جماعت اسلامی کی نئی سیاست

مئی 2013ء کے انتخابات کو کچھ دن ہو چکے تھے، جماعت اسلامی کے ایک مرکزی رہنما دنیا اخبار کے دفتر آئے، شاید کسی فورم میں شریک ہونا تھا۔ بعد میں ملتے ملاتے وہ میرے کمرے میں بھی تشریف لائے اور کچھ دیر گپ شپ کرتے رہے۔ جماعت اسلامی کو اس الیکشن میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ کراچی اور پنجاب سے سیٹیں انہیں پہلے بھی زیادہ نہیں ملتی تھیں، مگر ان کا ایک پریشر گروپ کے طور پر امیج برقرار تھا۔ لاہور کے کئی حلقوں میں ان کا پندرہ، بیس ہزار پر مشتمل ووٹ بینک موجود تھا‘ جو جماعت کو نشست تو نہیں دلا سکتا تھا‘ مگر اس کی بنیاد پر وہ کسی بڑی جماعت سے اتحاد کرکے کچھ سیٹیں لے لیا کرتی تھی۔ 
2002ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی نے دینی جماعتوں کا اتحاد (ایم ایم اے) بنا کر الیکشن لڑا تھا، جس میں انہیں بڑی کامیابی ملی اور مرکز میں ریکارڈ نشستوں کے علاوہ صوبہ سرحد (کے پی کے) میں صوبائی حکومت کی حصہ داری بھی ملی۔ 2008ء کے انتخابات کا جماعت نے پی ٹی آئی اور بعض دوسری جماعتوںکے ساتھ بائیکاٹ کیا تھا۔ یوں مئی 2013 ء کے انتخابات سے پہلے ان کا بھرم خاصی حد تک قائم تھا۔ جماعت کے کارکن اور ووٹر اپنی گفتگوئوں میں 2002ء کے انتخابات کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے تھے۔ عام انتخابات سے پہلے مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات میں انہوں نے گیارہ سال پرانے انتخابی نتائج کو بنیاد بنا کر لاہور کی بعض نشستیں مانگیں۔ یہ مطالبہ نہ مانا گیا اور آخر جماعت کو اکیلے اپنے پرانے 1970ء کے انتخابات والے نشان 'ترازو‘ پر الیکشن لڑنا پڑا۔ انتخابی نتائج بھیانک خواب کی طرح تکلیف دہ تھے۔ جماعت کا پنجاب میں مکمل طور پر صفایا ہو گیا۔ لاہور میں ستم ظریفی کی انتہا یہ ہوئی کہ بعض مرکزی لیڈروں کو ڈھائی تین ہزار کے قریب ووٹ مل پائے۔ ایسی بری شکست پہلے اسے کبھی نہیں ملی تھی۔ 93ء کے الیکشن میں قاضی حسین احمد کا اسلامک فرنٹ والا ایڈونچر بری طرح ناکام ہوا تھا، مگر تب بھی لاہور میں اتنے کم ووٹ نہیں ملے تھے۔ 
جماعت اسلامی کے رہنما سے ملاقات کا ذکر ہو رہا تھا۔ یہ تفصیل اس لیے بیان کی کہ پس منظر ذہن میں رہے۔ ان سے الیکشن میں شکست کا تذکرہ ہوا تو وہ کہنے لگے: 'جماعت میں اس الیکشن کے حوالے سے غور و خوض ہو رہا ہے، ہم نے اپنی حکمت عملی کا بڑی گہرائی سے مفصل تجزیہ کیا ہے، اپنی غلطیوں سے سیکھ کر خامیوں کو دور کریں گے‘ وغیرہ وغیرہ۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک بڑی کامیابی یہ حاصل ہوئی کہ ہم نے اپنے 70ء والے نشان ترازو کو دوبارہ سے زندہ کر دیا، اب جماعت اپنے طور پر الیکشن لڑنا سیکھ رہی ہے۔ پھر ایک بہت دلچسپ بات کہی۔ بولے: ''ہم نے اب فیصلہ کیا ہے کہ کسی پارٹی سے ملک گیر اتحاد نہیں بنائیں گے۔ اس کا جماعت اسلامی کو نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ ہمیںکم ملتا ہے، مگر اتحادی جماعت کو پورے ملک میں ہماری سپورٹ مفت میں مل جاتی ہے۔ اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیا کریں گے، یہ فیصلہ مقامی تنظیم کرے گی۔ اگر کے پی کے میں تحریک انصاف کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو سکی تو وہاں ایسا کریں گے، پنجاب میں مسلم لیگ ن یا کسی دوسری پارٹی کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کی آپشن بھی کھلی رہے گی، مقامی تنظیم اگر مناسب سمجھے تو وہ ایسا کر سکتی ہے۔ اسی طرح کراچی اور ملک کے دیگر علاقوں میں فیصلے کئے جائیں گے‘‘۔ اس کے ساتھ ہی وہ زیرلب مسکرائے اور ایک فقرہ بولا، جس کا مفہوم یہ تھا کہ اب جماعت اسلامی نے بھی سیاست کرنا سیکھ لی ہے۔ ان کی یہ بات سن کر میں بھونچکا رہ گیا۔ چند لمحوں تک تو بول بھی نہ سکا۔ پھر ہمت کر کے پوچھا: ''یا حضرت! اگر یہ سیاست ہے تو پھر منافقت کس چیز کا نام ہو گا؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک صوبے میں تو آپ ایک بڑی پارٹی مثلاً تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد بنائیں اور دوسری بڑی پارٹی مسلم لیگ ن کے خلاف انتخابی مہم چلائیں‘ پھر پنجاب میں اسی مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر تحریک انصاف کے خلاف انتخابی مہم چلائیں اور تیسرے صوبے میں وہاں کی کسی مقامی جماعت کے ساتھ مل کر ان دونوں کے خلاف مہم چلائیں۔ یہ سب کچھ کرنے کی کیا اصولی بنیاد ہو سکتی ہے؟ کیا جماعت اسلامی کے کارکن اور ووٹر کنفیوز نہیں ہوں گے؟ آج کل تیز ترین میڈیا کا دور ہے۔ پشاور میں امیر جماعت سراج الحق صاحب کی تقریر ٹی وی چینل پر سنائی جائے گی‘ جس میں وہ مرکز میں حکمران جماعت 
مسلم لیگ ن کے لتے لے رہے ہوں گے‘ اور پھر اگلے روز لاہور میں انہی سراج صاحب کی تقریر مسلم لیگی امیدواروں کے ساتھ نشر ہو تو دیکھنے والوں کو کیسا لگے گا؟‘‘ یہ بات سن کر موصوف قدرے بدمزہ ہوئے، مگر برداشت کر گئے اور اٹھتے ہوئے بولے: دیکھیں کچھ مسائل تو آئیںگے، مگر ہم نے یہ اصولی فیصلہ کر لیا ہے کہ اب ملک گیر اتحاد نہیں بنایا جائے گا۔
اس بات کو دو سال گزر گئے۔ جماعت اسلامی نے اپنی نئی انقلابی سیاسی حکمت عملی پر عمل شروع کر دیا ہے۔ خیبر سے کراچی تک اس کے شاندار عملی نمونے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ دھرنا سیاست کے دوران اس کی ابتدا ہوئی، جب سراج الحق صاحب اپنے بیانات میں دلچسپ حکمت عملی اپناتے رہے۔ ایک طرف وہ عمران خان کے تمام مطالبات کی تائید کرتے، الیکشن ریفارمز کی بھرپور حمایت کرتے، مگر ساتھ ہی حکمران جماعت کی بھی سائیڈ لے لیتے۔ انہوں نے خود کو غیرجانبدار رکھنے کی کوشش کی، جماعتی کارکن اس وقت یہ دلیل دیتے تھے کہ کسی کو تو غیرجانبدار رہ کر صلح یا ثالثی کرانی چاہیے۔ یہ دلیل بے وزن نہیں تھی، اس لیے ہمارے جیسے بھی خاموش ہو گئے اور اسے نیک نیتی پر محمول کیا۔ سراج الحق صاحب نے ایک جرگہ بھی بنایا، جس میں حیران کن طور پر ان کے رفیق رحمان ملک تھے۔ خیر اس وقت تو جماعتی حکمت عملی کی کچھ توجیہہ کی جا سکتی تھی، مگر حالیہ بلدیاتی انتخابات میں تو کمال ہی ہو گیا۔ لاہور کے کئی حلقوں میں جماعت اسلامی کے امیدوار مختلف نشانوں پر مختلف جماعتوں کے ساتھ اتحاد بنا کر الیکشن لڑے۔ حد یہ ہوئی کہ ایک حلقے میں جناب لیاقت بلوچ کے 
صاحبزادے پی ٹی آئی کے نشان 'بلے‘ پر الیکشن لڑے تو ایک یونین کونسل میں محترم فرید پراچہ کے بیٹے 'شیر‘ کے نشان پر قسمت آزمائی کرتے نظر آئے۔ اس کا کیا جواز تھا؟ ایک جماعتی کارکن سے بات ہوئی تو تاسف سے انہوں نے بتایا کہ ایسا بھی ہوا کہ ایک گلی میں جماعتی امیدوار ایک پارٹی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے تحت الیکشن لڑ رہا تھا تو دوسری گلی میں جماعت کا ایک اور امیدوار دوسری پارٹی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر کے اس کے نشان پر الیکشن لڑ رہا تھا‘ جبکہ پیچھے والے ایک محلے میں جماعت کا امیدوار ترازو کے نشان پر لڑ رہا تھا۔ جماعت کے کارکن چکرائے ہوئے ہیں کہ شیر کے نشان کے لیے ووٹروںکو قائل کریں یا بلے کے لیے یا پھر اپنے ترازو کے نشان کو یاد رکھیں۔ لاہور کے ضمنی انتخاب میں جماعت اسلامی نے عبدالعلیم خان کی حمایت کی اور سردار ایاز صادق کے خلاف مہم چلائی۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں سپیکر کے انتخاب میں البتہ شفقت محمود کے مقابلے میں اسی ایاز صادق کو ووٹ ڈالا۔ یہ کیا ہے؟ جس شخص کو آپ ایم این اے نہیں دیکھنا چاہتے تھے، اسے سپیکر بنانے کے لیے اپنا مینڈیٹ دے رہے ہیں۔ اگر یہ سیاست ہے تو پھر...!
جماعت اسلامی کے منصوبہ سازوں کو سمجھنا چاہیے کہ یہ کوئی روایتی پارٹی نہیں۔ خود جماعت کے قائدین کا ہمیشہ اصرار رہا ہے کہ یہ روایتی معنوں میں دینی سیاسی جماعت نہیں‘ بلکہ تحریک اسلامی ہے۔ جماعت کی پالیسیوں کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ اسے ہمیشہ ہائی مورل گرائونڈز پر کھیلنا چاہیے، مخالفت میں بھی اصولوں کو نظر انداز نہ کرنا ان کا شیوہ ہونا چاہیے۔ سیاسی دائوپیچ کھیلنا، احتیاط کے ساتھ اپنی آپشنز کا جائزہ لینا ان کا حق ہے، مگر سیٹ ایڈجسٹمنٹ جیسی سیاسی منافقت کو یوں گلے لگانا انہیں زیب نہیں دیتا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک پارٹی ایک صوبے میں تو غلط ہے، اس کے خلاف اتحاد بنا کر لڑا جائے مگر دوسرے صوبے میں جہاں اس کا سیاسی اثر زیادہ ہے، وہاں اس کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑا ہوا جائے۔ یہ اصولی سیاست نہیں۔ انگریزی محاورے کے مطابق خرگوشوں کے ساتھ دوڑنا اور شکاریوں کے ساتھ مل کر انہی خرگوشوں کا شکار کرنا‘ بیک وقت نہیں ہو سکتا۔ ایک آپشن کا انتخاب کر لیا جانا چاہیے۔ 
پاکستان میں سیاست اس وقت دو بڑے کیمپوں میں تقسیم ہو چکی ہے، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف۔ جماعت اسلامی ان دونوں میں سے کسی کو چن لے۔ بیشک اپنی الگ سیاست کرے یا چھوٹے گروپوںکو ملا کر الگ اتحاد بنائے، مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ بیک وقت ان دونوں کیمپوں کے ساتھ اتحاد میں شامل رہیں۔ ایسا کرنے سے فوائد تو کیا ملیں گے، جو تھوڑا بہت ووٹ بینک بچا ہے، وہ بھی تحلیل ہو جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں