کھیل ابھی شروع ہوا ہے

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے اچانک دورہ پاکستان نے ہر ایک کو حیران کر دیا۔ ہم پاکستانیوں کی نفسیات میں ایک خاص سطح کا عدم تحفظ اور خوف موجود ہے۔اس میں عوام کا قصورنہیں، ان بے چاروں کے ساتھ اتنے دھوکے ہوچکے ہیں کہ معمولی سی آہٹ پر دل دھڑک اٹھتے ہیں۔دراصل ہمارے ہاں باہر کے اشارے پر بڑے بڑے فیصلے ہوجاتے ہیںاور سب کچھ طے ہوجانے کے بعد عوام کو بتائے جانے کی نوبت آتی ہے۔جنرل پرویز مشرف کے دور میںحدود آرڈیننس میںترمیم کے حوالے سے اچانک ہی شور اٹھا ،یوںلگاکہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ترمیم ہے۔ بعدمیںمعلوم ہوا کہ باہر سے اس حوالے سے ایک بڑی کیمپئن سپانسر ہوئی تھی۔جوابی طور پر مولوی صاحبان نے بھی خوب شور مچایا ، دونوںطرف سے تندوتیز بحث مباحثے ہوتے رہے۔انگریزی محاورے کے مطابق چائے کی پیالی میں طوفان اٹھایا ،جس کی مثال نہیں ملتی۔آج حال یہ ہے کہ مذکورہ ترمیم ہوبھی چکی، خواتین کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
بھارت کے ساتھ تعلقات کی نوعیت بھی ایسی حساس ہے کہ معمولی سی پیش رفت بہت سوں کو چوکنا کر دیتی ہے۔اس میں کوئی حرج بھی نہیں ، بعض پریشر گروپس ریاست کے لئے مفید بھی ثابت ہوتے ہیں۔ حکمرانوں کے لئے تب بیرونی دبائو کا سامنا کرنا آسان ہوجاتا ہے، انہی پریشر گروپس کے احتجاج کا عذر انہیں کئی مشکل فیصلوں سے بچت کرا دیتا ہے۔جمہوریت اورسیاسی نظام کی ایک بڑی افادیت یہی ہے کہ قومی مشاورت کے ساتھ فیصلے ہوسکتے ہیں، اجتماعی قومی دانش بھی بروئے کار آتی ہے اور پارلیمنٹ کی قوت کے بل بوتے پر حکمران اگر چاہیں توعالمی دبائو کامقابلہ کر سکتے ہیں۔ خلیج کی دوسری جنگ کے موقع پر امریکی صدر بش نے ترکی پر زبردست دبائو ڈالا کہ وہ امریکی اتحادیوں کے ساتھ شامل ہو اور صدام حسین کی حکومت کے خاتمے میں تعاون کرے، امریکہ ترکی کی سرحد بھی استعمال کرنا چاہتا تھا۔ امریکہ نے ترکی کوکئی ارب ڈالر کی امداد اور دیگر سہولتوں کی پیش کش بھی کی۔ ترک وزیراعظم نے جمہوری رویہ اپناتے ہوئے کہا کہ ہم یہ معاملہ پارلیمنٹ میں لے جائیں گے۔ ترک پارلیمنٹ میں اس پر بڑی دھواں دھار بحث ہوئی، جس کے بعد اکثریتی رائے سے یہ فیصلہ ہوا کہ ترک سرزمین اس جنگ کے لئے استعمال نہیںہونے دی جائے گی۔ امریکی ساز اس پر بڑے تلملائے،مگر ترک پارلیمنٹ کے فیصلے کو تسلیم کرنا ان کی مجبوری تھی۔
ہمارے ہاں دفاع پاکستان کونسل کے پلیٹ فارم پر بعض مذہبی تنظیمیں اور گروپ سرگرم رہتے ہیں۔ ہمارے لبرل ،سیکولر دانش ور اس پر ناک بھوںچڑھاتے اوربرہمی کا اظہار کرتے ہیں۔وہ یہ نہیں سمجھ سکتے کہ ہر پریشر گروپ کی اپنی افادیت اور اہمیت ہے، شرط یہ ہے کہ وہ سیاسی انداز سے بروئے کار آتے رہیں۔اس کی دوسری انتہا وہ گروپ ہیں،جو ہرقیمت پر بھارت سے دوستی کے لئے سرگرم رہتے ہیں۔
نریندر مودی کے دورہ سے دو باتیں واضح ہور ہی ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے پیچھے امریکی دبائو کارفرما ہے۔یہ مودی تھے،تین چار ماہ پہلے ان کی زبان شعلے اگل رہی تھی۔چند ہفتوںسے اچانک ہی وہ پاک انڈیا دوستی کے سفیر بن گئے ہیں۔ڈپلومیسی میںمعجزے نہیں ہوتے، ریاستوںکے تعلقات بے رحم سچائیوں اور تلخ زمینی حقائق پر چلتے ہیں۔ نیک دل بادشاہ اور ہمسایوں کے لئے ہمدردی کا جذبہ رکھنے والے حکمران صرف قصے کہانیوں میںملتے ہیں۔امریکہ بہادر ایسادو وجوہ کی بنا پر کر رہا ہے۔ایک تو اس کی اور اس کے اتحادیوںکی تمام تر توجہ مشرق وسطیٰ پر ہے،بر صغیر کو وہ سردست پرسکون اور خاموش دیکھنا چاہتے ہیں،پاک بھارت انگیج منٹ اس لئے کرائی گئی ہے۔دوسرا امریکہ اپنے سٹریٹجک پارٹنر بھارت کو اس پورے خطے میں اہم اور بنیادی رول دلانا چاہتا ہے،بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ وہ بھارت کو ملنے والے اہم کردار کو باقاعدہ اورقانونی(Ligitimate)بنانا چاہتا ہے۔
پاکستانیوں کو یہ نوید ہو کہ ان کی سول اور ملٹری لیڈرشپ کی کوششیں اس حد تک کامیاب ہوئی ہیں کہ اب پاکستان کا بھی اس خطے میںاہم کردار تسلیم کر لیا گیا ہے۔ چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور بنے گا، اس کی راہ میں کوئی ملک روڑے نہیںاٹکائے گا۔یہ بھی امکان ہے کہ بتدریج دوسرے ملک بھی اس میں شامل ہوجائیں۔افغانستان 
میںپاکستان کا اہم کلیدی کردار تسلیم کر لیا گیا۔ پوسٹ امریکہ افغانستان پاکستان کے خلاف نہیں ہوگا اور اس کے امن اور استحکام کے لئے پاکستان اپنا کردار ادا کرے گا۔ افغان طالبان کو ناپسند کرنے والے پاکستانی لبرلز کے لئے یہ خبر خاصی تکلیف دہ ہوگی، مگر یہ حقیقت ہے کہ افغان طالبان مستقبل کے افغانستان کا اہم حصہ ہوں گے اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے امریکہ کے بے پناہ دبائو کا برسوںمقابلہ کر کے حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کے دیگر دھڑوں کو جو سپورٹ فراہم کی ، وہ پالیسی رنگ لائی ہے۔تاپی گیس پراجیکٹ کی تکمیل سے پاکستان کو سستی گیس (ایران سے ملنے والی مجوزہ گیس دس فیصد مہنگی ہے)میسر ہوگی اور بجلی کی فراہمی کا راستہ بھی کھلے گا۔ 
نریندر مودی کے اچانک دورے سے پاک بھارت تعلقات میں ایک سافٹ نیس پیدا ہوئی ہے، اس کا مقصد بھی صرف اتنا ہی تھا۔اس ملاقات کے موقعہ پر نیشنل سکیورٹی ایڈوائزرز کی عدم موجودگی اور وزارت خارجہ کے کلیدی افسران کے نہ ہونے کی وجہ یہی ہے۔ پاک بھارت سیکرٹری خارجہ ملاقات البتہ فائنل ہوگئی، اس سے معاملات آگے بڑھیں گے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ بھارت کے تمام ترمعاملات خطے کے سٹریٹجک معاملات اور مستقبل کے تجارتی اور معاشی راستوں سے لنک ہیں۔ بھارت افغانستان اور سنٹرل ایشیا کے ساتھ جڑنا چاہتا ہے۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے پہلے اس نے دبائو کی حکمت عملی اپنائی،پاکستان کو کنٹرول لائن پر تنگ کیا،بلوچستان 
اور فاٹا میں عسکریت پسندوں کی پشت پناہی اور مالی معاونت کی۔ یہ حربے کامیاب نہیں ہوسکے۔ آپریشن ضرب عضب کے ذریعے پاکستانی فوج نے ایک طرف ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کا نیٹ ورک توڑ ڈالا، دوسری طرف بلوچستان 
میں بھارت کے سب سے بڑے ایجنٹ دہشت گرد گروپ بی ایل ایف (ڈاکٹر اللہ نذر گروپ)کی کمرتوڑ ڈالی، ماشکے، اواران اور تربت جیسے علاقے جو اس تنظیم کا گڑھ تھے، وہاں کامیاب آپریشن کر کے کئی فراری کیمپ تباہ اور علاقے کلیئر کرالئے گئے ہیں۔ابCPACکے حوالے سے پاکستان کو بلوچستان میں بھارتی سپورٹ درکار نہیں ہے،اس کے بغیر ہی معاملات کنٹرول میںآ چکے ہیں۔ بھارت نے مجبوراً اب ڈپلومیسی کی راہ اپنائی ہے۔ بھارت کی خواہش ہے کہ اسے افغانستان میںکوئی کردار ملے، پاکستان کے راستے افغانستان تجارتی سامان بھیجنے کا روٹ طے ہوجائے اور یوں بھارت کے لئے افغانستان اور سنٹرل ایشیا تک پہنچنے کا قریب ترین اور سستا ترین راستہ بن جائے،عالمی گارنٹیر جس کی ضمانت دیں ،تاکہ بعد میںپاکستان یہ سہولت واپس بھی نہ لے سکے۔
دوسری طرف پاکستان کے تمام ایشوز کا تعلق ماضی سے ہے ۔ مسئلہ کشمیر، سرکریک کا ایشو، سیاچن کا محاذ ...یہ سب کئی عشرے پرانے ایشوز ہیں، مگردونوں ممالک کے مابین مخاصمت اورکشیدگی ان بنیادی تنازعات کی وجہ سے ہے اور رہے گی۔ ان میں ایک اہم اضافہ پانی اوربگلیہار جیسے ڈیموں کا ہے۔ آنے والے برسوں میں پانی کی قلت کے ساتھ بھارتی آبی دہشت گردی کا معاملہ زیادہ نمایاں ہوگا، اس جانب ابھی سے توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ان تمام ایشوز کو نمٹائے بغیردوستی کا سفرشروع نہیں ہوسکتا۔ یہ وہ بات ہے جو بھارت ، عالمی برادری اور پاکستان میں بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے مؤید حلقوںکو سمجھنا ہوگی۔اس لئے ابھی کھیل شروع ہواہے، کئی رائونڈز کھیلے جانے باقی ہیں، ہوشیار اور مستعد رہنے کی ضرورت ہے،لیکن ضرورت سے زیادہ ردعمل دینا بھی مناسب نہیں۔ جماعت اسلامی کا احتجاج بلاجواز اور قبل از وقت تھا۔وزیراعظم مودی نے اچانک پاکستان آ کرپوائنٹ سکور کرنے کی کوشش کی، جماعت اسلامی جیسے گروپوں کا احتجاج بھارتی موقف کو مضبوط بناتا ہے کہ ہم تو دوستی چاہتے ہیں، مگر پاکستانی انتہا پسند ایسا نہیں کرنے دے رہے۔ اس کے بجائے جو پاکستانی حکومت نے کیا، وہ درست تھا۔مودی کو پروٹوکول ملنا چاہیے، اگر وہ جپھی ڈالیں تو جواباً زیادہ جوش سے انہیں جپھی ڈالنی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ مگر یہ بھی واضح کر دینا چاہیے کہ اصل معاملے کی طرف آئیں، ان مصنوعی اقدامات کے بجائے سنجیدگی سے مذاکرات کریں ، ایشوز حل کریں گے تب جا کر پائیدار امن قائم ہوسکتا ہے۔جذبات کے بجائے ٹھنڈے دل ودماغ سے ڈپلومیسی کریں، اپنے مفادات اور اصولی موقف پر کسی بھی قسم کا کمپرومائز کئے بغیر۔ جدید دنیا میں کام کا یہی اسلوب ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں