افغانستان سے جُڑی کتاب کا ورق

جنرل حمید گل بھی رخصت ہوگئے۔ ان کی عمر کا اندازہ تو تھا کہ ریٹائر ہوئے بھی بیس بائیس سال گزر چکے تھے، مگرجنرل صاحب کی صحت اور فٹنس سے کسی کو شائد یہ خیال بھی نہیں ہوگا کہ وہ یوں اچانک چلے جائیں گے ۔ جسمانی اور ذہنی طور پر وہ نہایت چاق چوبند رہے، ریٹائرفوجی افسروں میں سے شاید سب سے زیادہ متحرک۔ اتوار کی صبح کچھ دیر میں فیس بک پر مختلف پوسٹیں دیکھتا رہا۔ جہاں کچھ لوگوں نے ان کے خلاف پوسٹ لگائیں اور تند وتیز تبصرے بھی کئے، وہاں ایک بہت بڑی تعداد نے اپنے اپنے انداز میںاس ریٹائرڈ فوجی کو خراج عقیدت بھی پیش کیا، جس نے محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً مرتے دم تک اپنے بوٹ نہیں اتارے ۔ جماعت اسلامی کے وابستگان، مذہبی جماعتوں سے ہمدردی رکھنے والے، غامدی صاحب کے مداحین، ڈرون حملوں کے خلاف تحریک چلانے اوراس حوالے سے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو مطعون کرنے والے، اعتدال پسند رائیٹسٹ ،مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے لئے نرم گوشہ رکھنے اور گاہے ان کا دفاع کرنے والے ... سب ہی جنرل صاحب کی اچانک موت کے صدمے میں نظر آئے اور انہوں نے اس کا برملا اظہار بھی کر ڈالا‘ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ جنرل حمید گل بھی اب روس کے خلاف جہاد افغانستان اور ملاعمر کے افغان طالبان کی طرح غیر مقبول بیانیہ کا حصہ بن چکے ہیں، جن کے خلاف بات کرنا، تیر برسانا فیشن بن چکا اور جن کے لئے کلمہ خیر کہنے والے کوبے رحمانہ کڑی تنقید کا ہدف بننا پڑتا ہے۔ کچھ دیر کے لئے میں یہ سوچتا رہا کہ آخر ایک ایسے شخص کے لئے یہ سب کچھ کیوں کیا جا رہا ہے، جو خود اعتراف کرتا تھا کہ اس نے آئی جے آئی بنوائی، پیپلزپارٹی کے خلاف جماعتوں کو صف آرا کیا، بطور ڈی جی آئی ایس آئی بھی اس سے غلطیاں ہوئیں،میڈیا جسے ایک ہارڈ لائنر اور شدت پسندوں کے حامی کے طور پر ہمیشہ پیش کرتا رہا...اچانک اس کا جواب ذہن کی سکرین پر جھلملانے لگا،''جنرل حمید گل کی پاکستان اور اسلام کے لئے محبت ۔‘‘ ان سے اختلاف کیا جا سکتا تھا، تنقید ہوسکتی تھی، مگر ایک بات واضح تھی کہ جنرل حمید گل پاکستانی نیشنلسٹ تھے، پاکستانی قوم اور مسلم امہ کے ساتھ جس کی محبت اور وابستگی غیر متزلزل تھی۔ 
جنرل حمید گل کی شخصیت کی کئی سطحیں تھیں۔ انہیں عام طور پر روس کے خلاف افغان جہاد (جی، میں اس تحریک مزاحمت کو جہاد قرار دیتا ہوں ) کے مرکزی معماروں میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔ یہ درست نہیں، جہاد افغانستان کے اصل معمار جنرل اختر عبدالرحمن اور ان کے ساتھی تھے، بریگیڈئر یوسف جن میں نمایاں تھے، جنہوں نے بعد میں شکست روس نامی کتاب میں اس کئی سالہ گوریلا جنگ کی روداد لکھی۔جنرل حمید گل آخری برسوںمیں آئے، جب جنرل اختر کوجوائنٹس چیف آف سٹاف کمیٹی کا چئیرمین بنا دیا گیا۔ان کے دور ہی میں اوجڑی کیمپ کا سانحہ ہو۔ جنرل صاحب کے ناقدین ان پر الزام لگاتے تھے کہ ان کی ناقص پلاننگ کے باعث جلا ل آباد کی تسخیر کا آپریشن ناکام رہا۔ لبرل تجزیہ کار طنزیہ انہیں ''فاتح جلال آباد‘‘ کہا کرتے۔جنرل ضیا ء الحق کی موت کے بعد جب ملک میں الیکشن ہوئے تو آئی جے آئی کا اتحاد بنا۔ دائیں بازو کی سب جماعتیں متحد ہو کر پیپلزپارٹی کے خلاف صف آرا ہو گئیں۔ برسوں بعد یہ بات واضح ہوگئی کہ جنرل حمید گل ہی نے آئی جے آئی بنوائی کہ انہیں خطرہ تھا کہ پیپلزپارٹی کو اگر بھاری اکثریت مل گئی تو وہ سکیورٹی رسک بن سکتی ہے۔ پچھلے بیس پچیس برسوں میں اس حوالے سے حمید گل پر بہت تنقید ہوئی۔ میرے جیسے لوگوں کے خیال میں بھی ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا ۔ جنرل گل البتہ اس کا دفاع کرتے تھے، ان کے پاس اس حوالے سے اپنے دلائل تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار ہمارے ہفتہ وار تھنکرز فورم سی این اے میں وہ مہمان خصوصی بنے تو ان پر ماضی کے ان حوالوں سے اس قدر تنقید ہوئی کہ وہ برہم ہوگئے ۔میاں نواز شریف کا جنرل حمید گل نے بھرپور ساتھ دیا اور انہیں قومی سطح پر لیڈر بنوانے میںکچھ حصہ ان کا بھی تھا۔ کہتے ہیں کہ جب میاں نواز شریف صاحب پہلی بار وزیراعظم بنے تو جنرل حمید گل نے میاں شریف کو مشورہ دیا کہ شریف خاندان کو اب کاروبار سے الگ ہوجانا چاہیے ، ورنہ بدنامی ہوگی۔ روایت ہے کہ بڑے میاں صاحب نے حیرت سے جنرل گل کو دیکھا اور کہا کہ برسوں سے ہم قطاروں میں لگ کر قرضے لیتے رہے ہیں، اب جا کر آسانی پیدا ہوئی ہے تو کاروبار چھوڑ دیں ؟ جنرل گل کا مشورہ مگر صائب تھا، بعد میں بینکوں کے قرضوں کے حوالے سے بڑی گرد اٹھی اور شریف خاندان آج تک ان الزامات سے باہر نہیں آسکا۔
افغانستان سے جنرل حمید گل کو خاص محبت تھی ، افغان طالبان کے ساتھ بھی ان کے قریبی خوشگوار تعلقات قائم رہے۔وہ شدید اینٹی امریکن تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار افتخار احمد صاحب کے ٹی وی پروگرام میں جنرل حمید گل سے پوچھا گیا کہ امریکی آپ کے مخالف کیوں تھے، جنرل صاحب نے کرسی کے ہتھے پر ہاتھ مارا اور فاخرانہ انداز میں کہا، کیونکہ میں امریکیوں کو جانتا ہوں اور 
امریکی بھی مجھے جانتے ہیں۔ویسے بنیادی طور پروہ پان اسلام ازم کے حامی تھے اور پاکستان ، افغانستان، ایران، ترکی جیسے مسلم ممالک پر مشتمل بڑا مسلم بلاک بنانے کے خواہش مند تھے، ظاہر ہے یہ سوچ عالمی قوتوں کو سخت ناگوارہی لگنی تھی۔ بزرگ صحافی اور دانشور نصرت مرزا کی روایت ہے کہ ایک بار وہ بھارت میں کسی انٹرنیشنل کانفرنس میں شرکت کے لئے گئے، وہاں روس کے مندوب نے ایک کاغذ لہراتے ہوئے بڑی پرجوش تقریر کی کہ یہ پاکستانی جنرل حمید گل کا فارمولا ہے ،جو روس کو توڑ کر فرغانہ کو اسلامی ریاست بنوانا چاہتا ہے۔اس وقت حمید گل کو ریٹائر ہوئے کئی سال گزر چکے تھے ۔ نصرت مرزا نے بعد میں حمید گل سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ وہ کوئی باقاعدہ پلان نہیں تھا، بلکہ محض انہوں نے ماضی میں کبھی ایک کانسپٹ پیپر لکھا تھا، جس میں روسی مسلم ریاستوں کو اکٹھا کر کے مغل بادشاہ بابر کی موروثی ریاست فرغانہ کو دارالحکومت بنانے کے خیال پر بحث کی گئی۔ یہ ایک مفروضہ ڈسکشن تھی، جیسا کہ دنیا بھر کے انٹیلی جنس اداروں میں ہوتی رہتی ہے۔وہ پیپر بعد میں کہیںروسیوں کے ہاتھ لگ گیا تو وہ خوفزدہ ہوگئے کہ کہیں اس پلان پر عمل نہ شروع ہوجائے۔
نائن الیون کے بعد کے تبدیل شدہ حالات میں جنرل پرویز مشرف نے اپنا مشہور یو ٹرن لیا اور امریکہ کے ساتھ دہشت گردی کی جنگ میں پارٹنر بننے کا فیصلہ کیا تو جنرل حمید گل نے اس کی شدید مخالفت کی۔ریٹائرڈ فوجی افسران عام طور پر حاضر سروس فوجی قیادت پر تنقید سے گریز کرتے ہیں۔ جنرل حمید گل نے مگر پرویز مشرف پر تنقید کا سلسلہ شروع کر دیا۔ جنرل مشرف اس قدر برہم ہوئے کہ ایک پریس کانفرنس میں حمید گل کونام نہاد دانشور قرار دیا۔ عدلیہ کی آزادی کی تحریک میں جنرل حمید گل نے ریٹائرڈ فوجیوں کی تنظیم ایکس سروس مین کو فعال بنا دیا اور متعدد ریٹائرڈ فوجی افسران کا مشترکہ بیان جاری کرایا ، جس میں پرویز مشرف سے استعفے کا مطالبہ کیا گیا۔
اپنی فکر اور سوچ کے اعتبار سے وہ انتہائی دائیں بازو کی کیٹیگری میں آتے تھے، جنہیں عقاب کہا جاتا ہے۔ مختلف حوالوں سے ان کی مخصوص رائے ہوتی،کئی بار بہت سخت اور شدید۔ جنرل صاحب کا احترام کرنے کے باوجود ان کی فکر کے ایک بڑے حصے اورنظریات سے مجھے اختلاف تھا، جس کا اظہار ڈٹ کر کرتا۔ مجھے لگتا کہ وہ سازشی نظریات پر زیادہ یقین رکھتے ہیں اور ہر برائی کے پیچھے خواہ مخواہ امریکہ کو ڈھونڈ نکالتے ہیں، حالانکہ کئی بار ہماری اپنی غلطیاں ہوتیں۔ ان سے ملاقاتیں تو کم ہوئیں، مگر وہ فون پر بات کرتے رہتے، کوئی کالم اچھا لگتا توٹیکسٹ میسیج لکھ کر اپنا فیڈ بیک دیتے ، آخر میں صرف گل لکھتے۔پہلے تو میں حیران ہوا کہ یہ کون ہیں، پھر اس نمبر پر فون کیا توپتہ چلا کہ جنرل حمید گل ہیں۔ ایسا بہت بار ہوا کہ سینئر صحافی اور اینکر سجاد میر کے مارننگ شو میں شرکت کے بعد میں گھر پہنچا اور فون آن کیا تو جنرل حمید گل کا میسج موجود ہوتا ، کبھی اتفاق رائے اور بیشتر اختلاف ۔ ان میں تحمل تھا اور وہ تنقید سن بھی لیا کرتے ، اپنا نقطہ نظرشائستگی سے پیش کرتے اورگفتگو میں تلخی نہ آنے دیتے۔ جنرل صاحب کے صاحبزادوں میں سے کوئی اس جانب نہیں آیا، ان کی صاحبزادی عظمیٰ گل ہی ان کی فکراور سوچ کی وارث نظر آتی ہیں۔جنرل صاحب چلے گئے ، تاریخ ہی ان کے بارے میں اپنا حتمی فیصلہ دے گی۔ ہم جیسے البتہ تاریخ کے دربار میں یہ بیان ریکارڈ کرا سکتے ہیں کہ مرحوم کو پاکستان اور اسلام سے غیر مشروط سچی وابستگی تھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں