لاہور کاکتاب میلہ

ہوسٹل کے زمانے میں ہمارا ایک دوست کتابوں سے ازحد لگائو رکھتا تھا۔ کتابیں وہ پڑھتا تو تھا ہی، مگر خرید کر بطور تحفہ دینے اور دوسروں کو پڑھنے کی ترغیب دینے کا بھی اسے بے حد شوق تھا۔ کتابوں کے حوالے سے ایسی بے نیازی کم ہی دیکھنے کو ملی۔ وہ کتاب میلوں، کتابوں کی سیل اور پرانی کتابوں کی دکانوں سے درجنوں اٹھا لاتا۔ چند دنوں میںچاٹ ڈالتا اور پھر اس کی یہی کوشش ہوتی کہ اگلے چند دنوں میں انہیں پھیلا دے۔ اگر خوش قسمتی سے کوئی کتاب واپس آجاتی تو اگلے ہی روز کسی اور دوست کو پڑھنے کے لئے دے دیتا۔ اکثر ہمیں بھی اس کی ترغیب دیتا۔ الحمد للہ خاکسار پر ان نصیحتوں کا قطعی اثر نہیں ہوا۔ ہم نے پہلے دن سے ٹھان لی تھی کہ کسی کو اپنی کتاب دینی نہیں اور لے کر واپس کرنی نہیں۔ اس سنہری اصول کی ''برکت‘‘ سے آج یہ حال ہے کہ گھر میں ہر جا کتابیں ہی بکھری ہیں اور گھر والوں کو بیٹھنے کے لئے جگہ باقاعدہ ڈھونڈنی پڑتی ہے۔
ان دنوں (مارچ/ اپریل) میں پنجاب یونیورسٹی کا کتاب میلہ مشہور تھا۔ اس کے انتظام وانصرام میں اسلامی جمعیت طلبہ والے پیش پیش ہوتے، بعد میں جمعیت اور یونیورسٹی انتظامیہ کا ایسا ٹکرائو شروع ہوا کہ ایک دو بار تو یہ میلہ ہو ہی نہیں سکا، یا لگتا رہا تو اس میں وہ رونق نہ رہی۔ لاہور انٹرنیشنل بک فیئر کے نام سے زیادہ بڑے پیمانے پر کتاب میلہ شروع ہوا تو توجہ کا مرکز بن گیا۔ شروع کے کئی برسوں میں فورٹریس سٹیڈیم میں یہ میلہ لگتا رہا، وہاں جگہ نسبتاً کم تھی، جس کی وجہ سے بک سٹالز محدود تعداد میں لگ پاتے۔ ایک فائدہ البتہ تھا کہ فورٹریس سٹیڈیم شہر کے وسط میں ہے اور وہاں پبلک ٹرانسپورٹ نہایت آسانی سے رات گئے تک دستیاب ہے۔ بعد میں جوہر ٹائون میں ایکسپو سنٹر بن گیا، جہاں پوری شان وشوکت کے ساتھ یہ کتاب میلہ لگنا شروع ہوگیا۔ یہاں ایک مسئلہ ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ دستیاب نہیں۔ لاہور میں ہونے والی ہر تقریب، میلے، سیمینار پر جناب خادم اعلیٰ کی تصویر لازمی ہوتی ہے، کتاب میلے کے بینرز پر بھی ایسا تھا۔ معلوم نہیں یہ مشورہ کس دانا نے انہیں دیا ہے۔ انہیں شاید یہ علم نہیں کہ اوور ایکسپوژر کتنے منفی اثرات کا حامل ہوتا ہے، لوگ ایک ہی آدمی کی تصویر ہر جگہ دیکھ کر بیزار ہو جاتے ہیں۔ 
بات کتاب میلے کی ہو رہی تھی۔ ہفتہ کا دن وہیں گزرا۔ کئی گھنٹے کتابوں کی خوشبو سونگھتے رہے۔ جس قدر جیب نے اجازت دی خرید لیں، بلکہ بٹوہ خالی ہوگیا تو وہیں لگے اے ٹی ایم مشین کا سہارا بھی لینا پڑا۔ کتاب میلے میں کچھ وقت گزارنا زندگی کا ایسا شاندار تجربہ ہے کہ برتے بغیر اس کا اندازہ نہیں ہوسکتا۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا آنا، انہیں مختلف سٹالز پر گھومتے، اپنی پسندکی کتابیں خریدتے دیکھنا کسی زود اثر انرجی ڈرنک کے استعمال کے مترادف ہے۔ اس بار بڑی تعداد میں نوجوانوں کو خاص کر اتنی دلچسپی سے کتابیں خریدتے دیکھ کردلی مسرت ہوئی۔ معاشرہ بدلنے کا طریقہ یہی ہے کہ لوگوں میں مطالعہ کا ذوق پیدا کیا جائے، کتابیں ان کی رسائی میں ہوں اور ان کی ذہنی و فکری تربیت کی جائے۔ کتاب میلے میں بے شمار اچھی اور عمدہ کتابیں نظر آئیں، ان کی فہرست بنانا چاہوں تو ناکام رہوں گا۔ اس بار پھر شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ دوسرے شہروں خاص کر کراچی اور اسلام آباد کے ناشروں کو لازمی لانا چاہئے۔کراچی والوں کو اگر ترغیب دی جائے اور سٹالز کی فیس میں معقول سبسڈی دی جائے تو وہ شامل ہوسکتے ہیں۔ اسلام آباد سے دوست پبلی کیشنز جیسے دوسرے اداروں کو شامل ہونا چاہیے تاکہ خریدنے والوں کے سامنے زیادہ بہتر انتخاب موجود ہو۔ 
اس بار بھی فکشن نے میدان مارا ہوگا، اگر چہ نان فکشن خاص کر مذہبی لٹریچر میں لوگ دلچسپی لیتے نظر آئے۔ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کی مطبوعات کے سٹال کے علاوہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا سٹال بھی اپنے مخصوص انداز میں موجودگی کا احساس دلا رہا تھا۔ مجھے مولانا وحید الدین خان کی کتابوں کا سٹال دیکھ کر خوشی ہوئی۔ مولانا کی کتابیں نہایت آسان انداز میں تحریر کردہ ہیں اور ان کی طاقتور فکر کی ہمارے عدم توازن سے محروم معاشرے کو شدید ضرورت بھی ہے۔ نامور ترک سکالر فتح اللہ گولن کی بہت سی کتابوں کے اردو تراجم ہوچکے ہیں، وہ بھی رش لے رہے تھے۔ کئی لوگ چند دن پہلے انتقال کرنے والے انتظار حسین کے افسانوی مجموعوں، ناولوں اور ان کی دیگر کتابوں کے بارے میں 
دریافت کرتے پائے گئے۔ انتظار حسین واقعی اس درجے کے مصنف ہیں کہ ان کو بار بار پڑھا جائے اور ان کی کتابوں کو اپنی لائبریری کا حصہ بنایا جائے۔ فکشن رائٹروں میں آج بھی سب سے ممتاز''منٹو ‘‘ ہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ منٹو صاحب کا کل بھی راج تھا، آج بھی ہے اور مستقبل بھی انہی کا ہے۔ منٹو ہمیشہ سے'' ان‘‘ تھا، مگر اس قدر زور شور سے دوبارہ زیر بحث آنے میں سرمد کھوسٹ کی فلم منٹو نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس فلم سے یہ فائدہ ہوا کہ انگریزی میڈیم کلاس بھی منٹو کی طرف متوجہ ہوئی۔ منٹو کے مختلف افسانوں کے انتخاب پر مشتمل کتابیں کئی پبلشرز نے چھاپ رکھی ہیں۔ منٹو کا مکمل کام سات جلدوں میں معروف افسانہ نگار اور نقاد امجد طفیل نے مرتب کیا ہے۔ پہلی تین جلدوں میں ان کے افسانے، چوتھی میں ڈرامے، پانچویں میں منٹو کے سدا بہار خاکے، چھٹی میں مضامین اور ساتویں جلد میں منٹو کے کئے ہوئے تراجم شامل ہیں۔ یہ سیٹ نیریٹوز (Narratives) اسلام آباد نے شائع کیا ہے۔ 
آخر میں لاہور کے کتاب میلے کے حوالے سے وائس آف جرمنی (ڈوئچے ویلے اردو) پر آنے والی معروف صحافی تنویر شہزادکی دلچسپ رپورٹ کا ایک ٹکڑا جسے پڑھ کر کتاب دوست لوگوں کی کسی حد تک ڈھارس بندھے گی: ''کتاب میلے کے منتظم اور لاہور انٹرنیشنل بک فیئر ٹرسٹ کے چیئرمین زبیر سعید نے بتایا: 'اس سال ہمیں اس میلے میں شرکت کے خواہش مند 40 سے زائد پبلشرز سے معذرت کرنا پڑی ہے کہ ہم جگہ کم ہونے کی وجہ سے انہیں سٹال نہیں دے سکتے۔ ہم نے وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر سے رابطہ کر کے کہا ہے کہ حکومت آئندہ برسوں میں ہمیں مزید ہال فراہم کرے تاکہ اس علمی روایت کو بہتر طریقے سے آگے بڑھایا جا سکے۔ حکومت کراچی میں کتاب میلے کے لیے کم پیسوں میں جگہ فراہم کرتی ہے جبکہ لاہور کتاب میلے کے پانچ دنوں کے لیے حکومت کو 65 لاکھ روپے دینا پڑے ہیں۔ اگر حکومت اس سلسلے میں ہمیں کچھ رعایت دے دے تو پھر بہت سے چھوٹے پبلشرز کے لیے بھی اس میلے میں سٹال لگانا ممکن ہو جائے گا‘۔ زبیر سعید کے مطابق پہلے ہی دن ہونے والی کتابوں کی سیل ایک کروڑ روپے سے تجاوز کر چکی ہے جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ بہت سے سٹالز پر سٹاک ختم ہو چکا ہے۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن کے سٹال پر موجود ایک سیلز مین نے بتایا کہ انہیں اپنے گاہکوں سے معذرت کرنا پڑ رہی ہے کہ 'ہماری کتابوں کی پوری رینج اب کل ہی دستیاب ہو سکے گی۔ ہم نے ہنگامی طور پر نیا سٹاک منگوانے کا آرڈر دے دیا ہے۔ پچھلے سال اس میلے میں 270 سٹالز لگے تھے جبکہ اس سال یہاں 285 سٹالز لگائے گئے ہیں۔ اس بار اس میلے میں امریکہ، بھارت، برطانیہ، ترکی اور ایران سمیت سات ملکوں کے بین الاقوامی پبلشرز نے بھی 30 سٹالز لگائے ہیں۔ فرانس کے ایک اشاعتی ادارے نے بھی پہلی مرتبہ اس میلے میں شرکت کی ہے۔ اس میلے کی خاص بات یہ ہے کہ لوگوں کی اتنی بڑی تعداد شریک ہوئی ہے کہ پارکنگ کے لئے جگہ بھی کم پڑ گئی اور بعض اوقات رش کی وجہ سے کتابیں خریدنے والوں کو انتظار بھی کرنا پڑا‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں