بدترین سیاسی مغالطے

ہمارے ہاں بعض فقرے اس قدر مشہور ہو جاتے ہیں یا کوشش کر کے کر دیے جاتے ہیں کہ انہیں چیلنج کرنے کا کسی کو خیال ہی نہیں آتا۔ اہل دانش انہی پٹے پٹائے، فرسودہ، دیمک زدہ جملوں کی جگالی کرتے اور بار بار انہیں دہراتے رہتے ہیں۔ ایک وقت آ جاتا ہے کہ وہ اس قدر 'ان فیشن‘ ہو جاتے ہیں کہ پڑھنے لکھنے والے نوجوان ان سے مطمئن نہ ہونے کے باوجود سوال نہیں کرتے‘ مبادا گستاخی تصور ہو۔ ایسے فقرے کلیشے (cliche) کہلاتے ہیں، یعنی ایسے فقرے یا نظریات جو کبھی معنویت رکھتے بھی تھے‘ تو ضرورت سے زیادہ استعمال کے باعث وہ آج پٹ چکے ہیں، ان کا اثر ختم ہو چکا ہے اور عملی طور پر وہ غیر متعلق اور بے معنی ہو چکے ہیں۔ یہ کلیشے اب ایک ڈگری نیچے گر کر بدترین مغالطوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ ایسے مغالطے تو کئی ہیں، لیکن سردست ان میں سے ایک کو لیتے ہیں، جس کا چلن سیاست میں بہت ہے۔ 
ایک جملہ بہت استعمال ہوتا ہے، ''احتساب کا حق صرف عوام کو حاصل ہے‘‘۔ دراصل ہمارے سیاستدان، خاص طور پر وہ جن پر کرپشن اور لوٹ مار کے الزامات لگتے ہیں، یہ فقرہ تواتر سے بولتے ہیں۔ ان کے دستر خوان پہ پلنے والے ان کے ساتھی یا حامی تجزیہ کار بھی اپنے تجزیوں میں اسی بات کو دہراتے اور آگے بڑھاتے ہیں۔ اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ ہمارا احتساب نہ ہو، کوئی بھی سرکاری محکمہ ٹھوس ثبوت ملنے کے باوجود ہمیں نہ پکڑے کہ ہمارے احتساب کا حق صرف عوام کو حاصل ہے، وہ اپنے ووٹ کے ذریعے فیصلہ سنا دیں گے۔ یہ بات منطقی، قانونی، مذہبی غرض ہر حوالے سے غلط ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ عوام کو صرف سیاسی احتساب کا حق حاصل ہے۔ انہوں نے ووٹ دے کر جو غلطی کی، وہ اس پر بعد میں پچھتائے اور پھر جب موقع ملا، انہوں نے اپنی پچھلی غلطی سدھارنے کی کوشش کی۔ اس حد تک تو درست ہے، مگر اس میں بھی خطرہ برقرار رہتا ہے کہ بہت سے سیاستدان یہ سوچ کر لوٹ مار کرتے ہیں کہ اربوں کما لو اور پھر بہت زیادہ پیسے خرچ کر کے، اپنی دولت کے ذریعے ووٹ خرید کر الیکشن کو ہائی جیک کر لیا جائے۔ ایسا بہت بار ہوتا ہے، ہم سب نے کہیں نہ کہیں ایسا دیکھا ہو گا کہ ہمارے اپنے حلقے یا آس پاس کے حلقوں سے ایسے لوگ جیت گئے، جو بدعنوان ہونے کی وجہ سے بہت بدنام ہو چکے تھے۔ اپنی دولت کے سہارے انہوں نے مگر ایسا ماحول بنا لیا کہ ایک بار پھر میدان مار لیا۔ پاکستان جیسے کمزور جمہوریت والے ممالک میں، جہاں سسٹم ابھی مضبوط نہیں اور سیاسی کلچر کو کرپٹ ہونے سے بچانے کے لئے عملاً کچھ نہیں کیا جاتا، وہاں معاملہ صرف ووٹروں کی دانش پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ کرپٹ لوگوں کو سیاست سے باہر کرنے کے لئے سرکاری محکموں اور اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے، خاص طور پر وہ، جن کا کام ہی کرپشن کا سدباب کرنا ہو۔
دوسری سادہ سی بات یہ ہے کہ عام ووٹر کو کیا معلوم کہ ان کے حلقے کے ایم این اے یا ایم پی اے نے کیا گل کھلایا؟ اسے کیا خبر کہ اس کے حلقے کے فنڈز کہاں خرچ ہوئے اور کتنے؟ سب سے بڑھ کر انہیں یہ کیسے معلوم ہو سکتا ہے کہ ان کے منتخب امیدوار نے وزیر بننے کے بعد کس طرح کی کرپشن کی؟ وائیٹ کالر کرائم تو سرکاری محکمے وسائل ہونے کے باوجود آسانی سے نہیں پکڑ سکتے۔ تیسرا یہ کہ ان سیاستدانوں کا کیا بنے گا جو سینیٹ کے رکن بنے۔ اب جیسے سابق صدر زرداری کے دست راست اور اہم ترین ساتھی ڈاکٹر عاصم حسین کے بارے میں رینجرز کی تحقیقات سے ہوش ربا کرپشن کے انکشافات سامنے آ رہے ہیں۔ اندازہ ہو رہا ہے کہ موصوف اربوں، کھربوں کی کرپشن میں ملوث ہیں۔ ماہرین تو کہتے ہیں کہ ان کا اپنا حصہ بھی ہو گا، مگر وہ دراصل فرنٹ مین کا کام کرتے تھے، ان کے پیچھے موجود شخصیت کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، ہر ایک کو اندازہ ہو گا۔ ڈاکٹر عاصم جیسوں کا احتساب پھر کون کرے گا کہ انہوں نے عوام سے براہ راست ووٹ ہی نہیں لئے۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ اگر عوام اپنا احتساب کر بھی دیں، یعنی کسی پارٹی کو عبرتناک شکست سے دوچار کر دیں، پھر کیا ہو گا؟ کیا 
ان سیاستدانوں کی لوٹی ہوئی دولت واپس ہو جائے گی اور وہ عوام پر خرچ ہو سکے گی؟ دو مثالیں دیتا ہوں، کے پی کے اور بلوچستان کی (سندھ اور پنجاب کی اس لئے نہیں دے رہا کہ وہاں پچھلی حکومتیں ہی دوبارہ جیت گئی ہیں) پچھلے دور میں خیبر پختون خوا میں اے این پی اور پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت تھی، اس حکومت اور حکومتی وزرا کی بدعنوانی کے بارے میں بہت کہانیاں مشہور تھیں۔ صوبے کا بچہ بچہ جانتا تھا کہ ''ایزی لوڈ‘‘ کرانے سے کیا مراد ہے۔ لوگ چیخ اٹھے کہ اس بار تو لوٹ مار کی حد ہو گئی ہے۔ پانچ سال کے بعد الیکشن ہوا 
تو دونوں پارٹیوں کا صفایا ہو گیا۔ بدترین شکست سے وہ دوچار ہوئے، مگر کیا اس سے صوبے کے عوام کی زندگیاں بہتر ہو گئیں؟ وہ رقم جو ان پر خرچ ہونا تھی اور جو لوٹ مار کی وجہ سے نہ ہو پائی، کیا وہ ریکور ہو پائی؟ جواب نفی میں ہے۔ یہی حال بلوچستان کا ہے، وہاں اسلم رئیسانی وزیر اعلیٰ تھے۔ انہوں نے اور پوری اسمبلی نے مبینہ طور پر انتہا کر دی تھی۔ اس صوبے کے صحافی بتاتے رہتے کہ فنڈز کا دس فیصد بھی خرچ نہیں ہوتا‘ اور تمام ڈکار لیا جاتا ہے۔ الیکشن میں رئیسانی صاحب سمیت ان کی حکومت اور بیشتر اتحادیوں کا صفایا ہو گیا۔ اس شکست سے مگر بلوچستانی عوام کو کیا ملا؟ لوٹ مار کرنے والے تو ابھی تک محفوظ ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں رئیسانی صاحب کے ایک سیکرٹری کے گھر چھاپا پڑا‘ تو وہاں سے نوٹوں کی بوریاں اور سونے کے سکوں، اینٹوں سے بھرے بکسے نکلے۔ اس لئے یہ بات بالکل غلط اور صرف کرپٹ لوگوں کے حق میں جاتی ہے کہ عوام ہی سیاستدانوں کا احتساب کر سکتے ہیں۔ جو لوٹ مار انہوں نے کی ہے، اس کا حساب متعلقہ سرکاری محکموں کو لینا چاہیے اور پوری بے رحمی سے یہ کام کیا جانا چاہئے۔ جن لوگوں نے اربوں، کھربوں لوٹے، انہیں نشان عبرت بننا چاہیے تاکہ ان کے بعد والے لوگوں کے دلوں میں یہ خوف رہے کہ اگر کرپشن کی تو ہمارا انجام بھی بُرا ہو سکتا ہے۔ 
اگلے روز ایک ٹی وی شو میں شریک تھا۔ احتساب کے موضوع پر بات ہو رہی تھی۔ ایک سینئر ساتھی نے فرسٹریشن سے بھرپور لہجہ میں کہا: ''یہاں کچھ نہیں ہو سکتا۔ ہمارا معاشرہ اوپر سے نیچے تک کرپٹ ہو چکا ہے، جس کو دیکھیں، وہ کرپشن کر رہا ہے۔ ریڑھی والے سے مکینک، درزی سے مکان بنانے والے مستری تک اور بیوروکریسی سے سیاست تک ہر طرف کرپشن ہی کرپشن ہے، اس میں سویلین بھی شامل ہیں اور غیر سویلین کے ہاتھ بھی مکمل طور پر صاف نہیں‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کی باتیں بھی ہر جگہ سننے میں آتی ہیں کہ یہاں اوپر سے نیچے اور دائیں سے بائیں تک ہر کوئی کرپٹ ہے، فرق صرف کرپشن کی سطح کا ہے،... اس لئے کچھ نہیں ہو سکتا۔ میں نے اس پروگرام میں بھی یہی بات کی تھی کہ اس طرح کا بیانیہ بنیادی طور پر کرپٹ لوگوں کے مفاد میں جاتا ہے۔ ویسے بھی یہ سب پرانی باتیں ہو چکی ہیں، اب ان گھسی پٹی باتوں کو چھوڑ کر عوامی حلقوں سے اٹھنے والی نئی آوازوں کو سننا چاہیے۔ جو شخص ان کرپٹ حلقوں کا حامی ہے یا اسے بھی اسی کرپٹ سسٹم سے مفاد مل رہا ہے، اس کی تو بات سمجھ آتی ہے، آزاد سوچ رکھنے والوں کو تو پوری قوت سے دو باتیں کرنی چاہئیں۔ کرپشن کا ہر صورت خاتمہ کیا جائے، سرکاری محکموں میں جو ہر سال کئی سو ارب کی کرپشن ہوتی ہے، یہ جو کئی سو بلکہ شاید ہزار ارب سے زیادہ کا ٹیکس چوری ہو رہا ہے، اس سب کو ہر صورت روکا جائے۔ دوسرا یہ کہ کرپٹ عناصر کا بے رحم، سفاکانہ احتساب کیا جائے۔ ان سے لوٹا ہوا مال واپس لے کر، ان کی جائیدادیں ضبط کر کے انہیں سلاخوں کے پیچھے بھیجا جائے۔ جب تک پچھلے کرپٹ لوگوں کا احتساب نہیں ہو گا، ان کے خلاف کارروائی نہیں ہو گی، تب تک لوٹ مار کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ چاہے کرپشن بیوروکریسی میں ہے، سیاست میں یا کہیں اور... ہر ایک کو تیز ترین احتساب کا شفاف، قابل اعتبار اور فول پروف نظام وضع کرنا ہو گا۔ ان بدترین سیاسی مغالطوں سے اب پاکستانی عوام کو بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں