سیاسی آفٹر شاکس

ہر چیز کی ایک جگہ ہوتی ہے، اسے وہاں سے ہٹا کر کسی دوسری کے ساتھ ملا دیا جائے تو چیزیں خلط ملط ہوجاتی ہیں۔ تجزیہ کرتے ہوئے بھی یہی مسئلہ ہوتا ہے کہ اگر مختلف فیکٹرز کو ان کی اصل جگہ سے ہٹا کر اپنی پسندکی ترتیب بنادی جائے تو منظر یکسر مختلف ہوجاتا ہے۔ یہ صورت حال کی حقیقی تصویر نہیں ہوگی، اس پر ہونے والی بحث بھی خلط مبحث بن جائے گی۔ 
بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ ختم ہوا، جو ہنگامے اور طوفان وہ اپنے جلو میں لایا تھا، ان کے اثرات اور ایک لحاظ سے سیاسی آفٹر شاکس ابھی جاری ہیں۔ دیکھتے ہیں دوسرا مرحلہ پہلے کی طرح کے نتائج لاتا ہے یاکچھ مختلف، اس میں مگر دو ہفتے سے کچھ زائد وقت لگے گا۔ اس دوران دو نئی بحثیں شروع ہوئی ہیں۔ ایک کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے۔ پنجاب کے بارہ اضلاع میں بلدیاتی نتائج سے یوں لگا کہ ہر طرف مسلم لیگ ن ہی کار فرما ہے۔ بیشتر جگہوں پر مقابلہ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ ہولڈرز اور ان مسلم لیگیوں میں تھا جنہیں ٹکٹ نہیں ملا اور وہ آزاد کھڑے ہوئے۔ جیتنے کے بعد وہ اپنی پارٹی کا رخ کر رہے ہیں۔کیا یہ مستقبل کے سیاسی نقشے کی جھلک ہے؟ دوسرے اور تیسرے مرحلے میں پنجاب کے دو درجن کے لگ بھگ اضلاع باقی ہیں، ان کے نتائج سے یہ تصویر مزید واضح ہوجائے گی، مگر اس وقت اندازہ یہ ہے کہ اگلے دونوں مرحلے بڑی حد تک پہلے کی طرح نتائج دیںگے۔ اکا دکا مستثنیات ہوسکتی ہیں، مگر اس سے مجموعی تصویر میں زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ یہ صورت حال مسلم لیگیوں کے لیے جہاں دل خوش کن ہے، وہاں کئی حوالوں سے پریشان کن بھی۔ یک جماعتی سیاسی نظام پاکستان جیسے ملک میں بھیانک نتائج دے سکتا ہے، جہاں سیاسی کلچر مضبوط نہیں اور سیاسی قیادت کو آمرانہ طرز حکمرانی مرغوب ہے؛ جہاں سیاست ایک فرد اور پھر آگے جا کر اس کے خاندان کے گرد گھومتی ہے اور کارکنوں کے لیے شہزادوں، شہزادیوں کے آگے سر جھکانے کے سوا کوئی آپشن باقی نہیں رہتا۔ اس صورت میں دوسری بڑی جماعت کا ہونا ضروری ہے تاکہ سب سے بڑی جماعت پر دبائو رہے اور گڈگورننس اس کی مجبوری بن جائے۔
ملین ڈالر سوال مگر یہ ہے کہ وہ دوسری پارٹی کونسی ہو؟ تحریک انصاف نے مایوس کن نتائج دیے ہیں۔ تو پھر کیا ملک کو ایک نئی سیاسی جماعت کی ضرورت ہے؟ ایسی جماعت جس میں پڑھے لکھے، مخلص لوگ شامل ہوں اور ان غلطیوں سے گریزکریں، جن کا ارتکاب تحریک انصاف نے کیا۔ اس سیاسی جماعت کی جانب دو تین دن پہلے برادرم خورشید احمد ندیم نے اشارہ کیا اور جس کی کچھ تفصیل جناب ہارون الرشید نے اپنے گزشتہ روزکے کالم میں بیان کی۔ بدھ کی صبح اٹھا توکئی دوستوں کے ٹیکسٹ میسج آ چکے تھے، وہ جاننا چاہتے تھے کہ اس نئی جماعت کا حدود اربعہ کیا ہے اورکون لوگ اس میں شامل ہوںگے؟ میرا جواب یہ تھا کہ میری معلومات محدود ہیں۔ نئی سیاسی جماعت کے حوالے سے جو اشارے دیے گئے وہ دل کش معلوم ہو رہے ہیں، لیکن جب تک اس کا پورا نقشہ سامنے نہیں آ جاتا کوئی رائے نہیں دی جا سکتی۔ اگلے چند دنوں میں شاید صورت حال مزید واضح ہوجائے۔ ایک بڑا سوال یہ بھی ہے کہ کیا اتنی جلدی تحریک انصاف سے مکمل مایوس ہوا جاسکتا ہے؟ کیا یہ جماعت اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکی یا پھر یہ وقتی دھچکا ہے؟ کیا عمران خان اسے ازسرنو منظم کر کے دوبارہ اٹھالیںگے؟ یہ ایک مکمل بحث کا عنوان ہے، اس پر بات ہونی چاہیے۔ میرے خیال میں تحریک انصاف کو رائٹ آف کرنا درست نہیں۔ اس کی کمزوری اور سب سے بڑی قوت خود قائد عمران خان ہیں۔ کسی دوسری جماعت میں جب تک عمران خان جیسا کرائوڈ کو کھینچنے والا اورکرشماتی شخصیت کا مالک لیڈر نہیں ہوگا، تب تک بات بنے گی نہیں۔ عمران خان غلطیاں بہت کر رہے ہیں، ان کی سیاسی ناپختگی باربار سامنے آ جاتی ہے، اس سب کے باوجود مگر ان میں کچھ ایسا ضرور ہے جو ان کے مداحوںکو 
مایوس نہیں ہونے دیتا۔ ان کی ذاتی دیانت، اخلاص اور کمٹمنٹ ہے یا رسک لینے کی حیران کن صلاحیت یا تبدیلی کا نعرہ جس نے چند افراد پر مشتمل ایک فین کلب کو ملک کی دوسری بڑی پارٹی بنا دیا۔ وجہ کوئی بھی ہو، عمران خان سیاسی منظرنامے پر ابھی پوری طرح موجود ہیں۔ رہی ان کی غلطیوں کی بات تو اس پرکسی الگ نشست میں بات ہوگی۔
ایک بحث پیپلزپارٹی کے حوالے سے بھی شروع ہوئی ہے۔ سندھ میں پی پی پی نے حیران کن کامیابی حاصل کی۔ پنجاب میں مسلم لیگ نے پچاس فیصد سے کچھ کم ووٹ لیے، آزاد امیدواروں کو شامل کر کے بھی ستر پچھتر فیصد سے زیادہ نہیں بنتے جبکہ سندھ میں پیپلزپارٹی نے اکیاسی فیصد نشستیں جیت لیں۔ یہ غیرمعمولی کامیابی ہے۔ ادھر گجرات ضلع میں کائرہ خاندان نے لالہ موسیٰ میں میدان مار لیا ہے۔ عام انتخابات میں قمر زمان کائرہ بھی شکست کھا گئے تھے، اس بار مگر وہ لوکل باڈیز سطح پر ری گروپ ہوکر کامیاب ہوئے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے حامیوں میں اس سے ایک نئی امید جاگی ہے۔ کہا جانے لگا ہے کہ پنجاب پیپلز پارٹی کی قیادت موزوں شخص کو سونپی جائے تو شاید بگڑی تقدیر سنور جائے۔ 
ایک بحث پی ٹی آئی کے مایوس ووٹروں نے شروع کی۔ سوشل میڈیا پر ایسی بہت سی تحریریں دیکھیں جن میں عوام کو اپنی غلط سیلکشن پر لعن طعن کی گئی۔ سوال اٹھائے گئے کہ اگر پنجاب حکومت کی مایوس کن کارکردگی اور سندھ میں پیپلزپارٹی اپنی بدترین گورننس کے باوجود جیت 
سکتی ہے تو پھر عوام بہتر حکومت کے مستحق نہیں، وہ خود بھگتیں۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ ایسی مایوس کن تحریریں جماعت اسلامی کے دوست بھی مئی 2013ء کی انتخابی شکست اورکراچی 
کے ضمنی انتخاب میں اس کے امیدوار کی ضمانت ضبط ہونے کے بعد لکھا کرتے تھے۔ میرے خیال میں معاملہ غلط تفہیم کا ہے۔ دو تین باتیں سمجھ لی جائیں تو اس قدر مایوسی نہ ہو۔ پہلی یہ کہ پاکستانی عوام ایک چھوٹا یونٹ نہیں جس کی ایک رائے ہو اور یہ آپس میں صلاح مشورہ کر کے کوئی فیصلہ کرتا ہو۔ بیس کروڑ آبادی ہے، یہاں مختلف کلچر، زبانوں اور علاقائی مسائل کی حامل قومیتیں آباد ہیں۔ ہر ایک کے اپنے مسائل اور اپنی الگ پوزیشن ہے۔ خود لاہور جیسے شہر میں ڈیفنس کے لوگوں کا الگ مزاج ہے؛ گلبرگ، ماڈل ٹائون، واپڈا ٹائون، جوہر ٹائون سے لے کر سمن آباد، اچھرہ، گڑھی شاہو اور ٹائون شپ سے مصری شاہ، داروغہ والا، مغلپورہ، شاہدرہ جیسے علاقوں کی مختلف سیاسی پوزیشن اور مختلف عصبیتیں ہیں۔ کہیں ذات برادری مضبوط ہے توکہیں لوگ قومی پالیسیوں اور معیشت کی صورت حال دیکھتے ہیں۔ ایسے علاقے بھی ہیں جہاں کا سب سے بڑا مسئلہ سیوریج یا سڑکوںکی مرمت ہے۔ ان سب کی ایک سوچ اور رائے نہیں، اس لیے سب پر ایک اصول تھوپنا نہیں چاہیے۔ اسی طرح جنوبی پنجاب کی مختلف سیاست ہے۔گوجرانوالہ، فیصل آباد کے اپنے حالات ہیں جبکہ پنڈی،چکوال وغیرہ کی اپنی اپنی سیاسی حقیقتیں ہیں۔ اسی طرح سندھ میں دیہی سندھ اور شہری سندھ کی یکسر مختلف سیاست ہے۔ کے پی کے، کے اپنے محاذ اور بلوچستان کا نقشہ سب سے مختلف ہے۔ بڑی سیاسی جماعتیں ان سب کا ادراک کرتی اور ان کے حوالے سے حکمت عملی ترتیب دیتی ہیں۔ جو ایسا نہیں کرپاتیں، شکست ان کے حصے میں آتی ہے اور ان کے ورکر اور رہنما اپنی ناقص حکمت عملی اور نااہلی کا اعتراف کرنے کے بجائے الزام دوسروں پر ڈال دیتے ہیں۔ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ عوام قصور وار نہیں، میرے خیال میں ہمارے ہاں سیاسی کلچر مضبوط نہ ہونے کی بڑی ذمہ داری عوام پر بھی عائد ہوتی ہے۔ لیکن جب ہم عوام کی بات کرتے ہیں تو پھر ہمیں اپنے اہل دانش پر بھی الزام عائدکرنا پڑے گا جنہوں نے سماجی اور سیاسی شعور پیدا کرنے کے بجائے اپنی قسمتیں سنوارنے پر زیادہ توجہ دی۔ اس پر تفصیل سے بات کریںگے، مگر پہلے سیاسی آفٹر شاکس تو ختم ہوجائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں