تصوف، اشفاق احمد اور یوم اقبال

دو دن پہلے رات گئے چینل بدلتے ہوئے ایک مارننگ شو (نشرِ مکرر)دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ پاکستانی انٹرٹینمنٹ چینلز کے مارننگ شوز بھیانک صورت اختیار کر چکے ہیں۔ہر چینل پر ایک سی خواتین اینکر اپنے سامنے کچھ مخصوص فیملیز کو بٹھائے بچگانہ سے موضوعات پر گفتگو کرتی ملیں گی۔ اکثر چینلز پر تو شادیاں ہی چلتی رہتی ہیں۔ مقصد مہندی وغیرہ کے گانوں اورجگمگاتے ملبوسات کے ذریعے گھر یلو خواتین کو مسحور کرنا ہوتا ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ کہ جب رات کو گھر پہنچتے ہیں ، اس وقت نیوز چینلز پر ٹاک شو ز نشر مکررکے طور پر لگے ہوتے ہیں اور انٹرٹینمنٹ چینلز پر یہی گھسے پٹے مارننگ شوز۔ کھانا کھانے سے سونے تک کے وقفہ میں یہی سب کچھ زہر مارکریں ، کرکٹ میچ نہ ہوں تو آخری آپشن ڈسکوری، نیشنل جیوگرافک جیسے چینلز ہی بنتی ہے۔ ان چینلز پر بھی دستاویزی فلموں کی ڈبنگ ہندی میںہوتی ہے، جسے آج کل شدھ کرنے کے چکر میں جناتی زبان بنا دیا گیا ہے۔
بات اس مارننگ شو کی ہو رہی تھی، اس کی دو خوبیاں ہیں، ایک تو میزبان اداکارہ وہ ہے جسے پی ٹی وی کے آخری زمانے کی سہی، مگر کچھ تربیت نصیب ہوگئی۔ استنبول کے باسفورس سمندر میں ایک کشتی (کروز)پر وہ شو کیا جاتا ہے۔ہر پروگرام میں ایک پاکستانی شخصیت کو بلا کر اس سے گپ شپ کی جاتی ہے۔ اس روز مہمان ایک معروف ٹی وی اینکر تھے، جنہیں شہرت دینی پروگراموں اور اس میں لائیو کالرز کو فی البدیہہ وظائف بتانے سے ملی۔وہ سوال کرنے والے کا نام اور مدعا سن کر فوری طور پر اسے اللہ کے ناموں میں سے دو تین نام پڑھنے کے لئے بتاتے تھے۔اسے غالباً علم الاسماء کہتے ہیں، معلوم نہیں کہ وہ صاحب اس کے کس قدر ماہر ہیں۔ گجر خان کے پروفیسر صاحب علم الاسماء کے ممتاز ماہر تصور کئے جاتے ہیں ، مذکورہ اینکر پروفیسر صاحب کا شاگرد ہونے کے دعوے دار ہیں، یہ اور بات کہ پروفیسر صاحب کا حلقہ انہیں اون نہیں کرتا۔شو کی میزبان کو اس روز بری طرح چکرائے دیکھا۔دیکھنے والا منظر تھا۔ سوال گندم، جواب چنا والی مثل کی حقیقی شکل۔ ایک سطری سوال کا پندرہ بیس منٹ پر محیط جواب ملتا ،تیز تیز باتیں، اِدھر سے اُدھر،زمین وآسمان کے قلابے ملاتے، طویل بے معنی ،بے رس کمنٹس۔
انہی تیز تیز جملوں میں ایک فقرہ ایسا آیا کہ سیدھا ذہن میں کھب گیا۔ فرمانے لگے'' اشفاق احمد اگر آج کے دور میں ہوتے تو ان کی ریٹنگ زیرو ہوتی، وہ زمانہ اور تھا، مگر آج وہ نہیں چل سکتے ۔‘‘میں دیر تک سوچتا رہا کہ کیا واقعی اشفاق احمد کا سحر ختم ہوچکا؟ہماری نسل کی تربیت اور مزاجوں کی تہذیب میں اشفاق احمد کا بڑا حصہ ہے۔وہ زبردست شارٹ سٹوری رائٹر تھے،پی ٹی وی پر ان کے ڈراموں نے تہلکہ مچائے رکھا۔ ریڈیو پر ان کے تہلکہ خیز پروگرام تلقین شاہ کوکون بھول سکتا ہے؟ تلقین شاہ کتابی شکل میں دستیاب ہے، کئی جلدیں شائع ہوچکی ہیں۔ ان کا ایک مشہور اور کمال کا فکر افروز ڈرامہ ''من چلے کا سودا ‘‘بھی کتابی شکل میںمیسر ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب یہ ڈرامہ نشر ہوتا، ہمارے گھرمکمل سکوت ہوتا۔ والد مرحوم دلچسپی سے اسے دیکھتے اور ہم لڑکوں کو کوئی سوال یا تبصرہ کرنے کی اجازت نہ ہوتی۔ اس وقت تو ہم منہ پھاڑے حیرت زدہ اسے دیکھتے رہتے، سمجھنے ، نہ سمجھنے کی کیفیت میں۔ چند سال بعد وہ دوبارہ نشر ہوا ، اسے کتابی شکل میں بڑی دلچسپی اور غور سے پڑھا اور کمال لطف اٹھایا۔ اشفاق احمد کا شائد سب سے اہم کنٹری بیوشن ان کا پروگرام زاویہ تھا۔ اس پروگرام نے جانے کتنے لوگوں کے دماغ کھولے اور بہت سی آئوٹ آؓف باکس سوچوں سے روشناس کرایا۔مجھے خوشی ہوتی ہے جب فیس بک پر آج بھی بہت سے لوگ زاویہ کی مختلف نشستوں کے ٹکڑے شیئر کرتے ہیں، اشفاق صاحب کے بیان کئے گئے واقعات، باتیں، فقرے دہرائے اور کوٹ کئے جاتے ہیں۔ اشفاق احمد کا جادو جس روز دم توڑ جائے گا، اس روز ایک پوری تہذیب اور فکر مٹی اوڑھ لے گی۔ 
اشفاق احمد نے تصوف کے بابوں کو ایک حیران کن رومانٹسزم کے ساتھ متعارف کرایا۔ ان پر تنقید بھی کی جاتی رہی۔تصوف کے مخالفیں میں سے کچھ تو مسلکی طور پر اسے ناپسند کرتے ہیں ۔ زیادہ تر تصوف کو سمجھ ہی نہیں پائے ۔ تصوف کے نام پر چلنے والی دکانداری قابل مذمت ہے ،مگر پاکستانی معاشرے کو آج سب سے زیادہ ضرورت تصوف اورصوفیانہ مزاج کی ہے۔ جس مسلکی شدت، تکفیری مزاج اور اپنے سے اختلاف رکھنے والے کو دین سے خارج کرنے کا رجحان چل رہا ہے، اس میں صوفیوں کی رواداری، برداشت اور ہر ایک کے لئے محبت کا رویہ اپنانے کی شدید ضرورت ہے۔ تصوف کو ''متوازی دین‘‘ سمجھنے والوں نے بھی ٹھوکر کھائی ہے، دراصل یہ کوئی باقاعدہ سکول آف تھاٹ یا فرقہ ہے ہی نہیں۔ہم نے سرفراز شاہ صاحب جیسے صوفی سکالروں سے یہی سیکھا اور جانا ہے کہ تصوف محض ایک ریفارمسٹ موومنٹ ہے، تزکیۂ نفس کرنے ، شریعت کی راہ پر چلانے کی تربیت گاہ۔ ایک طرح کی پری سکول اکیڈمی، جس کا سکول سے کوئی ٹکرائویا مقابلہ ممکن ہی نہیں۔ یہ خرق عادت(غیرمعمولی) قوت حاصل کرنے کا مکتب فکر ہے نہ ہی وظائف کا رسیا بنانا اس کا مقصد۔ حقیقی تصوف عمل پر اکساتا اور کمر باندھ کر جدوجہد کرنا سکھاتا ہے، وہ خلق خدا کی بہتری کے لئے ایثار کرنے کی تربیت دیتا ہے۔ حضرت خواجہ غریب نوازؒ سے پوچھا گیاکہ لوگوں کی کون سی عادت آپ کو ناپسند ہے، آپ نے فرمایا، انسانوں کو اچھوں اور بروں میں تقسیم کرنا۔ سوال ہوا کہ آپ کا پسندیدہ فعل کیا ہے، فرمایا:''ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنا۔‘‘ یہی تصوف ہے ۔ کون اس سے اختلاف کرے گا؟ 
آخر میں کچھ ذکر یوم اقبال کی چھٹی ختم ہونے کا۔وفاقی حکومت اور تین صوبائی حکومتوں نے نو نومبر کی چھٹی ختم کر دی ہے، جبکہ خیبر پختون خوا میں یہ چھٹی برقرار رکھی گئی ۔حکومتی حلقوں کی جانب سے اس فیصلے کی حمایت یہ کہہ کر کی گئی ہے کہ تعطیل کے بجائے ہمارے جیسی قوموں کو کام کرتے رہنا چاہیے۔بات اصولی طور پر غلط نہیں، مگرکام کرنے کی اس قدر'' شوقین ‘‘حکومت کو پہلے سنیچر کی چھٹی تو ختم کرنی چاہیے۔ اس سے سال میں اڑتالیس، پچاس دنوں کی چھٹی ختم ہوجائے گی، یوم اقبال سے تو محض ایک دن کی بچت ہوپائے گی۔ویسے کام کرنے کا جذبہ اہم ہوتا ہے، اہل مغرب نے ہفتہ میں دو چھٹیوںکی طرح ڈالی ،مگر باقی پانچ دنوں میں ان تھک محنت کرنے کی عادت ڈالی، جس نے انہیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔جہاں حکمران ہر ویک اینڈ منانے مری یا اپنے آبائی شہر پہنچ جاتے ہوں، وہاں ایک قومی چھٹی ختم کر کے ملک کی ترقی والی بات مذاق ہی لگتی ہے۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ بعض دنوں اورشخصیات کے حوالے سے تعطیل دے کر انہیں دانستہ اہمیت دی جاتی ہے۔قوم کو بتلایا جاتا ہے کہ یہ دن اس قدر اہم ہیں کہ ان کے لئے کام کاج اور معاش کی جدوجہد جتنا ضروری کام بھی ترک ہوسکتا ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ لوگ مزے سے گھر بیٹھے ہیں، لیکن ٹی وی پروگرام اور اخبارات کی خصوصی رنگین اشاعتیں ان دنوں کی اہمیت راسخ کراتی ہیں، بچوں کو بھی اندازہ ہوجاتا ہے کہ آج کچھ خاص بات ہے ،اسی لئے سکول یا دفتر بند ہیں۔
تجزیہ نگار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے اس حوالے سے پتے کی بات کی ہے۔وہ لکھتے ہیں:'' ان چھٹیوں کو ختم کرنے کا مطلب بتانا ہے کہ یہ اہم نہیں، اصل اہمیت اس ایک دن کام کرنے کی ہے اور یوں وہ چیز اپنی ''سرکاری و قومی‘‘اہمیت کھو بیٹھتی ہے۔ اقبال کوئی ہمہ شمہ نہیں ہے، آپ 60 / 65 سال انہیں مفکر پاکستان بتاتے رہے ہیں۔ قوموں کےPoints Rallying Common یا قومی اتفاق رائے کے عناصر بہت مشکل سے وجود میں آتے ہیں اور اس طرح کی طفلانہ حرکات سے آپ ان سے وہ چھین لیتے ہیں جبکہ آپ کے پاس متبادل کے نام پر دینے کو کچھ نہیں ۔لگتا ہے کہ ہم اقبال سے Detachment & Disassociation کے دور میں داخل ہوا چاہتے ہیں۔ حکومت کو غالباً جاوید اقبال صاحب کی رخصتی کا ہی انتظار تھا تاکہ کوئی ''مسئلہ‘‘پیدا نہ ہو۔ اگلی باری شاید اقبال کی سرکاری سرپرستی اور تعلیمی نصاب کی ہو گی، اور پھر چل سو چل۔ایک مثال سے بات سمجھ آ جائے گی۔ بانی پاکستان کی تاریخ وفات 11 ستمبر ہے۔ اس دن پاکستانی نیوز چینلز پر قائداعظم کا تذکرہ چھٹی ساتویں خبر ہوتی ہے اورنائن الیون کے واقعات اور اسکی برسی پہلی یا دوسری خبر۔اگلے برسوں میں یوم اقبال کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا، شائد اسی سوچ کے تحت یہ فیصلہ ہوا۔‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں