اسے افغانستان یاد رکھے گا!

انسان بعض باتیں کبھی نہیں بھول سکتا، وہ ذہن کے نہاں خانوں میں یوں نقش ہو جاتی ہیں کہ ان کے سائے زندگی بھر ساتھ رہتے اور اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ ان میں مثبت اور منفی‘ دونوں طرح کی باتیں شامل ہیں۔ منفی باتوں کو جتنا جلدی دماغ کی ہارڈ ڈسک سے ڈیلیٹ کر دیا جائے، اتنا بہتر رہتا ہے۔ اچھی، کارآمد اور مفید یادداشتوں کی فائلوں کو البتہ جھاڑ پونچھ کر کے رکھنا چاہیے کہ وہ آدمی کو بسا اوقات کئی مشکلات سے بچاتی اور اہم مواقع پر رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ ایسی ہی دو یادداشتوں کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ عزیز مظہر مرحوم لاہور پریس کلب میں باقاعدگی سے آنے والے چند بزرگ صحافیوں میں سے ایک تھے۔ مشرق اخبار کے ساتھ وہ طویل عرصہ وابستہ رہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں مشرق کے ایڈیٹر بھی بنے۔ رپورٹنگ کا طویل تجربہ تھا۔ پریس کلب میں نوجوانوں کے ساتھ بیٹھتے۔گپ شپ کرتے‘ چائے پلاتے اور سیاسی تاریخ کے کئی ڈھکے گوشوں کو بے نقاب کرتے۔ گرمیوں کے ایسے ہی حبس آلود دن تھے۔ ایک سہ پہر کیفے ٹیریا میں مل گئے۔ کچھ دیر باتیں ہوتی رہیں۔ میرے کالموں کے حوالے سے کچھ مشورے دیے، پھر اچانک ایک ایسی بات کہی، جسے لکھنے والوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔ کہنے لگے: ''لکھاریوں کے ذمے دو بنیادی کام ہیں، قارئین میں امید جگانا اور فکری جمود توڑنے کے لئے سوال اٹھانا۔ امید اس لئے ضروری ہے کہ شکستہ حوصلہ لوگ کچھ نہیں کر سکتے، ان پر چھایا ڈپریشن کسی بھی قوم کے لئے زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔ پرانے کلیشوں، فرسودہ نظریات، از کار رفتہ سوچ کو چیلنج کرنا، ان کے بارے میں سوال اٹھانا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے‘‘۔ 
مجھے یاد نہیں کہ اسی محفل میں وہ بات کہی یا کسی اور دن، مگر نکتہ کمال کا تھا۔ جب بھی قلم اٹھایا، ان کا کہا گیا فقرہ بجلی کے کوندے کے طرح لپکا اور ذہن کی سکرین پر جگمگانے لگا۔ کہنے لگے: تجزیہ کاروں کو ترازو ہاتھ میں تھام کر لکھنا چاہیے۔ ان کا کام عدالت کا سا ہے، جو بات جہاں تک ہے، جتنی ہے، اتنی ہی اس پر رائے دینی چاہیے۔ تھوڑا کم نہ زیادہ۔ ایک پیشہ ور قاتل بھی کسی ایسے مقدمے میں عدالت کے سامنے ہے، جس میں اسے غلط طور پر پھانسا گیا اور شہادتیں اسے مجرم ثابت نہیں کرتیں تو عدالت اس کا ماضی نہیں دیکھے گی، صرف یہ جائزہ لے گی کہ پیش نظر معاملے میں ثبوت، شواہد اس کے خلاف جاتے ہیں یا نہیں؟ اگر نہیں تو اسے بلا جھجک بری کر دے گی۔ ایسا ہی کام انٹیلی جنشیا، اہل قلم اور تجزیہ کاروں کا ہے۔ انہیں بھی رائے دیتے ہوئے ترازو ہاتھ میں تھام لینا چاہیے۔ اپنے جذبات، احساسات، تعصبات اور پہلے سے طے شدہ سوچ کو ایک طرف رکھ کر پورے توازن، اعتدال اور غیرجانبداری کے ساتھ رائے دینی چاہیے۔ مرحوم افغان لیڈر ملا عمر کے حوالے سے پچھلے چند دنوں میں شائع شدہ خبروں، تحریروں اور پروگراموں کو دیکھ کر مجھے یہ احساس ہوا کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا۔ انسانی شخصیت کی مختلف جہتیں اور سطحیں ہیں، حتمی رائے دیتے ہوئے ان سب پر نظر رکھنا ضروری ہے، کسی ایک پہلو کو پسند یا ناپسند کرنے والے رائے دیں تو وہ متوازن نہیں ہوگی۔ 
ملا عمر کی زندگی کے تین چار فیز ہیں۔ طالبان کے قیام سے پہلے کی زندگی، طالبان کی کامیابی اور ان کا امیرالمومنین بن جانا، نائن الیون کے بعد اور افغانستان پر امریکی چڑھائی سے پہلے کے چند ہفتے اور پھر سب سے اہم فیز افغانستان میں غیر ملکی افواج کے خلاف مزاحمت۔ ان چاروں کو ذہن میں رکھ کر مجموعی رائے دینی چاہیے۔ ان میں سے کسی ایک فیز میں ملا عمر کے اختیار کردہ موقف، آرا یا پالیسیوں کے حوالے سے کسی تعصب کے زیر اثر آ کر تجزیہ کرنا مناسب نہیں۔ 
طالبان کے قیام سے پہلے کے ملا عمر کے بارے میں لو گ زیادہ نہیں جانتے۔ وہ روس کے خلاف افغان جہاد میں شامل رہے مگر افغانستان میں ہزاروں لوگوں کے ساتھ ایسا یا اس سے زیادہ ہوا۔ تاریخ کے صفحات میں ان کا تذکرہ نہ آ سکتا، اگر وہ خانہ جنگی سے متاثرہ افغانستان کو بچانے، برسوں سے برسر پیکار افغان کمانڈروں کے خلاف کھڑے نہ ہو جاتے۔ اپنے کچھ طالب علموں کے ساتھ انہوں نے طالبان کی بنیاد ڈالی اور مقامی وار لارڈز کے خلاف تحریک شروع کی‘ جسے غیرمعمولی پزیرائی ملی۔ چند ہی ہفتوں میں ان کا دائرہ اثر پھیلتا گیا، ایک کے بعد دوسرا شہر سرنگوں ہوتا گیا، حتیٰ کہ کابل بھی فتح ہوگیا۔ بیشتر افغان کمانڈروں کے اپنے ساتھی اور جنگجو ہتھیاروں سمیت طالبان کے ساتھ ملتے گئے۔
ہمارے ہاں یہ عام تاثر ہے کہ آئی ایس آئی کی مدد و معاونت کے ساتھ طالبان افغانستان پر چھا گئے۔ جنرل نصیراللہ بابر ان دنوں محترمہ کی حکومت کے وزیر داخلہ تھے۔ وہ برملا اس کا کریڈٹ لیتے اور انہیں اپنے بچے قرار دیتے تھے۔ ہمارے اداروں نے ان کی مدد اور پشت پناہی ضرور کی ہو گی، اس وقت کے تباہ حال افغانستان کو دیکھتے ہوئے یہ ایسا غلط فیصلہ بھی نہیں تھا، مگر اصل کریڈٹ بہرحال طالبان کو دینا چاہیے۔ ہمارے لوگ تو حکمت یار کو افغانستان میں حکومت دلانے کے لئے بھی سرگرم رہے، ایک دو اور مہرے بھی ہلائے گئے، مگر کامیابی نہ ملی۔ میرا خیال ہے کہ طالبان کی کامیابی میں ان نوجوان جنگجوئوں کے اخلاص، سادگی اور نیک نیتی کے علاوہ کاز کے ساتھ کمٹمنٹ کا بڑا عمل دخل ہے۔ طالبان کے چار سال سے تھوڑا زائد عرصہ حکومت کے بارے میں ایک سے زائد آرا ملتی ہیں۔ کچھ کام انہوں نے کمال کے کئے۔ ایسے‘ جس کی جدید تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ ایسا ملک جہاں برسوں سے خانہ جنگی جاری تھی، وہاں پر بے سروسامان طالبان نے ایسا امن قائم کیا کہ ان کے مخالفین بھی یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے۔ ملا عمر نے ایک حکم جاری کیا کہ ہر کوئی اپنے ہتھیار حکومت کے حوالے کر 
دے، انہیں حفاظت ہم فراہم کریں گے۔ اس سادہ سے اعلان کے کچھ ہی عرصے کے اندر افغانستان جیسا ملک‘ جہاں لوگ ہتھیار کو مرد کا زیور کہتے تھے، اسلحے سے پاک ہوگیا۔ اسی طرح پوست کی کاشت سے لاکھوں خاندانوں کی معیشت وابستہ تھی، حکومت نے ایک اعلان کیا اور پوست کی کاشت صفر ہوگئی۔ طرز حکمرانی بھی سادہ اور کرپشن سے پاک تھی۔ ملا عمر کا اپنا لائف سٹائل بھی انتہائی سادہ تھا۔ یہی سادگی عمال حکومت میں بھی جھلکتی۔ پاکستان سے ان دنوں وفود افغانستان جاتے رہے۔ ہر ایک کے پاس آنکھوں دیکھی عجب داستانیں ہوتیں۔ کسی کو حیرت تھی کہ امیرالمومنین ہونے کے باوجود ملا عمر قہوے کے ساتھ خشک روٹی کھاتے اور ان میں حکمران والی معمولی سی خوبو بھی نہیں پائی جاتی۔ ایسی ہی کئی دوسرئی مثالیں بھی دی جاتیں۔
طالبان کی حکومت اور ان کے قائد نے غلطیاں بھی بہت کیں، جنہوں نے ان کی ساکھ اور امیج بے حد متاثر کیا۔ طالبان قیادت کا فہم دین اوسط درجے کا تھا۔ بہت سی عصری حقیقتوں سے وہ ناواقف تھے۔ بچیوں کے سکول بند کر دینے سے برا تاثر قائم ہوا۔ سزائوں کے حوالے سے بھی غیر ضروری جوش و خروش سے کام لیا گیا۔ القاعدہ اور دیگر گلوبل ایجنڈا رکھنے والی عسکریت پسند تنظیموں کو افغانستان میں پناہ دینا ایسی بھیانک غلطی ثابت ہوئی، جس نے ناصرف طالبان حکومت کا خاتمہ کیا بلکہ اس کی قیمت افغانوں کو آج تک ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ نائن الیون کے بعد طالبان حکومت کا اختیار کردہ موقف اور پھر افغانستان پر غیرملکی قبضے کے بعد طالبان کے کردار پر بات کئے بغیر ملا عمر کے حوالے سے حتمی رائے نہیں دی جا سکتی۔ انشااللہ اس پر پھر بات کریں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں