے تو پولیس اہلکاروں کی کرپشن، من مانی اور لوٹ کھسوٹ میں نمایاں کمی لائی جا سکتی ہے۔ پنجاب کی صوبائی حکومت اوروزیراعلیٰ کے نزدیک شائد ان کاموں کی ترجیح نہیں، میگا پراجیکٹس اور ہر شہر میں دھڑا دھڑ میٹرو بس سروس شروع کر دینا ان کا پہلا اور آخری ہدف ہے۔ ملتان میں میٹرو بس پر کام شروع ہے۔ ملتان کے تما م ارکان اسمبلی سمیت مقامی مسلم لیگ کے لوگ نجی طور پر یہ بات مانتے ہیں کہ شہر کو میٹرو بس کی ضرورت نہیں، اس پر آنے والے خرچ کا نصف بھی ملتان پر صرف کر دیا جائے تو وہاں کا نقشہ بدل جائے گا۔صرف ملتان ہی نہیں،قدرت نے مہلت دی تو میٹرو بس پنجاب کے ہربڑے شہر میں دوڑتی نظر آئے گی۔ عراقی صدر صدام حسین کو جگہ جگہ اپنے دیوقامت مجسمے لگانے کا شوق تھا۔ بھارتی لیڈر مایاوتی نے اپنے انتخابی نشان ہاتھی کے بڑے بڑے مجسمے اور بورڈ اترپردیش کے ہر شہر میں لگو ا دئیے تھے، ہمارے لیڈر کے دل کو سرخ رنگ کی میٹرو بس بھا گئی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ میٹرو پر ایک بار کا خرچہ نہیںہوتا، ہر سال سب سڈی کی مد میں اربوں روپے دینا پڑتے ہیں۔صوبائی حکومت کا تازہ ترین ہد ف لاہور کے مشہور (قرطبہ چوک)مزنگ چونگی سے لبرٹی تک سگنل فری کاریڈور بنانا ہے۔ لاہور کی جیل روڈ سے گزر کر لبرٹی تک جانے کا ہمیں ہزاروں بار اتفاق ہوا ، یہ درست ہے کہ چار پانچ اشارے راستے میں پڑتے ہیں اور وہاں رکنے میں پانچ چھ منٹ ضائع ہوجاتے ہیں۔
اس طرح کے سگنل فری کاریڈور بنا نے میں کوئی حرج نہیں، ترجیحی فہرست میں دسویں گیارہویں نمبر پر اسے رکھا جا سکتا ہے، جب شہر کے دیگر بڑے مسائل حل ہوجائیں اور ضلعی حکومت کے پاس اربوں پڑے سڑ رہے ہوں تو ایسے سگنل فری کاریڈور بنا لئے جائیں۔ جو حالت لاہور شہر کے ہسپتالوں کی ہے، اسے دیکھتے ہوئے نرم سے نرم لفظوں میں اس ایڈونچر کو دانش مندی نہیں کہا جا سکتا۔ لاہور ہائیکورٹ نے اس سٹرک کی تعمیر روک دی تھی اور اس کے خلاف فیصلہ سنایا۔ بہتر ہوتا کہ صوبائی حکومت اس سے باز آجاتی ،مگر وہ سپریم کورٹ میں چلے گئے اور تکنیکی نکات پر ان کے حق میں فیصلہ ہوگیا۔ ظاہر ہے شہر کی ترجیحات طے کرنا حکومت کا کام ہے، عدالتیں تو صرف یہ دیکھ سکتی ہیں کہ اس حوالے سے قوانین کی پاسداری کی جا رہی ہے یا نہیں۔ 
چار پانچ روز پہلے بی بی سی اردو نے دل کے مریض بچوں اور لاہور میں واقع دل کے سرکاری ہسپتال کے حوالے سے ایک خصوصی رپورٹ شائع کی۔ ان کی رپورٹر نے جب وہاں ہسپتال کا وزٹ کیا تو مریضوں کی صورتحال دیکھ کر وہ چیخ اٹھی۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ''چالیس دن کے شاہ زیب کے لیے ڈاکٹرز کچھ نہیں کر سکتے لیکن والدین کی امید ان کے ہاتھوں کو تھکنے نہیں دیتی۔وہ ہاتھ کے پمپ سے اس کی سانسیں بحال کر رہے ہیں کیونکہ ہسپتال کے 15 وینٹی لیٹرز ہزاروں مریضوں کی مدد نہیں کر سکتے لیکن صرف ان کی جن کی بچنے کی شرح زیادہ ہے۔ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ اگر ان کے پاس وسائل زیادہ ہوتے تو شاہ زیب بچ بھی سکتا تھا۔ ہسپتال کے وارڈوں میں بستر کم ہیں، زندگی اور موت کے درمیان الجھے ہوئے بچوں کو اکثر ایک ہی بستر پر لٹانا پڑتا ہے جس سے انفیکشن کا خطرہ رہتا ہے۔لاہور میں قائم یہ پبلک سیکٹر ہسپتال بچوں کے دل کی بیماریوں کے لیے واحد یونٹ ہے جہاں پورے ملک سے آنے والے مریضوں کی قطاریں لگی ہوتی ہیں۔طبی ماہرین کے مطابق پاکستان میں تقریباً 10 لاکھ بچے پیدائشی طور پر دل کے مرض کا شکار ہیں۔ اس وقت آٹھ ہزار سے زائد بچے اس سرجری کی ویٹنگ لسٹ پر ہیں جن سے ان کی جان بچ سکتی ہے۔ یہ لسٹ بڑھ رہی ہے لیکن بچوں کے پاس وقت کم ہے۔ہسپتال میں بچوں کے سرجن ڈاکٹر سلمان شاہ کا کہنا ہے 'بیشتر پیدائشی قلب کے امراض میں 80 فیصد صحت یابی کے امکانات ہیں اگر بر وقت مداخلت 
اور علاج کر لیا جائے۔ لیکن یہاں ہمارے پاس ہرسال چالیس ہزار سے زیادہ کیس آتے ہیں اور موجودہ حالات میں صرف ایک ہسپتال پورے پاکستان کے بچوں کا علاج نہیں کر سکتا۔اس سرکاری ہسپتال میں روزانہ مشکل فیصلے کیے جاتے ہیں۔ ہر ہفتے سو سے زائد بچوں میں سے محدود وسائل کے سبب صرف 11 یا 12 جان بچانے والے آپریشن ممکن ہو سکتے ہیں۔پروفیسر ڈاکٹر مسعود صادق کہتے ہیں یہ مرحلہ ان کے لیے تکلیف کا باعث ہوتا ہے۔ 'میں ایک ڈاکٹر ہوں اور میں یہ فیصلہ کیسے کروں کہ اس بچے کو ٹریٹمنٹ دی جائے گی اور دوسرے کو نہیں۔ میں کیسے یہ فیصلہ کروں کے کس بچے کو جینے کا حق ہے اور کس کو نہیں؟‘دوسری جانب بچوں کے دل کی سرجری پر تین سے چار لاکھ روپے کا خرچہ آتا ہے۔ بیشتر والدین غربت اور مفلسی کے وجہ سے اپنے بچوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے گھٹ گھٹ کر زندگی سے دور ہوتا دیکھنے پر مجبور ہیں۔پاکستان میں ڈینگی اور ملیریا جیسی بیماریوں سے نمٹنے کے لیے حکومتی مہمات اکثر اخباروں کی شہ سرخیاں بنتی رہی ہیں جبکہ طبی ماہرین کے مطابق پاکستان میں دس لاکھ کے قریب بچوں کو پیدائشی دل کا مرض لاحق ہے۔ ہر سال ہزاروں بچے اس وجہ سے جاں بحق ہو رہے ہیں جس پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔‘‘
بنیادی نقطہ اعتراض وہی ہے ،جو اوپر دی گئی رپورٹ میں بیان کیا گیا ۔میٹرو بس منصوبوں پرمیرے جیسے لوگ اسی لئے تنقید کرتے ہیں کہ یہ ایک خاص مائنڈ سیٹ ہے، جس کے اپنے تقاضے ہیں۔ جس کے تحت سگنل فری کاریڈور بنانے پر اربوں روپے اڑا دئیے جاتے ہیں اور دل کے مریض بچوں کے لئے چند ملین روپوں کے وینٹی لیٹر فراہم کرنا کسی کی ترجیح نہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں