صرف صلاحیت کافی نہیں

چند سال پہلے ایک مغربی محقق کاریسر چ آرٹیکل پڑھنے کا اتفاق ہوا۔اس نے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی نامور شخصیات کے کام کا تجزیہ کیا تھا کہ چیمپئن رہنے والوں میں کیا چیزیں مشترک ہوتی ہیں۔ اس فہرست میں عالمی ریکارڈ ہولڈر نامی گرامی کھلاڑی ، گلوکار، شاعر، ادیب ، بزنس مین اور پروفیشنلز شامل تھے ۔نتائج دلچسپ تھے، ریسرچ کے مطابق ان لوگوں میں ٹیلنٹ دوسروں کی نسبت زیادہ تھا،بیشتر کو قدرت نے غیرمعمولی صلاحیتوں سے نوازا تھا۔کس کا جسم فطری طور پر کھیلوں کے لئے موزوں تھا، کوئی مسحورکن آواز کا مالک تھا، تخلیقی ذہن، تخیل کی بے مثل صلاحیت کے ساتھ کچھ لوگوں میں کاروبار کو سمجھنے ، وقت پر فیصلے کرنے کی ایسی استعداد تھی ،جس نے انہیں نمایاں کر دیا۔ مصنف نے البتہ یہ نوٹ کیا کہ کامیابی کے زینے طے کرنے کے لئے صرف ٹیلنٹ کافی نہیں، کچھ اور بھی چاہیے ہوتا ہے۔یہ اضافی صلاحیت آدمی خود پیدا کرتا ہے اور اس کی بیشتر کامیابیوں کا دارومدار اسی پرہوتا ہے۔ یہ اضافی صلاحیت یا''ایکسٹرا ٹیلنٹ‘‘ دراصل اپنے ٹیلنٹ کو بہتر انداز میںپالش کرنے اور اسے انتہائی حد تک بروئے کار لانے کا نام ہے۔ جس نے ایسا کر دکھایا، اس نے اپنی تقدیر بدل دی۔ریسرچ بنیادی طور پر امریکی اور یورپی پس منظر میں تھی، اس حوالے سے کئی مثالیں بھی دی گئیں۔ ان کھلاڑیوں، گلوکاروں ، شاعروں یا ادیبوں کی ،جنہوں نے اپنی ابتدا میں ہر ایک کو چونکا دیا ... یوں لگاجیسے یہ کامیابیوں کے نئے ریکارڈ قائم کریں گے،پھر ایسا ہوا کہ کچھ ہی عرصے کے بعد وہ منظرعام سے ہٹ گئے۔ اوپر جانے کے بجائے ان کا زوال کا سفر شروع ہوگیا اور جیسا کہ اصول ہے ، اوپر جاتے ہوئے رفتار سست ہوتی ہے اور نیچے اترتے ہوئے برق رفتاری سے سفر طے ہوتا ہے۔ان بدنصیبوںکے ساتھ بھی ایسا ہوا۔ ایک آدھی شاہکار کتاب کا مصنف دوبارہ پہلی جیسی تخلیق نہ کرسکا، گلوکار ایسے غائب ہوئے کہ آج دنیا انہیں ان کے پہلے البم کے گانوں ہی سے پہچانتی ہے۔کھلاڑی اپنا معیار برقرار نہ رکھ سکے، ڈسپلن کی خلاف ورزی کرتے رہے، منشیات استعمال کرنے لگے یا پھر کوئی ایسا بلنڈر کر بیٹھے کہ دوبارہ اٹھ ہی نہ سکے۔ 
دو تین دن پہلے معروف فٹ بالر کرسٹیانو رونالڈو پر ایک فلم رونالڈو کے نام سے آئی ہے۔ رونالڈو نام کے دو فٹ بالر مشہور ہوئے ہیں۔ ایک برازیلی فٹ بالر رونالڈو تھے، جنہوں نے اپنے ملک کو فٹ بال کا ورلڈ کپ بھی جتوایا۔ کرسٹیانو رونالڈو کا شمار پرتگال سے ہے، وہ اپنے ملک کو فٹ بال ورلڈ کپ تو نہیں دلوا سکے، کہ اس کے لیے پوری ٹیم کا غیرمعمولی ہونا ضروری ہے، تاہم بطور فٹ بالر انہوںنے پوری دنیا کو اپنے کھیل سے مسحور کر رکھا ہے۔ وہ مشہور یورپی کلب رئیل میڈرڈ سے کھیلتے ہیں، اپنے کلب کو انہوں نے شاندار فتوحات دلوائیں اوردنیا کے بہترین فٹ بالر کا اعزاز ایک سے ز یادہ بارحاصل کیا۔ رونالڈو کا مقابلہ میسی سے کیا جاتا ہے۔ فٹ بال کے ماہرین ان دونوں کو فٹ بال کے بہترین کھلاڑی تسلیم کرتے ہیں، کسی کی نظر میں میسی کو رونالڈو پر معمولی سی سبقت ہے تو کوئی رونالڈو کومیسی پر ترجیح دیتاہے۔اسی رونالڈو پر ایک دستاویزی فلم بنی، فلم بنانے والی ٹیم نے پوراایک سال رئیل میڈرڈکلب کے ساتھ گزارا۔ وہ رونالڈو کے ساتھ وقت گزارتے رہے۔ اس کے گھر جا کر رہے اور رونالڈو کے بیٹے کے بھی انٹرویو کئے۔یاد رہے کہ رونالڈو کے والد عادی شراب نوش تھے اور وہ اچھے باپ ثابت نہیں ہوسکے تھے۔رونالڈو اسی وجہ سے اپنے بیٹے کے حوالے سے بہت سیرئس رہا ہے اور اس نے بچے کو میڈیا سے بچانے کی کوشش کی تاکہ اس کی پرائیویسی برقرار رہے ۔فلم کے ڈائریکٹر جیمز گیریس نے فلم بنانے کے تجربہ اور رونالڈو کی شخصیت کے حوالے سے اپنے دلچسپ تاثرات شیئر کئے ہیں۔جیمز کہتا ہے:'' یہ فلم بناتے ہوئے پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ چیمپئن کی زندگی کتنی کٹھن ہوتی ہے۔ عالمی سپرسٹار ہونا آسان کام نہیں ، کچھ حد تک یہ ڈرائونے خواب جیسا ہے۔رونالڈو کے ساتھ رہ کر ہمیں احساس ہوا کہ وہ ایک سپاہی کی طرح منظم زندگی گزارتے ہیں۔ان کی زندگی بہت زیادہ نظم وضبط والی ہے ، اس کا ہمیں ہلکا سا اندازہ بھی پہلے نہیں تھا۔ ‘‘جیمز کے مطابق :ِ''ہم سب انہیں کروڑپتی رونالڈوکے طور پردیکھتے تھے، جو عالیشان رہائش گاہ میں مقیم ہے، جس کے پاس بڑی بڑی گاڑیاں ہیں اور وہ دنیا کی تمام آسائشوں سے لطف اندوز ہوسکتا ہے۔ قریب سے دیکھنے کے بعداحساس ہوا کہ رونالڈو مختصر فیملی اور دوستوں کے بہت محدود حلقہ میںزندگی گزار رہے ہیں۔ ایک طرح سے یہ تنہائی کی زندگی ہے۔ انہوں نے اپنے کھیل میں مہارت حاصل کرنے کیلئے بہت محنت اور سخت ترین تربیت حاصل کی ہے۔ اس تربیت نے انہیں مستقل مزاج بنا دیا۔ اہم بات یہ ہے کہ جس معیار کے وہ کھلاڑی ہیں، اس معیار اور سطح تک رہنے کے لئے انہیں سفاکانہ حد تک تنہا اور سخت زندگی گزارنا پڑ رہی ہے، یہ اس کا فطری تقاضا ہے۔رونالڈوہمیشہ کے لئے بہترین کھلاڑی بن کر رہنا چاہتے ہیں، وہ کھیل میں اپنی مخصوص اجارہ داری چاہتے ہیں، ٹاپ پر رہنے کے خواہش مند ہیں،یہ سب بے پناہ قربانیوں اور لگن کا متقاضی ہے۔رونالڈو یہ قربانی دے رہے ہیں اور اسی وجہ سے آج دنیا میں ان کا یہ مقام اور اہمیت ہے۔ ‘‘
صرف رونالڈو ہی نہیں، دنیا میںجو بھی شخص ، کہیں پر نمایاں ہونا، ٹاپ پر آنا چاہتا ہے، اس کیلئے اسے ان سے ملتی جلتی چیزوں پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ درحقیقت چمپئن بننے کی یہ قیمت ہے ،جو ہر حال میں چکانی پڑے گی۔ جو ایسا نہیں کر پاتا، اپنی زندگی میںکمٹمنٹ ، سخت محنت اور سفاکانہ ڈسپلن نہیں لا سکتا، وہ نمبر ون کی پوزیشن کا مستحق بھی نہیں۔چند دن پہلے بھارتی کھلاڑی کیپل دیو نے سچن ٹنڈولکر کے حوالے سے ایک بات کہی کہ ٹنڈولکر نے سب سے زیادہ سنچریوں کا عالمی ریکارڈ بنا رکھاہے، مگر وہ اس سے کہیں زیادہ کرنے کے اہل اور مستحق تھے۔ اس پر خاصا شور مچا ،کیپل دیو نے اس کی وضاحت بھی کی کہ میں ٹنڈولکر پر تنقید نہیں کر رہا ، وہ بہت بڑا کھلاڑی ہے،میں صرف یہ کہہ رہا ہوںکہ اس کے پاس زیادہ صلاحیت تھی، اسے زیادہ ریکارڈبنانے چاہئے تھے۔ اس نے زیادہ سنچریاںبناناسیکھ لیا، مگراسے زیادہ ڈبل اورٹرپل سنچریاں بنانے کی ضرورت تھی۔‘‘
مجھے یاد ہے کہ عمران خان نے ایک بار عبدالرزاق کے بارے میں کہا تھا، یہ پاکستان کا بہترین آل رائونڈر ہے ،مگر یہ دنیا کابہترین آ ل رائونڈربن سکتا تھا، افسوس کہ اس نے محنت کر کے ٹاپ پرجانے کے بجائے کم تر پر قناعت کر لی۔‘‘عمر اکمل چیمپئن سٹف نہیں ہے، مگر اس نوجوان کھلاڑی کا کھیل دیکھنے والے اس پر متفق ہیں کہ اس میں خاصا ٹیلنٹ ہے، مگر یہ خود سے انصاف نہیں کر رہا۔ یہ انصاف کرنا کیا ہے؟ اپنی صلاحیتوں کو پورے طریقہ سے استعمال کرنا اور ان میںمحنت سے اضافہ کرنا۔ ایسا کرتے ہوئے مگر خود میںبے رحم قسم کا ڈسپلن لانا پڑتا ہے۔ورزش کو زندگی موت کا مسئلہ بنانا پڑتا ہے۔ تب کہیں جا کر نتائج سامنے آتے ہیں۔ ان سب کے ساتھ ہر قسم کے تنازعات سے دور رہنا،اپنے کردار پر کوئی دھبہ نہ لگنے دینا بھی ضروری ہے،یہی وہ رکاوٹیں ہیں جو بھاگتے کھلاڑی کو منہ کے بل گرنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔
چیمپئن تو خیر بڑی بات ہے، ہم نے زندگی میں اپنے دائیں بائیں ایسے کئی لوگوںکو دیکھا ہوگا،جن میں کسی خاص حوالے سے کوئی صلاحیت موجود تھی،مگر وہ اس سے انصاف نہ کر پائے۔سکول کے ساتھی طلبہ میں سے بعض کے بارے میںہمارااپنا اور اساتذہ کا یہی خیال تھا کہ یہ زندگی کی دوڑ میںآگے نکل جائیں گے۔برسوں بعدجب ہم ان کو دیکھتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے ۔ کوئی بری صحبت میںپڑگیا، کسی نے کمتر ملازمت پر قناعت کر لی ، کوئی زندگی میں آگے بڑھنے کیلئے رسک لینے پرآمادہ نہ ہوا اور بعض نے اپنے غیر معمولی ٹیلنٹ کو تساہل، کاہلی اور غیر ذمہ داری سے برباد کر دیا۔ اس کلیے کو کھیل سے نکال کرسیاست پر لاگو کیا جائے تویہاں بھی ملتے جلتے نتائج ملیں گے۔ زیادہ صلاحیت والے بعض ایسے لوگ سیاست میں اپنی فطری کمزوریوں اور کم ہمتی کے باعث پیچھے رہ گئے اور کم تر صلاحیت کے لوگ مستقل مزاجی اور اچھی حکمت عملی کی وجہ سے آگے نکل گئے۔میاں ممتاز دولتانہ جیسا ذہین اور پڑھا لکھا سیاست دان اس سے بہت کم حاصل کر پایا، جس کا وہ مستحق تھا۔ کامیابی کا سپنا اپنی آنکھوں میں سجانے والوں کو یہ سادہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ آگے بڑھنے کے لئے صرف صلاحیت کافی نہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں