ہابسن چوائس

پاکستان میں کرپشن کے حوالے سے چلنے والے نعروں اور سوشل میڈیا پر لوگوں کے تند وتیز تبصرے پڑھتے ہوئے مجھے خیال آتا ہے کہ اب بہت ہوگیا، یہاں کرپشن کے حوالے سے کوئی بڑا، جرأت مندانہ اور فیصلہ کن قدم اٹھانا ہوگا۔ پاکستان میں کرپشن کا خاتمہ اب ''ہابسن چوائس‘‘ بن چکا ہے۔کرپشن ختم کرناہے یا نہیں ۔
ہابسن چوائس (Hobson's Choice)انگریزی زبان کی ایک مشہور اصطلاح ہے، سادہ مفہوم میں اس کا مطلب ہے کہ صرف ایک آپشن ہے، ماننی ہے یا نہیں ، دوسری کوئی آپشن نہیں۔ اس کا پس منظر دلچسپ ہے۔کہتے ہیں کہ سولہویں صدی میں تھامس ہابسن (Thomas Hobson)نامی ایک تاجر کیمبرج، انگلینڈ میں رہتا تھا۔ اس کے پاس چالیس پچاس گھوڑوں پر مشتمل ایک اصطبل تھا۔ وہ اپنے گھوڑے کرایہ پر دیا کرتا۔ ان گھوڑوں میں سے چند ایک اعلیٰ نسل کے تھے۔ ہر گاہک کی خواہش ہوتی کہ وہ اپنے سفر کے لئے سب سے عمدہ گھوڑا منتخب کرے۔ تھامس ہابسن نے اس سے پریشان ہو کر گھوڑے کرایہ پر دینے کی ایک شرط رکھ دی۔ وہ گاہک سے کہتا کہ آپ اصطبل میں جا کر گھوڑا پسند کریں، دروازے سے قریب بندھا ہوا گھوڑا آپ کو ملے گا۔ لینا ہے تو وہی ملے گا ، ورنہ نہیں۔ اس شرط سے گاہک بڑے چکرائے کہ یہ کیسی چوائس ہے ، جس میں ایک ہی آپشن ہے ۔ ہابسن نے مگر اس شرط پر سختی سے عمل درآمد کرایا۔ یہ بات آس پاس کے دیہات میں بھی پھیل گئی اور کئی لوگوں نے ہابسن چوائس کے فارمولے کو اپنایا۔ یوں یہ اصطلاح ہابسن چوائس کے نام سے انگریزی لغت کا حصہ بن گئی ، جس کے مطابق کسی معاملے میں بظاہر انتخاب کی آزادی ہو، مگر عملی طور پر ایک ہی آپشن موجود ہو۔آگے بڑھنا ہے تو اسی واحد آپشن کو ماننا پڑے گا، ورنہ ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھناپڑے گا۔
پاکستانی ریاست، قومی اداروں اور مختلف شعبوں سے کرپشن کا خاتمہ کرنا اب ہابسن چوائس بن چکی ہے۔ ہمارے پاس اور کوئی آپشن نہیں۔ہر قیمت پر، ہر حال میں اپنی پوری قوت صرف کر کے کرپشن کا خاتمہ کرنا اور اسکے لئے ایک فول پروف میکنزم بنانا پڑے گا۔کرپشن ہمارا آج کا مسئلہ نہیں، مگر اس قدر سنگین اور بھیانک صورتحال پہلے کبھی نہیں رہی تھی۔ چند سال پہلے ایک وفاقی وزیر خزانہ نے آن دی ریکارڈ یہ بات تسلیم کی کہ ہمارے مختلف اداروں سے ہر سال چھ سو ارب روپے رقم کرپشن کی وجہ سے ضائع ہوجاتی ہے۔ لگتا ہے کہ یہ صورتحال بہت تیزی سے بدل گئی ہے۔ ہمارے سیاستدان زیادہ سمارٹ ہوگئے ہیں یا پھر کرپشن کے نئے طریقے سامنے آ گئے ہیں ۔ حالیہ اندازے تو سینکڑوں کی جگہ ہزار ارب روپے سالانہ تک بلکہ اس سے بھی آگے جا چکے ہیں۔ کرپشن سکینڈل کے حوالے سے برادرم رئوف کلاسرا کے ہلا دینے والے چشم کشا کالم اگر اکٹھے کر لئے جائیں تو ایک ضخیم وائیٹ پیپر ترتیب پاجائے گا۔کرپشن کا جب ذکر کیا جائے، اس پر آنے والا ردعمل دلچسپ ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتیں جب اپوزیشن میں ہوتی ہیں، تب وہ میڈیا پر آئے ہر کرپشن سکینڈل کو لے اُڑتی ہیں، اسمبلی میں اس پر تقریریں ہوتیں اورحکمران جماعت پر لعن طعن کی جاتی ہے، میڈیا کو اس کا کریڈٹ دیا جاتا اورصحافیوں کو مجاہدگردانا جاتا ہے۔ یہی جماعت جب اقتدار میں آ جاتی ہے ، تب اس کا ردعمل یکسرمختلف ہوتا ہے۔ پہلے تو ہر قسم کی کرپشن سے انکار کیا جاتا ہے، جب میڈیاکے لوگ تفصیل جمع کر کے سکینڈل فائل کریں تب یہ کہا جاتا ہے کہ عدالت میں جا کر ثابت کریں۔ یہ کمال کا بہانہ ہے۔ حکومت آپ کی، ادارے آپ کے پاس، کرپشن ختم کرنے کے لئے کئی محکمے ، جہاں سینکڑوں ملازم ہیں، اربوں کے فنڈز موجود ہیں، مگر کوئی سکینڈل سامنے آ گیا تو اس کی شفاف تحقیقات کرانے کے بجائے رپورٹروں کو کہا جاتا ہے کہ عدالت میں جائواور ثابت کرو۔ ایسی نرالی منطق ہمارے ہاںمل سکتی ہے، مہذب ممالک میں کوئی سیاستدان ایسی بات کرے تو فوری طور پر اسکی ذہنی حالت چیک کرائی جائے گی۔ 
آج کل ایک اور ردعمل بھی دیکھنے کوملتا ہے۔ جیسے ہی کرپشن کے الزامات لگتے ہیں، جواب یہ دیا جاتا ہے کہ فلاں نے بھی تو کیا تھا، اس جماعت نے بھی کیا تھا، فلاں آمر کے دور میں اس جرنیل نے بھی کرپشن کی تھی، اس وزیر نے بھی ایساکیا تھا۔ یہ بھی حیران کن دلیل ہے۔ کرپشن کرپشن ہے، ایک نے کی ہو، دونے، تین نے یا سب نے۔ ایک غلط کام کا ارتکاب سو لوگ کریں، تب بھی دلیل نہیں بن سکتا۔ ایک چور کو پکڑا جائے تو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ جب تک فلاں چور کو نہیں پکڑوگے، اس وقت تک مجھے سزا نہیں دے سکتے۔ اس چور کو بھی پکڑ لیں گے، مگر اس وقت تو تم شکنجے میں آئے ہو، پہلے تم تو سزا بھگت لو، پھر اس کی باری بھی آ جائے گی۔ اسی طرح سیاستدان یہ نہیں کہہ سکتے کہ جب تک ڈکٹیٹروں کے ساتھیوں کو سزا نہیں مل جاتی ، تب تک ہمیں ہاتھ نہ لگایا جائے۔کرپشن کرنے والا سویلین ہو یا خاکی، ہر ایک کو سزا ملنی چاہیے۔ اس حوالے سے لیکن شرائط نہیں رکھی جا سکتیں۔ جو بھی ہاتھ آئے ، اسے سزا دینی چاہیے۔ جب اس کا ٹرینڈ پڑ جائے گا، تب ہر ادارہ اپنے اندر صفائی کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔ پھر کوئی نہیں بچ سکتا۔ 
مسئلہ یہ ہے کہ کرپشن کے خلاف کام کرنے والے اداروں کی کریڈیبلٹی ختم ہوچکی ہے۔ ہمارے ہاں احتساب صرف سیاسی یا مخصوص ایجنڈے کے پیش نظر کیا گیا۔جنرل ایوب خان نے ایبڈو کے ذریعے احتساب کرنا چاہا، مگر وہاں بھی مقصد اس وقت کے معروف سیاستدانوں کو کئی برسوںکے لئے سیاست سے باہر رکھنا تھا۔ احتساب کے لئے کسی مضبوط ادارے کو قائم نہیں کیا گیا۔میاں نواز شریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں احتساب کا عمل شروع کیا، مگراس کا نگران سیف الرحمن صاحب کو بنایا گیا، جنہوں نے احتساب کا نام ہی بدنام کر دیا۔ یہ صرف سیاسی انتقام ہی سمجھا گیا۔ جنرل مشرف نے جب نیب کی شکل میں ایک باقاعدہ ادارہ بنایا تو بہت سے لوگوں کو اس سے امیدیں وابستہ ہوگئیں۔ شروع میں نیب نے کچھ اچھا کام کیا، بعض ایسے طاقتور لوگ اس کی گرفت میں آئے، جو ہمیشہ چھوٹ جایا کرتے تھے۔ نیب کی پلی بارگین نے البتہ احتساب کے عمل کو متاثر کیا۔ کرپشن کرنے والا اگر کچھ حصہ دے کر چھوٹ جائے تو کیا فائدہ؟ ریاست کو چند کروڑ روپوں سے زیادہ وہ سینکڑوں، ہزاروں کروڑ روپے بچانے پر توجہ دینی چاہیے جو کرپشن میں ضائع ہوجاتے ہیں۔ایسا کرپٹ افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے سے ہوسکتا ہے، پلی بارگین تو کرپشن کی حوصلہ افزائی کرتی
ہے۔ بعد میں اس ادارے کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا۔ پیپلزپارٹی دور میں تو یہ ادارہ ویسے ہی غیر فعال رہا۔ 
سوشل میڈیا پر ایک رائے پچھلے کچھ عرصے سے منظم ہوئی ہے، ہمارے اہل دانش کا ایک حلقہ بھی اس کو سپورٹ کر رہا ہے۔ میرے خیال میں اس پر غور ہونا چاہیے۔ تجویز سادہ سی ہے۔ کرپشن کا خاتمہ ہمارا قومی ایجنڈا بن چکا ہے۔اس سوچ پرتو مکمل اتفاق رائے ہوچکا ہے،اب اسے عملی جامہ پہنانا چاہیے۔ کرپشن کے لئے قومی سطح پر ایسا مضبوط ، طاقتور اور فعال ادارہ بنانا چاہیے جو استحصالی طبقات اور ملک کے طاقتور ترین افراد کو بھی گرفت میں لے سکے۔ اپیکس کمیٹیوں کی شکل میں ایک نیا عنصر سامنے آیا ہے، جس میں عسکری اور سویلین ادارے یکجا ہو کر دہشت گردی کے خلاف نبردآزما ہیں۔ یہ تجربہ بہت کامیابی سے جاری ہے۔ کرپشن کے خاتمے کے لئے بھی ایسا ہی کوئی طریقہ نکالنا چاہیے ۔ فوج اور سویلین ادارے یکجا ہو کر کرپٹ عناصر کے خلاف بھی آپریشن شروع کریں۔ یہ آپریشن ضرب عضب کا اگلا فیز ثابت ہوگا۔ یاد رہے کہ میں سویلین پر عسکری سپرمیسی کی بات قطعی طور پر نہیں کر رہا۔ میں اس پر یقین رکھتا ہوں کہ حکومت کرنا سیاستدانوں کا کام اور انہی کا حق ہے۔ وہ عوام سے مینڈیٹ لے کر آتے اور انہی کے نمائندے ہونے کے ناتے حکومتی معاملات انہیں ہی چلانے چاہئیں۔ کرپشن کامعاملہ مگر غیرمعمولی اہمیت اختیار کر چکا ہے، جس طرح فوجی عدالتوں کی شکل میں آئین میں ترمیم کرنی پڑی، کئی اصولی معاملات پر کمپرومائز کیا گیا‘ کرپشن ختم کرنے اور لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے لئے بھی ایسا ہی کچھ کرنا پڑے گا۔ اہل سیاست اور جمہوری حلقوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ عوام کے دل کی آواز ہے،یہ ہابسن چوائس بن چکی ہے۔ اہل سیاست نے ایسا نہ کیا تو کسی اور کو کرنا پڑے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں